حکومت مل گئی پر ووٹ کو عزت نہ مل سکی

تنویر شہزاد

’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگانے والی پاکستان کی متحدہ اپوزیشن کو حکومت تو مل گئی ہے لیکن اس سوال کا جواب ابھی باقی ہے کہ ووٹ کو عزت کیوں نہ مل سکی۔

پاکستان میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ‘ووٹ کو عزت دو‘ محض ایک نعرہ ہے، جسے سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے استعمال کرتی ہیں, لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ان کو اقتدار مل جاتا ہے تو پھر وہ ووٹ اور ووٹروں کو بھول جاتی ہیں

کئی عشروں پر پھیلے ہوئے پاکستان کے سیاسی حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں، ریاستی ادارے، ذرائع ابلاغ اور کسی حد تک عام ووٹرز بھی ووٹ کو عزت دینے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں

حالیہ سیاسی بحران میں ووٹوں کو عزت نہ مل سکی
ہم نے پچھلے چند ہفتوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جو مناظر دیکھے ہیں، اس سے ووٹ کو عزت ملتی دکھائی نہیں دی

ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت، فلور کراسنگ کے فخریہ بیانات، چند دن پہلے کی اپوزیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کے ارکان توڑ لینے کے بعد وفاقی وزیر پرویز خٹک کی طرف سے اپوزیشن کے زیادہ ارکان توڑنے کے دعوؤں سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ ہماری سیاسی جماعتیں ابھی تک ووٹ کو عزت دینے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں

پاکستان مسلم لیگ نون اور اس کے رہنماؤں نے ووٹ کو عزت دو کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، وہ بھی محض دعوے ہی ثابت ہوئے

اس بات کو کون مانے گا کہ تین سالوں سے ”خجل خوار‘‘ ہونے والی پی ڈی ایم اپنے آپ ہی متحد ہو گئی، کس کو یقین آئے گا کہ ایم کیو ایم، ترین گروپ اور علیم خان گروپ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نون لیگ کی محبت میں اپنے آپ، بغیر کسی اشارے کے اپوزیشن سے آ ملے

رات کی تاریکیوں میں عدالتوں کا کھلنا، زرداری صاحب کے مقدمات کا کراچی منتقل ہونا اور شہباز شریف پر فرد جرم عائد نہ ہو سکنا ظاہر کرتا ہے کہ ”کوئی تو ہے جو نظام مملکت چلا رہا ہے“

غیر جانب دار تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ہم نے اگر ووٹ کو عزت دینی ہے تو پھر ہمیں حکومتوں کو بدلنے کا اختیار بھی ووٹ کو ہی دینا ہو گا

اگر حکومتوں کی تبدیلی ووٹ کے بغیر ’’کسی اور‘‘ کی کوششوں سے ممکن ہونی ہے تو پھر ووٹ کو عزت دینے کے وعدوں سے گریز ہی کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ووٹ کی توہین ہے کہ اسے نوٹ سے آلودہ کیا جائے

آج کل عوامی محفلوں میں یہ فقرہ عموماً سننے کو ملتا ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو نکالا ہے، انہوں نے اسے جلدی اقتدار میں واپس نہیں آنے دینا

شاید اسی لیے بہت سوں کو انتخابات کے انعقاد کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ کیا الیکشن سے پہلے کسی جماعت کو ٹارگٹ کرکے ریاستی وسائل کے استعمال سے جھوٹا سچا پراپیگنڈہ کرکے ووٹروں پر اثر انداز ہونا ووٹ کو عزت دینے کے عمل سے مطابقت رکھتا ہے؟

ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری کو بغیر کسی دباؤ کے ووٹ دینے اور ووٹ لینے کی آزادی ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس شخص کو ووٹ ڈالا جائے ووٹوں کی گنتی کے وقت وہی ووٹ نکلے اور وہ ووٹ اسٹیمپیں لگا کر ضائع نہ کیا جائے اور اسے درست طریقے سے گنتی میں شامل کیا جائے

