’ملازمتوں کا عالمی بحران’ جو ’ملازمین کے بحران‘ میں تبدیل ہوا۔۔ فائدہ کس کو؟

ویب ڈیسک

گذشتہ چند برسوں کے دوران ملازمین نے نوکریوں سے رکارڈ تعداد میں استعفیٰ دیا ہے۔ کچھ نے پیشہ بدلا تو کچھ نے تیز ترقی کی خاطر نوکری چھوڑی اور چند نے تو مکمل طور پر نوکری کو خیر آباد کہا۔ مثال کے طور پر امریکہ میں اگست 2022 کے بیورو آف لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق فروری 2020 کی نسبت لیبر فورس کی شرح ایک فیصد کم رہی

دوسرے الفاظ میں لوگ نوکری چھوڑ رہے ہیں، اور کچھ سیکٹر ایسے ہیں، جہاں وہ واپس نہیں آ رہے۔ کورونا کی وبا کے دوران کام کرنے کی جگہوں پر برے حالات کے تناظر میں یہ اتنی حیران کن بات بھی نہیں

ملازمین کی کمی سب سے زیادہ واضح خدمات اور میزبانی کے سیکٹر میں ہے، جہاں برتن دھونے والے، ٹرک ڈرائیور، ریٹیل ورکر، ایئر پورٹ ایجنٹس جیسی اسامیاں کئی برسوں سے خالی ہیں

ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایسا اس لیے نہیں کہ لوگ کام نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ بہتر نوکری، زیادہ تنخواہ اور بہتر حالات چاہتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی لوگوں کو بہتر ملازمت ملی اور اگر مشکلات کا سامنا کرتے سیکٹرز یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی جانب واپس آئیں تو ان کو محنت کرنی ہوگی، ملازمت کو پرکشش بنانا ہوگا

امریکہ میں خاص طور پر ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک سروس ورکر رہنا مشکل کام ہے۔ 2020 میں، مثال کے طور پر، فوڈ کاؤنٹر ورکر اوسطاً سالانہ 23960 ڈالر کماتا تھا، یعنی اگر اس کا تعلق چار افراد کے خاندان سے ہے تو وہ غربت کی لکیر بھی عبور نہیں کر سکتا

ملازمین کے لیے اپنے بل ادا کرنا، ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا یا بچوں کا خیال رکھنا بھی مشکل ہو چکا تھا

ماہرین کے مطابق دیگر وجوہات کے علاوہ اس سیکٹر سے ملازمین کے انخلا کی یہ بڑی وجہ ہے۔ 2017 میں یہ شرح ریٹیل ورکرز میں 53 فیصد، رہائش اور فوڈ سروس کے سیکٹر میں 72 فیصد اور مینوفیکچرنگ میں 30 فیصد تھی

لیکن اگر سروس ورکر کا کام کورونا سے پہلے مشکل تھا تو وبا کے بعد اس مشکل میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ جو ریٹیرلز اس وبا کے دوران کھلے رہے، ان کو رسد میں تعطل کے ساتھ ساتھ مانگ میں اتار چڑھاؤ کا سامنا بھی رہا

کم ملازمین کو زیادہ گھنٹے کام کرنا پڑا جس نے ان کو تھکا دیا۔ اسکول اور ٹرانسپورٹ کی بندش میں ان ملازمین کی زندگی مشکل ہو گئی۔ اس کے علاوہ ملازمین سے مالکان اور صارفین کے برے برتاؤ میں اضافہ ہوا، اور اگرچہ چند کمپنیوں نے بونس دیا مگر کم ہی اداروں نے تنخواہوں میں اضافہ کیا

زیادہ تر ان کا کام بھی خطرات سے بھرپور تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب کاروبار کی دنیا آن لائن پر منتقل ہو رہی تھی، میزبانی کی صنعت میں ایسا نہیں ہوا

اس بارے میں پیرس کے ای ڈی ایچ ای سی بزنس اسکول کی پروفیسر سرجی دا موٹا کہتی ہیں ”ہوٹل کی ریسیپشن پر کسی کو آن لائن کھڑا کرنا مشکل ہے“

اس کا مطلب تھا کہ اس سیکٹر میں لوگ کام کر رہے تھے، جب ان کے ساتھی گھروں میں موجود تھے۔ امریکہ میں کورونا کے پہلے سال میں وبا سے 68 فیصد اموات لیبر، ریٹیل اور سروس ورکرز کی ہوئیں

شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ آخری دو برسوں میں ملازمت چھوڑنے والوں کی تعداد بتدریج بڑھتی گئی۔ 2021ع میں 64 فیصد ریٹیل ورکر، 86 فیصد فوڈ سروس ورکر اور 40 فیصد مینوفیکچرنگ شعبے سے ملازمین نے نوکری چھوڑ دی

لیکن حفاظت اور کام کے برے حالات ہی اس کی وجہ نہیں۔ لوگ زندگی میں استحکام چاہتے ہیں جو کم تنخواہ والی نوکری میں ملنا مشکل ہے۔ دا موٹا کے مطابق ”جاب سکیورٹی وہ پہلی چیز ہے، جو لوگ چاہتے ہیں“

ایک اور وجہ بھی ہے، جس کے سبب لوگ نوکری چھوڑ سکتے ہیں۔ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے کمپنیاں اب ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں، جو کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں لوگوں کے لیے ایک نوکری چھوڑ کر دوسری حاصل کرنا آسان ہے، خصوصاً ایسی نوکری، جو ان کو پسند نہ ہو

