پاکستان: پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت اور انسانی صحت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟

ویب ڈیسک

پارتھینئم ایک ایسی جڑی بوٹی ہے، جو زراعت کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے بھی خطرے کی گنٹھی بجا رہی ہے۔ اس بوٹی کو انگریزی میں پارتھینئم (Parthenium)، اور اردو میں گاجر بوٹی کہتے ہیں۔ اس پودے کا آبائی علاقہ میکسیکو ہے پر یہ غضب کی جڑی مختلف ملکوں سے ہوتی ہوئی ہندوستان پہنچی وہاں سے کشمیر اور پنجاب سے ہوتی ہوئی پورے ملک میں وبا کی طرح پھیل گئی، اور آج کل اس کو آپ ملک کے تقریباً ہر حصے میں سڑک کنارے، نہر کنارے، ندی کے سائڈز پر، مقبروں میں، ویران جگہوں پر، پارکس میں اور باغات اور فصلوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے

پارتھینئم پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ خطرناک جڑی بوٹی نہ صرف زرعی پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے انسانی صحت اور ماحول پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں

پارتھینئم کو دنیا بھر میں ایک خطرناک ترین جڑی بوٹی سمجھا جاتا ہے، جو افریقہ، ایشیاء اور جنوبی پیسیفک کے تقریبا اڑتالیس ممالک میں ماحول، انسانی صحت، کھڑی فصلوں اور معیشت پر نا قابل تلافی اثرات مرتب کر چکی ہے

ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان کے دیہی اور شہروں علاقوں میں یہ خطرناک جڑی بوٹی تیزی سے پھیل رہی ہے، جس سے مقامی افراد کی زندگیوں، ذریعہ معاش اور زراعت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں

سیلاب کے بعد موجودہ صورتحال میں پارتھینئم زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟

سینٹر فار ایگری کلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل (کیبی) پاکستان میں پارتھینئم سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لپے مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اس کے ریجنل فوکل پرسن فار پارتھینئم عمیر صفدر کا کہنا ہے ”پاکستان میں پارتھینئم کے تیزی سے پھیلنے کا ایک اہم ذریعہ پانی ہے۔ موجودہ صورتحال میں جب ملک کا ایک بڑا رقبہ سیلابی پانی میں گھرا ہوا ہے تو لامحالہ یہ جڑی بوٹی دیگر علاقوں تک مزید تیزی سے پھیلے گی، جہاں پہلے اس کی گروتھ زیادہ نہیں تھی‘‘

عمیر صفدر کہتے ہیں ”پارتھینئم کے تیزی سے پھیلنے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پارتھینئم کے ایک پودے میں پندرہ ہزار سے بیس ہزار تک بیج ہوتے ہیں۔ اگر یہ جڑی بوٹی نئے علاقوں میں زرعی زمین اور فصلوں تک پہنچ گئی تو مستقبل میں زرعی پیداوار مزید متاثر ہونے کا امکان ہے، جو سیلاب کی وجہ سے پہلے ہی تباہ حالی کا شکار ہے“

انہوں نے کہا ”اس کے ساتھ ہی یہ امر ہمارے لیے مزید تشویشناک ہے کہ پاکستان میں پھولوں کے کاروبار میں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پارتھینئم کے نقصانات کو نظر انداز کر کے گلدستوں کی سجاوٹ میں اسے جپسوفیلا کی جگہ استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ نسبتا سستا ہے۔‘‘

نقصانات

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کا کہنا ہے ”پارتھینئم ایک ایسی خطرناک جڑی بوٹی ہے جوکہ نا صرف زرعی پیداوار میں کمی کا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جلد، سانس، آنکھوں و دیگر بیماریاں پھیلانے کا بھی باعث بنتی ہے۔“

ماہرین کے مطابق یہ پودا پانچ یا چھ قسم کے ایسے کیمیکلز خارج کرتا ہے، جن کو پائیٹو کیمیکلز (Phyto chemicals) کہا جاتا ہے، جو اپنے ارد گرد دوسرے پودوں کو اگنے نہیں دیتا اور یہاں تک کہ جس زمین میں اس پودے کے بیج پڑے ہوں، اس زمین میں باقی فصلوں کے بیج کی روئیدگی (Germination) بھی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے

نوٹ کیا گیا ہے کہ جس علاقے میں پارتھینئم اگی ہوئی ہو، وہاں ہمارے جتنے بھی علاقائی گھاس پودوں والی اقسام تھیں، وہ دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں

یہ پودا انسانی جسم میں خطرناک قسم کی الرجی پیدا کرنے کا موجب بھی بن رہا ہے، جس کے لئے آج تک کوئی مخصوص اینٹی الرجک دوائی ایجاد نہیں ہوئی، جس سے جلدی امراض کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جا سکے

