پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

ویب ڈیسک

ارشد شریف کی ہلاکت اور تین مزید صحافیوں کے ملک چھوڑ جانے کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا یہ ملک ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے محفوظ ہے؟

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں صرف ایک مخصوص نقطہ ء نظر رکھنے والے صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صحافی برادری بھی تقسیم کا شکار ہے۔ اینکر پرسن ڈاکٹر معید پیرزادہ، صابر شاکر اور تجزیہ نگار ارشاد بھٹی کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ انہوں نے ’نامعلوم وجوہات کی بنا‘ پر ملک چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ جمیل فاروقی عمران ریاض اور بزرگ صحافی چوہدری غلام حسین پر بھی مقدمات کے ذریعے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے

اس حوالے سے تجزیہ کار اور صحافی حبیب اکرم کا کہنا ہے ”جو صحافی اس وقت پی ٹی آئی کی پالیسی اور نظریے کے قریب ہیں، ان کو خطرات کا سامنا ہے۔ اس لیے ان کے رشتے دار، عزیز واقارب یا بیرون ملک رہنے والے ان کے ہمدرد انہیں یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کے چلے جائیں‘‘

حبیب اکرم کے مطابق ”پاکستان میں سیاسی حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر دباؤ کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے. دو ہزار چودہ اور دو ہزار سولہ کے دھرنوں اور احتجاج کے دوران پریشر کی نوعیت مختلف تھی اور اس وقت پریشر کی نوعیت مختلف ہے۔ لیکن عمومی طور پر صحافتی حلقوں میں خوف کی فضا ہے۔ بہت سارے صحافی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں تاکہ وہ کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں‘‘

ایک عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صحافیوں کو ملک کے ”طاقت ور اداروں‘‘ سے شکایات ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ماضی میں ن لیگ ان طاقت ور عناصر کے خلاف بولتی رہی ہے لیکن اب اس کی حکومت ان ہی کے ساتھ شریک کار بنی ہوئی ہے۔ حبیب اکرم اس تاثر کو صحیح قرار دیتے ہیں

ان کا کہنا تھا، ”موجودہ حالات نے نون لیگ اور سیاسی حکومت کے اصل چہرے کو آشکار کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے اور صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا اس کا شیوہ نہیں ہے لیکن مقدمات بھی موجودہ سیاسی حکومت کے دور میں ہی بن رہے ہیں، جس سے صحافیوں میں خوف پھیل رہا ہے‘‘

ان کا کہنا تھا کہ نون لیگ کے اس عمل سے یقیناﹰ صحافیوں کو نقصان ہو رہا ہے لیکن مستقبل میں اس کا زبردست نقصان ن لیگ کو بھی ہوگا

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل کے رکن اور سابق سکریٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے اس حوالے سے بتایا ”حالانکہ معید پیرزادہ، ارشاد بھٹی اور عمران ریاض تبصرہ نگار یا تجزیہ نگار ہیں، لیکن پھر بھی ہم ان کے ساتھ ہیں اور ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کو بھی ایک مختلف رائے رکھنے کی وجہ سے نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ تاہم ہمارا یہ شکوہ ہے کہ ان حضرات کو کم از کم یونین کو ان خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے تھا، جو ان کو درپیش تھے تاکہ ہم حکومت سے بات کرتے‘‘

ناصر زیدی کہتے ہیں ”میڈیا کی آزادی کی جنگ کے نام پر ملک چھوڑ کر چلے جانے کا طریقہ مناسب نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت سارے ایسے صحافی اس وقت بھی کام کر رہے ہیں، جن کو ماضی میں نشانہ بنایا گیا، جیلوں میں پھینکا گیا اور کوڑے لگائے گئے۔ انہوں نے پوری آزادی اظہار رائے کی لڑائی ملک میں رہ کر لڑی اور حالات کا مقابلہ کیا‘‘

ناصر زیدی کے بقول، اس طرح ملک سے چلے جانا اور بعد میں یہ کہنا کہ ملک میں آزادی اظہار رائے نہیں ہے، مناسب نہیں ہے

ملک میں میڈیا کے لیے پابندیوں کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت پر زبردست تنقید ہو رہی ہے۔ کئی ناقدین پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری اتحادی جماعتوں کو ان کا ماضی یاد دلا رہے ہیں، جب وہ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کرتے تھے

تاہم نون لیگ ان تمام الزامات کو غلط قرار دیتی ہے۔ سابق سینیٹر اور نون لیگ پنجاب کے نائب صدر سعود مجید کا کہنا ہے کہ ملک سے جانے والے ان صحافیوں نے حکومت کو خطرات کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی۔ اگر وہ حکومت کو خطرات کے حوالے سے آگاہ کرتے تو یقیناً حکومت فوری طور پر ایکشن لیتی‘‘

سعود مجید کے بقول ”ایسا لگتا ہے کہ ان صحافیوں کا اس طرح ملک سے جانا ملک کو بدنام کرنے کی ’سازش‘ کا ایک حصہ ہے، ان صحافیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کے قریب ہیں اور عمران خان نے پہلے آئی ایم ایف کو خط لکھے۔ ماضی میں انہوں نے چینی صدر کے دورے کو سبوتاژ کیا اور اب جیسے ہی وزیراعظم نے چین جانے کا اعلان کیا تو انہوں نے پہلے لانگ مارچ کا اعلان کیا اور اب یہ صحافی یہاں سے چلے گئے ہیں تاکہ یہ پروپیگنڈہ کیا جا سکے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور یہ کہ اس ملک پر عالمی پابندیاں لگائی جائیں‘‘

ناصر زیدی کے مطابق ”موجودہ حالات سے یہ سبق ملتا ہے کہ صحافی برادری کو کسی کے ایجنڈے پر کام کرنا نہیں چاہیے، کسی سیاسی جماعت کا ترجمان نہیں بننا چاہیے بلکہ انہیں معروضی انداز میں صحافت کرنی چاہیے، اگر ان کو کہیں سے کوئی خبر ملتی ہے، تو اس کو بڑی چھان بین کے بعد اس کا تجزیہ کرنا چاہیے اور پھر اس کو آگے بڑھانا چاہیے، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور ہمارے کچھ دوستوں نے ایک مخصوص ایجنڈے کو ایک طویل عرصے تک فروغ دیا، جس کی وجہ سے صحافتی برادری میں تقسیم کا تاثر ابھرا‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close