رات گئے فون آنے کے باوجود اسے ہی کامیاب قرار دیا جائے جس کو عوام نے ووٹ ڈالے ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عوام نے جس پارٹی کے منشور پر اس کے ٹکٹ ہولڈر کو جو ووٹ دیا ہے وہ پیسوں، یا دیگر مراعات کے تحت اپنی وفاداریوں کا سودا نہ کرے۔ کسی اختلاف کی صورت میں اسے استعفی دے کر واپس عوام کے پاس جانا چاہیے

ماہرین سیاسیات بتاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دینے کی ذمہ داری معاشرے کے تمام طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اگر ووٹ کو عزت دینا چاہتی ہے تو وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر ملکی اور عوامی مفاد میں انتخابی اصلاحات کرے

الیکشن کمیشن اگر اگلے انتخابات میں ووٹ کو عزت دینے کا خواہشمند ہے تو اسے حد بندیوں اور حلقہ بندیوں میں ڈنڈی مارنے کے عمل کو روکنا ہوگا

ریاستی ادارے پس پردہ کارروائیوں کے ذریعے مصنوعی اتحاد بنوانے اور الیکٹیبلز کے ذریعے الیکشن کے عمل میں مداخلت کرنے سمیت الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے تمام طریقوں سے دور رہ کر ووٹ کو عزت دے سکتے ہیں

پاکستانی عدلیہ بھی نظریہ ضرورت کو ایک طرف رکھ کر کسی خاص پارٹی کی مدد کا تاثر زائل کرکے منصفانہ فیصلوں کے ذریعے ملک میں جمہوریت کے استحکام میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں

پاکستان کی بیوروکریسی بھی، کسی کے کہنے پر، انتخابی عمل میں سیاسی جماعتوں کی حلیف بن کر جانب داری کا رویہ اپنا لے تو اس سے بھی ووٹ کی حرمت پر حرف آتا ہے۔ ماضی میں ووٹ کی عزت کو برباد کرنے کی کوششوں میں بیوروکریسی کا ایک حصہ پیش پیش رہا ہے

پاکستان کی حکومت، الیکشن کمیشن اور سول سوسائٹی کے ادارے ووٹرز کو الیکشن کے بارے میں آگاہی فراہم کر کے اس کی فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر بنا کر ووٹ کو عزت دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں

ووٹ کو عزت دینے کے عمل میں سب سے اہم کرداد عام ووٹر کا بھی ہے۔ وہ بریانی کی پلیٹ پر اپنی رائے بدلنے کی بجائے ملک کے مفاد میں اپنی بہتر اور منصفانہ رائے کے اظہار سے اپنے ووٹ کو مقدس اور معتبر بنا سکتا ہے

ووٹ خریدنے والوں، موٹر سائیکلیں لے کر دینے والوں، سالہا سال غائب رہ کر راتوں رات سڑکیں بنا کر دینے والوں سے خبردار رہ کر بھی ووٹ کو عزت دی جا سکتی ہے

الیکشن ڈیوٹی پر مامور سرکاری ملازمین ڈسکہ کے الیکشن کی طرح رات بھر ”لاپتہ رہنے‘‘ سے انکار کرکے جمہوریت کی خدمت کر سکتے ہیں

سیاسی جماعتیں اپنے اندر پارٹی الیکشن کروا کر، موروثی سیاست کو خدا حافظ کہہ کراور صاف ستھرے کردار کے حامل امیدواروں کو میرٹ پر انتخابی ٹکٹ دے کر ووٹ کو عزت دے سکتی ہیں

سیاسی اور ”غیر سیاسی‘‘ میڈیا سیلوں کے بھیجے ہوئے مواد کو ایکسکلسیو نیوز کے طور پر پیش کرنے والے پاکستان کے بعض صحافی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار نہ بن کر معروضیت پر فوکس کرکے بھی ووٹ کی خدمت کا اعزاز حاصل کر سکتے ہیں

ووٹروں کی آگاہی کے لیے ان کا کام جمہوریت کی بڑی خدمت میں شمار ہو سکتا ہے

سیاسی جماعتیں ووٹ کو عزت دینے کے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہتی ہیں لیکن وہ جمہوریت کے اہم ستون مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے کو تیار نہیں ہوتیں

مقامی حکومتوں کے انتخاب میں حصہ لینے کے خواہشمند شہریوں کے ووٹ کو بھی عزت ملنی چاہیے

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close