دا موٹا کے مطابق ”لوگ اپنی صلاحیت ایسے کام میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، جہاں ان کو عزت، بہتر تنخواہ اور مواقع ملیں۔‘

لوگ خالی آسامیاں پُر کرنے کیوں نہیں آ رہے؟

استعفوں کی عظیم لہر، جو 2021 میں شروع ہوئی، اپنے پیچھے بے شمار خالی اسامیاں چھوڑ گئی

امریکہ کے رٹگرز یونیورسٹی اسکول آف بزنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ ڈورٹمین کہتے ہیں ”کم تنخواہوں والی نوکریوں پر لوگوں کو رکھنا ان وجوہات کی وجہ سے مشکل ہو گیا ہے، جن کی وجہ سے لوگ ان نوکریوں کو چھوڑ کر گئے تھے“

انہوں نے ایک سروے کا حوالہ دیا، جس میں لوگوں سے نوکری چھوڑنے کی وجہ پوچھی گئی تھی۔ کم تنخواہ پہلی وجہ تھی، جس کے بعد ترقی کے محدود مواقع اور بے عزتی وجہ بتائی گئی

ڈیوڈ ڈورٹمین کہتے ہیں ”اگر آپ برگر بنا رہے ہیں، تو اس کام میں ترقی کرنا آسان نہیں۔ ہر کوئی مینیجر نہیں بن سکتا۔ کئی لوگ برسوں سے ایک ہی جگہ کام کر رہے ہیں۔۔ پھر ملازمین کو لگتا ہے کہ ان کی قدر نہیں کی جا رہی، اور یہ کہ ان کے ساتھ درست برتاؤ نہیں رکھا جا رہا“

ایسے وقت میں جب مارکیٹ میں بہتر مواقع موجود ہیں، جس کو موقع ملتا ہے، وہ اس کا فائدہ اٹھاتا ہے

ڈیوڈ کے مطابق ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پرانی نسل کے لوگوں کی ریٹائرمنٹ نے بھی جگہ بنائی ہے ”یہ ایک بہترین طوفان ہے۔ میرے نزدیک کورونا میں بوڑھی نسل کو موقع ملا کہ وہ کام چھوڑ کر ریٹائر ہو سکیں کیونکہ ان کو سب سے زیادہ خطرہ تھا۔ میرے خیال میں جو بھی کام چھوڑ سکتا تھا، اس نے اس وقت میں ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا۔ میرے خیال میں ان میں سے زیادہ تر اب واپس نہیں آئیں گے“

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ اس خلا کو پر کرنے میں امیگریشن مسائل کی وجہ سے بھی مشکلات ہیں، جس کی وجہ سے ان انڈسٹریز میں خصوصی خلا باقی رہا جہاں نئے آنے والے ملازمت اختیار کرتے ہیں

انہوں نے کہا ’امریکہ آنے والوں کی تعداد آدھی ہو کر رہ گئی۔ اور یہ وہ لوگ ہیں، جو ایسی ملازمت لیتے تھے، جس میں صلاحیت یا تعلیم کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔‘

کمپنیاں کیا کر رہی ہیں؟

آج کل امریکہ میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ ریسٹورنٹس، اسٹورز یا مارکیٹس کے باہر نوکری کا بورڈ لگا ہوا ہو، جس میں گھنٹے کی بنیاد پر تنخواہ کی آفر کی جا رہی ہو۔ چند کمپنیوں نے بونس کا آغاز کیا

2021ع میں ایمازون نے کہا کہ ویئر ہاؤس اور ٹرانسپورٹ کی نوکری پر ایک ہزار ڈالر کا بونس دیا جائے گا۔ ہلٹن ہوٹلز نے پانچ سو ڈالر کا بونس دیا، جو کچھ اسٹاف کے لیے اس سے بھی زیادہ تھا

تاہم معاشی فائدہ ہی ملازمین کو واپس لانے کے لیے کافی نہیں، جب تک بہتر حالات اور استحکام نظر نا آئیں

ڈیوڈ کہتے ہیں ”میرا خیال ہے کہ مالکان کو صرف تنخواہیں بڑھانے کے علاوہ مختلف طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملازمین کو معلوم ہو کہ وہ کتنی دیر کام کریں گے تاکہ وہ اپنی زندگی کے دیگر حصوں کو اس کے مطابق ڈھال سکیں“

دا موٹا کے مطابق ”پیسے پر توجہ کافی نہیں۔ لوگ زیادہ پیسہ چاہتے ہیں لیکن کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، ان کی ترجیح کیا ہے، ان کو نوکری کو پرکشش بنانا ہوگا“

اس خلا کو پر کرنے کے لیے، ڈیوڈ کی رائے ہے، کہ معاشی آسودگی کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے اوقات میں نرمی، جاب سکیورٹی اور وفاداری یقینی بنانے کا کوئی طریقہ تلاش کرنا ہوگا

ڈیوڈ کہتے ہیں ”ایک وبا آتی ہے اور کمپنیاں پہلی فرصت میں لوگوں کو کام سے نکال دیتی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ وقت گزرے گا تو لوگ خود ہی واپس آ جائیں گے لیکن ملازمین سوچ رہے تھے کہ آپ نے میرا ساتھ نہیں دیا تو اب میں بھی واپس نہیں آ رہا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close