اسرائیلی میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انڈونیشیا کے ایک سینیئر سرکاری عہدیدار اور امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا ایک وفد اسرائیل پہنچا ہے، جہاں وہ صدر اسحاق ہرزوگ سے ملاقات بھی کریں گے
آئی ٹوئنٹی فور نیوز نے بتایا ہے کہ اس وقت ایک پاکستانی وفد بھی اسرائیل میں موجود ہے۔ وفد میں 9 افراد موجود ہیں، جن میں 4 پاکستان میں رہتے ہیں جب کہ دیگر میں پاکستانی نژاد امریکی اور برطانوی شامل ہیں
پاکستانی اور پاکستانی نژاد امریکی شہریوں پر مشتمل یہ وفد 18 ستمبر سے اسرائیل کے دورے پر ہے اور اس وفد میں پاکستانی امریکی تھنک ٹینک کے اراکین اور مختلف اہم شخصیات شامل ہیں
شراقہ آرگنائزیشن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی روح رواں انیلا علی نے سوشل میڈیا پر اس کی تصویر بھی جاری کی ہے
اسرائیلی نیوز چینل کے مطابق پاکستانی وفد میں سابق وزیر مملکت اور ملکی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نسیم اشرف بھی شامل ہیں، جب کہ وفد کے ہمراہ ایک پاکستانی صحافی بھی آئے ہیں، تاہم انہوں نے شناخت خفیہ رکھی ہے
انیلا علی نے بھی دورے کی تصدیق کرتے ہوئے پاکستانی سابق وزیر مملکت و سابق چئیرمین پی سی بی ڈاکٹر نسیم اشرف کی شمولیت کا بھی بتایا
ڈاکٹر نسیم اشرف سابق جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں اور وہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر بھی تعینات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چھ سال وزیر مملکت برائے انسانی ترقی بھی رہ چکے ہیں
اسرائیلی میڈیا کے مطابق پاکستانی وفد کا یہ دورہ ’ثقافت، سیاحت اور جیو پالیٹکس‘ کے تناظر میں ہے
انیلا علی کا کہنا ہے کہ یہ دو تنظیمیوں کی طرف سے منعقد کردہ نجی دورہ ہے جس کا مقصد خطے میں امن قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں یہ واضح کر دوں کہ یہ دورہ کسی حکومتی سرپرستی سے نہیں ہے تاکہ کوئی کوئی ابہام نہ رہے۔ بدھ کو گروپ کی اسرائیلی دفتر خارجہ کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں مسلم ممالک کے ساتھ خطے میں تعلقات اور امن کے حوالے سے تفصیل سے بات چیت کی گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گروپ میں تین صحافی پاکستان سے شامل ہیں، ایک پاکستانی صحافی دبئی سے جبکہ دو پاکستانی امریکی صحافی امریکہ سے شریک ہیں۔ اس کے علاوہ گروپ میں ایک ’امام مسجد‘ برطانیہ سے بھی شامل ہیں‘
برطانوی نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ کے مطابق دورے کے لیے پاکستان میں مقیم صحافیوں سے بھی رابطہ کیا گیا تھا۔ ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ انہیں اس دورے میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اسرائیل لے جانے کے سارے دستاویزی انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ معاملہ اسرائیل جانے کا تھا اور پاکستان نے فلسطین کے تناظر میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا تو وہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ بطور پاکستانی انہیں اسرائیل جانا چاہیے اس لیے انہوں نے میزبان گروپ سے معذرت کرلی
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد کو دورے کے لیے مدعو کیا گیا یا جو اس دورے پر گئے ان میں سے بیشتر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے
انیلا علی نے نو رکنی گروپ میں شامل مزید نام بتانے سے احتراز کیا کہ مناسب وقت پہ بتائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ’دورہ دس روز پر محیط ہے۔‘
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دعوت نامے کے باوجود مٹھی بھر پاکستانی ہی اس دورے کے لیے آمادہ ہوئے
انیلا علی کے بقول ”وہ لوگوں کے سوچنے کا انداز تبدیل کرنا چاہتی ہیں اور یہ سب پاکستان اور اس کے مستقبل کے لیے ایک کوشش ہے“
انہوں نے مزید کہا کہ مقصد ’مثبت طریقے سے پاکستان اسرائیل تعلقات‘ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ دس روزہ دورے میں اسرائیلی صدر، سفارتی افسران و ماہرین اس کے علاوہ مذہبی و سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں طے ہیں
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا دفتر خارجہ ان دوروں سے آگاہ ہے؟ تاہم ان کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا
