جنگلاتی آگ میں شدت: تازہ ہوا کے معیار پر مضر اثرات کے بارے میں تہلکہ خیز رپورٹ

ویب ڈیسک

اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (یو این ای پی) کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں دس میں سے نو افراد ایسی ہوا میں سانس لیتے ہیں، جو عالمی ادارہ صحت کے فضائی معیار کے رہنما اصولوں پر پورا نہیں اترتی

اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ طویل خشک سالی اور عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے گرمی کی لہریں جنگلاتی آگ کو بڑھاوا دے رہی ہیں، جس کی وجہ سے ہوا کے معیار پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں

اس عالمی تنظیم کی ایک تازہ رپورٹ میں ہوا کے اس خراب معیار کے انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام کے لیے وسیع نتائج کو ’موسمیاتی سزا‘ قرار دیا گیا ہے

ڈبلیو ایم او کی رپورٹ 8 ستمبر کو ’نیلے آسمان کے لیے صاف ہوا‘ کے عالمی دن سے پہلے شائع کی گئی۔ اس سال کا موضوع ‘دی ایئر وی شیئر‘ یا ’ہماری سانجھی ہوا‘ ہے

ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پیٹیری تالاس کے مطابق ”جیسے جیسے دنیا گرم ہو رہی ہے، جنگل کی آگ اور اس سے وابستہ فضائی آلودگی میں کم اخراج کے منظر نامے کے تحت بھی اضافہ متوقع ہے۔ انسانی صحت پر اثرات کے علاوہ اس سے ماحولیاتی نظام بھی متاثر ہوگا کیونکہ فضائی آلودگی فضا سے زمین کی سطح کے درمیان موجود ہوتی ہے۔‘‘

تالاس کہتے ہیں ”یہ مستقبل کا پیش خیمہ ہے کیونکہ ہم گرمی کی لہروں کی شدت اور دورانیے میں مزید اضافے کی توقع کرتے ہیں، جس سے ہوا کا معیار اور بھی خراب ہوسکتا ہے، یہ ایک ایسا مظہر ہے، جسے موسمیاتی سزا کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘

یہ ’سزا‘ جزوی طور پر اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلیاں زمین پر اوزون کی سطح میں اضافہ کر رہی ہیں

اس طرح کی اوزون بلندی پر پائی جانے والی اوزون سے مختلف ہوتی ہے، جو زمین کو سورج کی شعاعوں سے بچاتی ہے۔ زمینی اوزون ایک نقصان دہ آلودگی ہے جو لوگوں کے سانس لینے والی تازہ ہوا کو خراب کرتی ہے

ڈبلیو ایم او کی رپورٹ میں 2021ع کے دوران جنگل کی آگ کے دھوئیں پر توجہ مرکوز کی گئی، جب مغربی شمالی امریکہ اور سائبیریا میں جنگل کی آگ نے چھوٹے مادے یا پی ایم 2.5 ذرات (2.5 مائیکرو میٹر یا اس سے چھوٹے ُقطر کے ساتھ ذراتی مادہ) کی سطح میں اضافہ کیا جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے

ڈبلیو ایم او کے مطابق ہوا کا معیار اور آب و ہوا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ ہوا کے معیار کو پست کرنے والے کیمیکلز اکثر مضر صحت گرین ہاؤس گیسوں کے ساتھ خارج ہوتے ہیں۔ جب جنگلات یا فوسل ایندھن کو جلایا جاتا ہے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ ساتھ نائٹروجن آکسائیڈ بھی خارج کرتے ہیں، جو سورج کی روشنی کے ساتھ ردعمل کرکے نقصان دہ اوزون اور نائٹریٹ ایروسول بنا سکتے ہیں

یہ آلودگیاں قدرتی ماحولیاتی نظام پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، جس سے صاف پانی، حیاتیاتی تنوع، کاربن کا ذخیرہ اور فصلوں کی پیداوار منفی طور پر متاثر ہوتی ہے

سب سے زیادہ متوقع ’آب و ہوا کے سزا یافتہ‘ علاقے بنیادی طور پر ایشیا میں ہیں اور دنیا کی تقریباً 25 فیصد آبادی یہاں بستی ہے۔ اگر عالمی درجہِ حرارت صدی کے آخر تک صنعتی سطح سے 5.4 ڈگری فارن ہائیٹ تک بڑھ جاتا ہے، جو موجودہ متوقع اخراج کے مطابق ہے، تو شدید آلودہ علاقوں میں سطحی اوزون کی سطح میں اضافہ متوقع ہے۔ اس ضمن میں پاکستان، شمالی بھارت اور بنگلہ دیش میں درجہ حرارت میں 20 فیصد جبکہ مشرقی چین میں 10 فیصد اضافہ شامل ہے

ڈبلیو ایم او کی رپورٹ 8 ستمبر کو ’نیلے آسمان کے لیے صاف ہوا‘ کے عالمی دن سے پہلے شائع کی گئی۔ اس سال کا موضوع ‘دی ایئر وی شیئر‘ یا ’ہماری سانجھی ہوا‘ ہے، جو فضائی آلودگی کی سرحد پار نوعیت پر مرکوز ہے

اس تقریب کا اہتمام کرنے والے اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (یو این ای پی) کے مطابق ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں دس میں سے نو افراد ایسی ہوا میں سانس لیتے ہیں، جو عالمی ادارہ صحت کے فضائی معیار کے رہنما اصولوں پر پورا نہیں اترتی

یو این ای پی نے اجتماعی جوابدہی اور اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فضائی آلودگی سے نمٹنے والی تخفیفی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی تعاون کی ضرورت کو اجاگر کیا

جیسا کہ ڈبلیو ایم او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے، گرمی کی لہروں اور ان کے ساتھ آنے والی جنگل کی آگ کو کم کرنے کے لیے کاربن غیر جانبداری کلیدی اہمیت کی حامل ہوگی

حکومتوں کی ہوا کے معیار پر فوسل ایندھن کو ترجیح

واضح رہے کہ سن 2015 سے 2021ع کے درمیان مختص عالمی سرکاری امداد کے بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ دنیا بھر میں بیرونی فضائی آلودگی سے نمٹنے کے منصوبوں کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ فضائی آلودگی سے نمٹنے والے لندن میں قائم ایک غیر سرکاری اداراے کلین ایئر فنڈ کے مطابق ان منصوبوں میں چار گنا زیادہ رقم خرچ کی گئی جو فوسل ایندھن کے استعمال کو طول دیتے ہیں

’کلین ایئر فنڈ‘ کی طرف سے بدھ کو جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک کو سن 2015 سے 2021ء کے درمیان فضائی آلودگی کے لیے صرف 0.3 فیصد ترقیاتی امداد ملی، باوجود اس کے کہ ہوا کا ناقص معیار ایچ آئی وی/ ایڈز کے بعد براعظم افریقہ میں بسنے والوں کا دوسرا سب سے بڑا قاتل ہے

جب حکومتیں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی ماحولیاتی ”کوپ 27 کانفرنس‘‘ کے مصر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی تیاری کر رہی ہیں تو ماحولیاتی بہتری کے اقدامات کے لیے مہم چلانے والی تنظیمیں اور کارکن ان حکومتوں سے فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے والے متبادل اور کم کاربن والی توانائی کےحصول کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈنگ اور پالیسی وعدوں پر زور دے رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close