پرسیویرینس: مریخ پر ناسا کے روور نے پتھر کے ’دلچسپ‘ نمونے جمع کر لیے

ویب ڈیسک

بتایا گیا ہے کہ امریکا کے خلائی ادارے ناسا کا ’پرسیویرینس‘ نامی روبوٹ مریخ پر اپنے ابتدائی مقاصد مکمل کرنے کے قریب ہے

ناسا کی اس خلائی گاڑی نے مختلف اقسام کے پتھروں کے نمونے اکٹھے کیے ہیں، جنہیں جلد سطح کے ایک مقام پر جمع کر لیا جائے ہیں۔ ان نمونوں کو بعد کے مشن کی مدد سے زمین پر لایا جا سکے گا

سترہ مہینے پہلے یہ خلائی گاڑی راکٹ سے نکل کر جیزیرو (شہابی گڑھے کے مقام) پر پہنچنی تھی

پرسیویرینس، جسے پرسی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، نے اب تک جو کچھ بھی دیکھا ہے اس سے سائسدان متنق ہیں کہ وہ زندگی کی تلاش کے لیے بہترین مقام پر موجود ہے

یہ ایسے کسی جاندار کی تلاش میں نہیں جو ابھی زندہ ہے۔ مریخ پر خراب ماحول کی وجہ سے کسی جاندار کی موجودگی کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مگر یہ روبوٹ بیالوجی کے ایسے نمونوں کی تلاش میں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ اربوں سال قبل جیزیرو ایک تالاب سے بھرا ہوا تھا

سائنسدانوں کو امید ہے کہ یہ قدیم تاریخ ان ’دلچسپ‘ پتھروں کے نمونوں میں محفوظ ہو گی جنھیں ایک ’ڈپو‘ میں آئندہ دو ماہ میں جمع کیا جائے گا

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلی سے وابستہ پرسیویرینس مشن کے سائنسدان ڈیوڈ شسٹر کا کہنا ہے کہ ’اگر (جیزیرو کی قدیم) یہ حالت گذشتہ 3.5 ارب برس قبل کسی بھی لمحے پہ زمین پر کہیں بھی موجود ہوتی تو یہ کہنا، یا فرض کرنا، ٹھیک ہوگا کہ بیالوجی نے ان پتھروں پر ایسی علامات چھوڑی ہوں گی جن کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں۔‘

ناسا اور یورپی سپیس ایجنسی ایک ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ ایک منصوبے کے تحت ان پتھروں کے نمونوں کو زمین پر لایا جاسکے۔ یہ ایک حیران کن منصوبہ ہوگا جس میں ایک نیا لینڈنگ سسٹم، کچھ ہیلی کاپٹر، مریخ کے لیے راکٹ اور ایک سیارے سے دوسرے سیارے پر جانے والا خلائی جہاز شامل ہوں گے

ان کی کوشش ہوگی کہ ان نمونوں کو زمین پر 2033 تک لایا جاسکے

پرسیویرینس نے اس شہابی گڑھے کی سطح پر کھدائی کی اور کچھ ایسے پتھروں کے نمونے جمع کیے جو آتش فشاں کا حصہ تھے۔ ان نمونوں سے معلوم ہوگا کہ جیزیروں کے تلاب کے پانی سے بھرنے سے قبل وہاں کب کیا تھا

خیال ہے کہ نمونے پتھر کی ان اقسام سے حاصل کیے گئے ہیں جن کے جائزے سے معلوم ہوگا کہ وہ کتنے پرانے ہیں۔ موجودہ حالات میں مریخ پر کسی تاریخ کا تخمینہ بالواسطہ طور پر ہی لگایا جاسکتا ہے

بعض نمونے تلچھٹ قسم کے ہیں جنہیں پرسیویرینس نے حالیہ مہینوں میں جمع کیا۔ انھیں پینتالیس کلومیٹر طویل شہابی گڑھے کے مغربی حصے کے ڈیلٹا ڈپازٹس سے اکٹھا کیا گیا تھا

