ہنڈائی اور کیا کمپنی کی کاریں اور کچھ ایس یو وی گاڑیاں زیادہ چوری ہوتی ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں چوری سے بچانے والی ایک ’اہم‘ ڈیوائس نہیں ہوتی اور یہ بات چور بھی جانتے ہیں
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انشورنس انڈسٹری کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ باقی آٹو انڈسٹری کے مقابلے میں ان کاروں کی چوری کی شرح دو گنا زیادہ ہے، کیونکہ ان کی چابیوں میں چوری سے بچانے والے ’اموبیلائزر‘ سسٹم والی چِپ کی کمی ہے
یہ چوریاں بظاہر دو سال قبل امریکہ کے شہر ملواکی کے علاقے میں شروع ہوئی تھیں اور سوشل میڈیا پر وڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد مڈویسٹ کے متعدد شہروں اور کولوراڈو اور نیو میکسیکو تک پھیل گئیں
انشورنس انسٹیٹیوٹ برائے ہائی وے سیفٹی کے ایک یونٹ ہائی وے لاس ڈیٹا انسٹیٹیوٹ کو معلوم ہوا کہ بغیر اموبیلائزرز کے ہنڈائی اور کیا کی چوری ہونے والی بیمہ شدہ کاروں کے دعوؤں کی شرح 2.18 فی ایک ہزار رہی جبکہ باقی ساری صنعت کے اعدادوشمار ملا کر یہ شرح 1.21 ہے
جمعرات کو جاری کیے گئے اپنے نتائج میں اس انسٹیٹیوٹ نے بتایا کہ انہوں نے 2015ع سے 2019ع کے ماڈلز کی 2021ع میں چوری ہونے والی گاڑیوں کے دعوؤں کا مطالعہ کیا
خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ میں سال 2015ع سے 2019ع تک گاڑیوں کے جو ماڈلز آئے، ان میں ہنڈائی اور کیا گاڑیوں کے چوری کے دعوے تقریباً دو گنا زیادہ تھے
واضح رہے کہ چپ والی چابیاں، جو 1990ع کی دہائی میں آنا شروع ہوئیں، اگنیشن سوئچ میں لگی ایک اور چپ کے ساتھ کنیکٹ ہوتی ہیں۔ اگر دونوں ایک جیسی ہوں تو ، انجن قسٹارٹ ہوجائے گا، لیکن اگر وہ ایک جیسی نہ ہوں تو چور انجن کو اسٹارٹ نہیں کرسکتا ہے
انسٹیٹیوٹ نے کہا کہ جنوبی کوریا کی دو آٹومیکرز کی گاڑیوں جیساکہ کیا ری او اور اسپورٹیج اور ہنڈائی ایکسنٹ کی کم قیمت والی گاڑیوں کی چابیوں میں اموبیلائزر سسٹم نہیں ہے
انسٹیٹیوٹ کے سینیئر نائب صدر میٹ مور نے کہا ’ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اموبیلائزر متعارف کروانے کے بعد گاڑیوں کی چوری میں کمی واقع ہوئی‘
ان کے مطابق ’بدقسمتی سے ہنڈائی اور کیا معیاری سازوسامان بنانے میں دیگر آٹومیکرز سے پیچھے ہیں‘
انسٹیٹیوٹ نے کہا کہ سال 2015ع کے ماڈل میں، دیگر مینوفیکچررز کے ماڈلز میں 96 فیصد اموبیلائزر معیاری تھے، لیکن ہنڈائی اور کیا ماڈل میں صرف 26 فیصد معیاری تھے۔ کار بنانے والوں نے کچھ ماڈلز پر اموبیلائزرز نہ لگانے کے اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کی ہے
ویڈوز میں چوروں کو ہنڈائی اور کیا گاڑیوں کے اگنیشن کور اتارتے، انہیں اسٹارٹ کرتے اور لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
ملواکی جرنل سینٹینل اخبار کے مطابق گذشتہ سال ملواکی میں چوری ہونے والی دس ہزار 476 گاڑیوں میں سے 66 فیصد ہنڈائی یا کیا کی تھیں
ملواکی پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ اس سال اب تک شہر میں چوری کی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔ 12 ستمبر تک چھ ہزار اڑتالیس گاڑیاں چرائی گئیں لیکن ان میں سے 58 فیصد ہنڈائی یا کیا کی تھیں
جریدے سینٹینل کی رپورٹ کے مطابق کیا کی چوری کے بارے میں وائرل وڈیو کے بعد چوری کے شبہ میں ایک سترہ سالہ نوجوان کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب پولیس نے اس وڈیو اور ایک نامعلوم مخبر کی ٹپ سے اس کا سراغ لگایا۔ انہیں بائیس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے
ہنڈائی اور کیا دونوں نے اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ چور ان کی کچھ گاڑیاں چرا رہے ہیں اور کہا کہ وہ وفاقی حفاظتی معیارات پر پورا اترتی ہیں
کیا کا کہنا تھا ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جرائم پیشہ افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک مربوط انداز میں ان گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جن میں انجن اموبیلائزرز نہیں ہیں‘
سال 2022ع کی تمام کیا گاڑیوں میں اموبیلائزر لگائے گئے خواہ وہ شروع میں بنی ہوں یا سال کے دوران
ہنڈائی کا کہنا ہے کہ یکم نومبر 2021ع کے بعد تیار کیے جانے والے تمام ماڈلز میں معیاری آلات کے طور پر اموبیلائزرز موجود ہیں
کیا کا کہنا ہے کہ وہ چوری کی روک تھام کے لیے متاثرہ علاقوں میں حکام کو بغیر کسی قیمت کے اسٹیئرنگ وہیل لاک فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے
ہنڈائی کا کہنا ہے کہ وہ بھی پولیس کو لاک فراہم کر رہی ہے اور اکتوبر میں وہ ایک ایسی سکیورٹی کٹ فروخت کرنا شروع کر دے گی، جو چوری کے طریقوں کا توڑ ہوگی
انسٹیٹیوٹ کے سینیئر نائب صدر میٹ مور نے کہا کہ ہنڈائی اور کیا کا شمار بیس سب سے زیادہ چوری ہونے والی گاڑیوں میں ہوتا ہے، یہ فرق عام طور پر زیادہ طاقت والی یا مہنگی گاڑیوں، یا پک اپ ٹرکوں کے لیے مخصوص ہے
چوری کے خطرے سے دوچار زیادہ تر ہنڈائی اور کیا گاڑیاں اکثر کم آمدنی والے لوگ خریدتے ہیں۔ میٹ مور نے کہا ’ان نئی گاڑیوں کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کچھ ماڈلز کے مالکان نے پیسے بچانے کے لیے انشورنس نہ کروائی ہو اور ممکن ہے انہوں نے خود ہی کاروں کو تبدیل کیا ہو
نیشنل انشورنس کرائم بیورو کا کہنا ہے کہ چوری سے بچنے کے لیے مالکان کو چاہیے کہ وہ گاڑیوں کے شیشے بند رکھیں، دروازے لاک کریں اور چابی کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ انہیں چاہیے کہ ایسی جگہ یا گیراج میں گاڑی پارک کریں جہاں روشنی زیادہ ہو۔ اگر گاڑی باہر پارک کرنی پڑے تو مالکان کو موشن سینسر لائٹس انسٹال کرنے پر غور کرنا چاہیے۔