کراچی: باپ نے مبینہ طور پر ہوم ورک نہ کرنے پر بیٹے کو زندہ جلا دیا

شازیہ پروین کے گھر میں بدھ کی شام معمول کا دن تھا۔ ان کے بچے ہوم ورک کر رہے تھے اور وہ اپنی نند کے ساتھ صحن میں موجود تھیں۔ ان کے شوہر نذیر احمد گھر میں آئے تو شازیہ نے اُنہیں بتایا کہ گھر کا چولہا خراب ہے۔ جس پر وہ اس کی مرمت کروانے لے گئے

اس دوران شازیہ کی آنکھ لگ گئی اور شور شرابے پر جب ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا شعلوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اگلے دو دن تک زیر علاج رہنے کے بعد وہ جان کی بازی ہار گیا

شازیہ پروین کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع چشتی نگر میں اپنے چار بچوں اور نند کے ہمراہ شوہر کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کی شادی والدین کی مرضی سے ہوئی تھی اور ان کے شوہر نذیر احمد پورٹ قاسم پر ایک کمپنی میں ملازم ہیں

شازیہ پروین کے مطابق بدھ کی شام وہ اپنی نند کے شور مچانے کی آواز پر اٹھی تھیں۔ ’میری نند شور مچا رہی تھی کہ بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ میں اٹھی اور کمرے میں جا کر دیکھا کہ میرا بیٹا بارہ سالہ شہمیر آگ میں جھلس رہا تھا۔ اس پر تیل ڈال کر آگ لگائی تھی۔ میرا شوہر نذیر اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ شہمیر کو موٹر سائیکل پر لے کر قطر ہسپتال گیا جہاں سے اس کو برنس وراڈ منتقل کیا گیا، جہاں دو دن زیر علاج رہنے کے بعد وہ فوت ہو گیا‘

شازیہ پروین کے مطابق ان کے شوہر کہتے تھے کہ ’اس کی ٹانگیں جلاؤں گا جب چربی گلے گی تبھی اس کا دماغ کرم کرے گا، آخر اس نے میرے بچے کو مار ڈالا۔ ہوم ورک نہ کرنے پر طیش میں آ کر تیل چھڑک کر میرے بیٹے کو آگ لگائی۔‘

کراچی کی مارکیٹ تھانہ پولیس نے شازیہ پروین کی مدعیت میں نذیر احمد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور عدالت سے اس کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے

ملزم نذیر احمد کا کہنا ہے ”میں پڑھا رہا تھا لیکن بیٹا کام مکمل نہیں کر رہا تھا۔ میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے مکمل خاموشی اختیار کر لی جس پر مجھے غصہ آ گیا اور بس سمجھ میں یہ آیا کہ سامنے تیل پڑا ہوا تھا پینٹ کا، وہ میں نے اس پر پھینکا اور ماچس کی تیلی جلائی۔ یہ تیلی میں نے اس کو ڈرانے کے لیے جلائی تھی اور کہا کہ پھینک دوں گا، پھینک دوں گا”

نذیر احمد کہتے ہیں ”مجھے نہیں معلوم کہ شہمیر پر جلتی تیلی کیسے گری۔ جیسے ہی اس نے چیخ ماری مجھے ہوش آیا، میں نے اس پر کمبل ڈالا اور بائیک پر لے کر قطر ہسپتال گیا، اس کے بعد برنس وارڈ لے گیا جہاں وہ فوت ہو گیا“

اسلام آباد میں بھی پچھلے دنوں ایک بچے پر والدہ کی جانب سے تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ سیکٹر ایف 11 میں ایک عورت نے اپنے باسط نامی بیٹے پر تشدد کیا جس کے نشانات اس کے جسم پر موجود تھے۔ اُنھیں سکول طلب کر کے استفسار کیا گیا تاہم خاتون نے واضح کیا کہ یہ ان کا بیٹا ہے اُنھوں نے جو کیا درست کیا، جس کے بعد بچے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں

اسلام آباد پولیس کے متعلقہ تھانے نے خاتون کو بچے سمیت طلب کیا، جس کے بعد پولیس کا ٹوئیٹر پر یہ پیغام آیا کہ آئی جی پولیس نے اس کا نوٹس لیا تھا۔ ماں اور بچے کو فوری طور پر تھانے منتقل کیا گیا جہاں والدہ نے بتایا کہ بچہ تعلیم پر توجہ کم دیتا ہے اس لیے اُنھوں نے اس پر سختی کی اور اس اقدام پر وہ شرمندہ ہیں

پاکستان میں بچوں پر تشدد اور قانون

انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ضیا اعوان کہتے ہیں کہ تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون موجود ہے جو خواتین و بزرگوں کے علاوہ بچوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس میں بچوں پر تشدد کے علاوہ ماں باپ ذاتی لڑائی میں جو بچوں کو لپیٹ میں لاتے ہیں اس سے بھی بچاؤ موجود ہے

پاکستان میں بچوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں مار پیٹ اور جسمانی سزاؤں کی روک تھام کا بھی قانون رائج ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان پر عمل نہیں ہوتا اور پولیس ایکشن میں نہیں آتی

پاکستان میں پولیس مددگار ہیلپ لائن بھی موجود ہے جبکہ نجی اداروں نے بھی اپنی ہیلپ لائن قائم کر رکھی ہیں۔ ضیا اعوان کے مطابق جو سرکاری ہیلپ لائن ہے اس پر لوگوں کا اعتماد نہیں اور جو نجی اداروں کی ہیں ان کے پاس وسائل نہیں ہیں

منفی رویے کے بچوں پر اثرات

پاکستانی معاشرے میں بچوں سے مار پیٹ ایک معمول کی بات ہے اور معاشرے میں سماجی سطح پر کافی حد تک قابل قبول نظر آتی ہے۔ کراچی کے جناح ہسپتال کے شعبہ ایموشنل اینڈ بیہیویئرل ہیلتھ کے سربراہ ڈاکٹر چنی لال کہتے ہیں کہ والدین کے منفی رویے بچے کی شخصیت کو مسخ کر دیتے ہیں اور ان کی ذہنی نشوونما متاثر کرتے ہیں۔ ’یہ رجحان ان والدین میں زیادہ ہوتا ہے جن کے اپنی شخصیت کے مسائل ہوتے ہیں اور اپنی محرومیاں ہوتی ہیں کیونکہ جو چیزیں وہ زندگی میں نہیں کر سکے وہ بچوں سے کروانا چاہتے ہیں۔‘

’ہمارے سماج میں والدین اور بچے کا رشتہ دوستی کے بجائے چھوٹے بڑے کا ہے۔ اس میں بچہ اگر کوئی ایسی چیز کر دے تو اس کو ہم اپنی عزت پر ایک دھبہ سمجھنے لگتے ہیں اور تشدد کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایسا سوچتے ہیں جیسے بچہ ایک روبوٹ ہے جو بٹن دبائیں وہ حکم پر عمل کرے۔‘

ڈاکٹر چنی لال کہتے ہیں کہ ’بچوں کو وقت اور توجہ کی ضرورت ہے والدین سکول یا ٹیوشن کے حوالے کر کے کام کاج میں لگے رہتے ہیں۔ والدین کو کم از کم ایک وقت کا کھانا اپنا بچوں کے ساتھ کھانا چاہیے تاکہ بچوں کو احساس ہو کہ ان کا وقت گھر میں گزرتا ہے کیونکہ ملازمت پیشہ والدین صبح جاتے ہیں اور شام کو یا رات کو واپس آتے ہیں جب بچے سو رہے ہوتے ہیں، اس لیے ان سے ان کا رابطہ نہیں رہتا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close