ڈیلٹا ایسے ڈھانچے کو کہتے ہیں جو دریائی ریت سے بنتا ہے جب پانی آگے ہی طرف بہہ جاتا ہے۔ ارضیاتی اعتبار سے یہ ایسے نمونے ہوسکتے ہیں جن میں ماضی کے مائیکروبیل جانداروں کی معلومات مل سکے

تلچھٹ قسم کے نمونے ایک ایسی چٹان سے جمع کیے گئے جسے ’وائلڈ کیٹ رِج‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نہر جیزیرو پر پانی کے بخارات بننے کے بعد یہ مقام اسی مٹی، ریت اور کیچڑ کے ملاپ سے بنا۔ روور کے ابتدائی جائزروں سے معلوم ہوا ہے کہ وائلڈ کیٹ رج میں ارگینک (حیاتیاتی)، یعنی کاربن، کے مرکبات شامل ہیں

یہ دلچسپ مگر محدود مشاہدہ ہے۔ ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری (جے پی ایل) میں مشن انسٹرومنٹ سائنسدان سنندا شرما کا کہنا ہے کہ ’تمام جاندار ارگینک مرکبات سے بنتے ہیں۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ ارگینک مرکبات کیمیائی عمل سے بھی بن سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اس کا تعلق کسی جاندار سے ہو۔ مثلاً یہ پانی اور پتھر کے ملنے سے بن سکتے ہیں۔ ارگینک مواد ستاروں کے درمیان دھول میں بھی موجود ہوتا ہے۔‘

گذشتہ چار مہینوں کے دوران پرسیویرینس نے اس چالیس میٹر اونچی ڈھلوان پر کام کیا ہے جو ڈیلٹا کے کنارے پر واقع ہے۔ جلد یہ روبوٹ شہابی گڑھے کی ہموار سطح پر پہنچے گا جہاں ٹائٹینیئم کی محفوظ ٹیوبز میں ان پتھروں کے نمونوں کو جمع کر لیا جائے گا۔ پھر انھیں ایک جگہ سطح پر اکٹھا کر لیا جائے گا

جے پی ایل کے پراجیکٹ سسٹمز انجینیئر رِک ولچ کہتے ہیں کہ ’ہماری کوشش ہوگی کہ سطح پر دس سے گیارہ ایسی ٹیوبز رکھی جائیں۔‘

’ان نمونوں کو وہاں رکھنے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں اور پھر یہ بڑی احتیاط سے درج کیا جائے گا کہ وہ کس مقام پر رکھی گئی ہیں تاکہ مستقبل کے مشن میں انہیں ڈھونڈا جا سکے۔‘

ناسا کے انجینیئرز اس کی مشقیں کر رہے ہیں کہ ان ٹیوبز کو کیسے باہر لا کر رکھا جائے گا۔ اس وقت یہ ٹیوبز پرسیویرینس کے پیٹ میں ہیں۔ جے پی ایل کی لیب میں اس روور روبوٹ کی کاپی موجود ہیں۔ اس پر تجربے کرنے کے بعد مریخ پر انھیں نقل کیا جاتا ہے

ناسا کے 19 اکتوبر کے اجلاس کے موقع پر اس کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا

ان نمونوں کی ڈیپو پر منتقلی کا منصوبہ حفاظتاً اختیار کیا جا رہا ہے کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ روور مشن کے باقی حصے کے دوران خراب ہوجائے۔ اس لیے نمونوں کو ایک مقام پر منتقل کیا جائے گا تاکہ انہیں زمین پر لایا جاسکے

سائنسدان مزید نمونے بھی جمع کرنا چاہتے ہیں۔ یوں زمین پر منتقلی کے لیے اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ روبوٹ مستقبل میں کہاں جاتا ہے

حتمی فیصلہ مریخ پر ہونے والے واقعات کریں گے

ناسا کے پلینٹری سائنس ڈویژن کی ڈائریکٹر لوری گلیز نے مشن کی اب تک کی کامیابیوں پر پرسیویرینس کی ٹیم کو سراہا ہے

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نہ صرف صحیح مقام پر گئے بلکہ ہم نے صحیح خلائی جہاز کو سائنس کے صحیح سامان کے ساتھ بھیجا تاکہ مریخ کے قدیم اور دلچسپ ماحول کو دیکھا جاسکے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close