اس کے علاوہ اگر کوئی جانور اس پودے کو کھا لے تو اس کی سونڈ پر خارش پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک قسم کے معدے کے امراض پیدا کرنے کا موجب بھی بن رہا ہے

پارتھینئم کے کنٹرول کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان میں پارتھینئم کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے سینٹر فار بائیو سائنس اینڈ انٹرنیشنل کے ساتھ مسلسل متحرک ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان کے مطابق پارتھینئم اپنے بیجوں کی بھرپور پیداوار اور ہر طرح کے موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے بقول اس کے تدارک کے لیے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے علاوہ ایک اور تکنیک بھی استعمال کی جا رہی ہے

ڈاکٹر اقرار بتاتے ہیں ”تنے کی سنڈی پارتھینئم کی قدرتی دشمن ہے، جو اس کے پھولوں پر انڈے دینے کے بعد اپنے لاروا کی افزائش کرتی ہے اور پارتھینئم کے تنے کو کھا کر اسے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ سنڈی پارتھینئم کو تلف کرنے کا ایک اہم قدرتی ذریعہ ہے۔‘‘

پارتھینئم کے لیے جدید ریموٹ سینسنگ تکنیک کا استعمال

عمیر صفدر کا کہنا ہے ”ملک کے مختلف علاقوں میں پارتھینئم کے پھیلاؤ کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ان کا ادارہ جدید ریموٹ سینسنگ تکنیک کا استعمال کر رہا ہے تاکہ فصلوں پر اس کے مضر اثرات سے متعلق مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے“

انہوں نے کہا ”اس کے لیے ہم نے ’پلانٹ وائز پلس‘ پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت ملک بھر میں آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے سیمینارز، ٹریننگ پروگرام منعقد کرنے کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی بھرپور مدد لی جا رہی ہے‘‘

ان کے بقول ملک بھر کی زرعی یونیورسٹیاں، پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل اور حکومتی ادارے اس حوالے سے سینٹر فار ایگری کلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل کو مکمل مدد فراہم کر رہے ہیں

پارتھینئم کنٹرول پر پاکستان میں مزید کیا تحقیق ہو رہی ہے؟

عمیر صفدر نے بتایا کہ ”سینٹر فار ایگری کلچر اینڈ بائیو سائنس انٹرنیشنل (کیبی) نے حال ہی میں ایک قرنطینہ لیبارٹری بنائی ہے، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد لیبارٹری ہے، ہمارا راولپنڈی سینٹر اس حوالے سے خاصا متحرک ہے اور یہ قرنطینہ لیبارٹری ملک بھر سے سائنسدانوں کو پارتھینئم کنٹرول سے متعلق تجربات و تحقیق کے لیے مکمل سہولیات فراہم کر رہی ہے، جس میں تنے کی سنڈی سے پارتھینئم کو تلف کرنا سر فہرست ہے‘‘

عمیر صفدر کے بقول، ”ہماری کوشش ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جائے تاکہ مشترکہ تحقیق اور بحث و مباحثہ کے ذریعے پارتھینئم کنٹرول سے متعلق ایک نیشنل ایکشن کنٹرول پلان تیار کیا جا سکے۔ حال ہی ہم نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبۂ انٹامولوجی کے تعاون سے ’سٹم بورنگ ویول‘ سے متعلق ایک بین الااقوامی سیمینار بھی منعقد کیا ہے‘‘

عمیر صفدر کے مطابق ”اب تک ہم پنجاب کے 438 دیہاتوں میں تقریبا دس ہزاروں کسانوں تک اس حوالے سے ناگزیر حفاظتی اقدامات سے متعلق معلومات فراہم کر چکے ہیں‘‘

پارتھینئم پاکستان میں کھڑی فصلوں کے بعد اب شہری علاقوں کے پارکس یا سڑک کنارے اگی گھاس پھوس میں بھی ڈیرے ڈال چکی ہے۔ اسلام آباد کے دو بڑے پارکوں میں اس کی گروتھ نوٹ کی گئی ہے، جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جاگنگ یا تفریح کے لیے آتے ہیں

تدارک

1) اس کا موثر کنٹرول صرف یہ ہے کہ اس پودے کو ہاتھ کے ذریعے جڑ سے اکھاڑا جائے، جب اس پر پھول نہ آئے ہوں۔ لیکن ایک احتیاط کرنی ہے کہ اسے چھونے سے پہلے ہاتھوں پہ دستانے پہننے ہیں تاکہ پہ پودا آپ کے جسم کو براہ راست نہ چھو سکے

2) دوسرا اسے ابتدائی اسٹیج میں بذریعہ کیمیکلز بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے، جن میں گلائیپوسیٹ، پریمکسٹرا جیسی جڑی بوٹی مار زہر شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close