خیال رہے کہ رواں برس اسرائیلی صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپریل کے آخر اور مئی کے شروع میں اسرائیلی سرزمین پر ایک پاکستانی وفد سے ملاقات کی تھی۔ تاہم اس وقت وزارت خارجہ نے کسی بھی پاکستانی وفد کی اسرائیلی دورے کی تردید کی تھی
چار ماہ میں پاکستانی امریکی گروپ کا یہ اسرائیل کا دوسرا دورہ ہے۔ پہلا دورہ رواں برس مئی میں ہوا تھا، جس میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے منسلک صحافی احمد قریشی بھی شریک تھے، جو دہری شہریت رکھتے ہیں لیکن اس شرکت پر انہیں سوشل میڈیا اور پاکستان میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا
جبکہ اگست کے اواخر میں وزیراعظم شہباز شریف کے قطر کے دورے کے دوران بھی ایک پُراسرار پرواز کی دوحہ آمد اور 9 گھنٹے قیام نے اس دورے کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دیا تھا
یہ معاملہ اسرائیل کے ہوابازی کے شعبہ سے منسلک رپورٹر ایوی شارف کی ٹویٹس سے آشکار ہوا۔ واضح رہے کہ ایوی شارف دنیا بھر میں غیرمعمولی فضائی نقل و حرکت پر فلائٹ راڈار کی مدد سے نظر رکھتے ہیں
ایوی شارف نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی قطر میں موجودگی کے دوران وہاں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے اعلیٰ حکام کے زیرِ استعمال رہنے والے ایک طیارے کی موجودگی بھی نوٹ کی تھی
یہ طیارہ وزیرِاعظم شہباز شریف کے طیارے کی موجودگی میں دوحہ اترا، 9 گھنٹے وہیں موجود رہا، جبکہ وزیرِاعظم شہباز شریف کا طیارہ اسرائیلی طیارے کی پرواز کے بعد 9 گھنٹے کے فرق سے اگلے روز صبح واپس روانہ ہوا تھا
واضح رہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ پاکستان پاسپورٹ پر کوئی شہری اسرائیل کا سفر بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا موقف ہے مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی دو قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے جو کہ دو ریاستوں کا ذکر کرتی ہیں
سفارتی ردعمل اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی
امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس (USIP) کے مطابق ٹریک ون ڈپلومیسی وہ ہوتی ہے جہاں حکومتی سطح پر دو ملکوں میں آپس میں بات چیت ہو۔ ٹریک ٹو وہ ہے جب حکومتی عہدے داروں کی بجائے دو اطراف سے غیر سرکاری افراد مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں۔ ان افراد میں تعلیمی شعبے، فنونِ لطیفہ اور صحافت وغیرہ سے منسلک افراد شرکت کرتے ہیں۔ عام طور پر ٹریک ٹو کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب حالات ایسے ہوں کہ دو ملک براہِ راست آپس میں بات نہ کر سکتے ہوں
اس حوالے سے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا ہے ’اس طرح گروپوں کے دورے کو ٹریک ٹو ہی کہیں گے لیکن ٹریک ٹو میں کسی سطح پر معاونت حاصل ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے معاملے پر عوامی جذبات اور فلسطین و کشمیر کے معاملے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے
انہوں نے مزید کہا کہ ٹریک ٹو اس صورت میں کامیاب ہوں گے اگر ٹریک ٹو ڈپلومیسی گروپ اسرائیل کو فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے قائل کرے۔ اس کے علاوہ اسرائیل مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پہ زور دے
انہوں نے کہا کہ اگر ٹریک ٹو ڈپلومیسی اس نکات پہ کامیاب ہو جاتی ہے تو صرف اسی صورت میں اسرائیل پاکستان کا معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے
سابق سیکرٹری دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے میڈیا رپورٹس ہی دیکھی ہیں لیکن یہ علم نہیں کہ ایسا واقعی ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے تو یہ قائداعظم محمد علی جناح کی جانب سے بنائے گئے خارجہ پالیسی اصولوں سے انحراف ہو گا اور ایسا ہونے کی صورت میں پاکستانی عوام سے بھی اس معاملے کو منظوری کی مُہر نہیں ملے گی
انہوں نے مزید کہا خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی سے قبل پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث ضروری ہے۔ تاہم ابھی تک اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