سیلاب: پانچ سو سے زائد بچوں کی جانیں چلی گئیں، ہر موت ایک المیہ ہے۔ یونیسیف

رپورٹ: امر گل

یونیسیف پاکستان نے اپنے ایک اعلامیے میں حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے اب تک کم از کم 528 بچوں کی جانیں لے لی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک موت ایسا المیہ ہے جسے ٹالا جا سکتا تھا

صوبہ سندھ کے اپنے دورے کے بعد یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاضل نے کہا ”افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اگر امدادی کارروائیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ نہ کیا گیا تو بہت سے مزید بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘‘

عبداللہ فاضل کا کہنا ہے ’’میں گزشتہ دو روز سے سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہوں۔ یہاں متاثرہ خاندانوں کے لئے صورتحال مایوس کن ہے اور میں نے جو کہانیاں سنی ہیں، وہ نااُمیدی کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ ہمیں ہر طرف غذائی کمی کا شکار بچے نظر آ رہے ہیں، جو اسہال، ملیریا، ڈینگی بخار اور جلد کی تکلیف دہ بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ بہت سی مائیں خون کی کمی اور غذائی بحران کا شکار ہیں اور ان کے بچوں کے وزن بہت کم ہیں۔ مائیں تھک چکی ہیں یا بیمار ہیں اور دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔ لاکھوں خاندان اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، اب سخت دھوپ سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ان کے پاس سوائے چند چیتھڑوں کے کچھ نہیں ہے، جبکہ کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے‘‘

انہوں نے کہا ”بہت سے خاندان سڑکوں کے کنارے اونچی ڈھلوانوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں، جس سے بچوں کو مزید خطرات کا سامنا ہے، کیونکہ نیچے زمین کے وسیع رقبے پر تاحدِ نظر پانی کھڑا ہے۔ اس کے باعث سانپوں، بچھوؤں اور مچھروں سے اضافی خطرات بھی موجود ہیں۔‘‘

یونیسیف پاکستان کے سربراہ کا کہنا ہے ”ایک اندازے کے مطابق اس شدید سیلاب سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں، اور کم از کم چونتیس لاکھ لڑکیوں اور لڑکوں کو فوری طور پر زندگی بچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ چھوٹے بچے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھلی جگہوں پر رہ رہے ہیں، ان کے پاس پینے کا پانی ہے، نہ خوراک اور نہ ہی آمدنی کا کوئی وسیلہ ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ سیلاب سے متعلق نئے بے شمار خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں تباہ شدہ عمارتیں، سیلاب کے پانی میں ڈوبنا اور سانپوں کا شکار بننے کے خطرات شامل ہیں۔ بچے جس بنیادی ڈھانچے پر انحصار کرتے تھے، جس میں ہزاروں اسکول، پانی کا نظام اور صحت کی سہولیات شامل تھیں، اسے نقصان پہنچا ہے یا مکمل تباہ ہو چکا ہے۔‘‘

عبداللہ فاصل کے مطابق ’’اگرچہ سیلاب میں اپنے زندگیاں گنو ادینے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یونیسف متاثرہ بچوں اور خاندانوں کی مدد کرنے، انہیں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، غذائی قلت اور تحفظ کے خطرات سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے‘‘

ان کے مطابق ’’ریسکیو اور امدادی کارروائیاں کرنا اب بھی انتہائی مشکل ہے – بہت سے خاندان اب بھی سیلاب کے پانی کی وجہ سے رابطے سے کٹے ہوئے ہیں – یونیسف کی جانب سے اہم طبی اور انسانی رسد کی تیسری کھیپ یعنی اضافی 36 میٹرک ٹن پاکستان کے راستے میں ہے اور توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان پہنچ جائے گی۔‘‘

یونیسیف کنٹری ہیڈ نے کہا ’’اپنے عزیزوں، گھروں اور اپنی بہترین ملکیتی چیزوں کو کھودینے سے بہت سے بچوں کو صدمے اور پریشانی کا سامنا ہے۔ یونیسف پہلے ہی صدمے سے دوچار بچوں اور خواتین کو نفسیاتی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ سیلاب میں بے گھر ہونے والے بچوں نے ہمیں بتایا کہ وہ خوفزدہ اور دُکھی ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی مصروفیت بھی نہیں ہے ، جس سے وہ اپنا وقت گزار سکیں۔ ہم نے بچوں کی زندگیوں میں معمول کا احساس واپس لانے، صدمے سے نمٹنے میں ان کی مدد کرنے اور سیکھنے کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے میں مدد دینے کے لئے سیکھنے کی عارضی جگہیں قائم کی ہیں۔‘‘

’’پاکستان میں لڑکیاں اور لڑکے اس ماحولیاتی تباہی کی قیمت چُکا رہے ہیں جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہمیں آنے والے وقتوں اور لاکھوں خطرے سے دوچار لڑکوں اور لڑکیوں کی زندگیوں کی تعمیر نو کی ضرورت پر بھی غور کرنا ہوگا تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ محفوظ، صحت مند، تربیت یافتہ، اور اپنے مستقبل کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close