پولو کا کھیل، بھیڑ کا سر اور وزیر حسن کریم پا

عاشق فراز

تالیوں کا شور، سیٹیوں کی گونج اور ڈھول کی تیز آواز سے پولو گراؤنڈ اور ابولی ٹوق لرز رہا ہے، تماش بینوں سے نچلا نہیں بیٹھا جا رہا۔

رسی کے ایک سرے پر باندھے گئے خون آلود بھیڑ کے سر کو وزیر حسن اپنی کمر سے باندھی گئی رسی کی مدد سے دوڑتے ہوئے کھینچ رہے ہیں۔

ان کی سانس سینے میں دھونکی کی طرح چل رہی تھی اور بدن پسینے سے شرابور ہے۔ وہ پولو گراؤنڈ کے مرکزی چبوترے کے نیچے پہنچے ہیں۔ انہیں ابھی آگے بڑھنا تھا اور پورے گراؤنڈ کا چکر باقی ہے۔

سکردو میں نوروز کے دن یعنی 21 مارچ کو ہونے والے پولو ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچ سے پہلے یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔ نوروز کے دن کو آغاز بہار کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن نئے کپڑے پہننے، گھروں میں روایتی پکوان پکانے، رنگ برنگے انڈے لڑانے کے علاوہ پولو کا کھیل بھی بنیادی دلچسپیوں میں شامل ہے۔

پولو میچ سے پہلے ایک تازہ دم بھیڑ یا مینڈھے کو پولو گراؤنڈ کے داخلی راستے پر ذبح کیا جاتا ہے، بعد ازاں ذبح شدہ بھیڑ کے سر کو حسن کریم پا ایک رسی کے سرے سے باندھتے ہیں، پھر اسی رسی کا دوسرا سرا اپنی کمر سے باندھ کر پولو گراؤنڈ کے چاروں اطراف سرپٹ دوڑتے ہیں۔

اس دوران پولو گراؤنڈ، جو مقامی زبان میں شغرن کہلاتا ہے، کے اطراف میں موجود سینکڑوں سامعین مسلسل تالیاں بجاتے رہتے ہیں جبکہ مون یعنی موسیقاروں کا گروپ ڈھول پیٹتا ہے، اس ساز کو بلتی زبان میں ستغرا کہا جاتا ہے۔

پولو گراؤنڈ کی چوڑائی کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ لکڑی کے بنے گول پوسٹ ایستادہ کیے جاتے ہیں۔

روایتی موسیقی کے شور و غل میں حسن کریم پا کا دھیان کہیں نہیں بھٹکتا۔ وہ ہانپتے ہوئے بھیڑ کا سر مسلسل کھینچے چلے جاتے ہیں اور پولو گراؤنڈ کی دوسری سائیڈ والے گول پوسٹ پر پہنچتے ہی لمحہ بھر کے لیے رکتے ہیں، خون آلود بھیڑ کے سر کو گول پوسٹ سے مس کرتے ہیں اور پھر اپنی دوڑ جاری رکھتے ہیں۔

وہ پولو گراؤنڈ کے اس کنارے والے گول پوسٹ تک تیزی سے دوڑتے ہوئے واپس آتے ہیں، جہاں سے آغاز کیا تھا۔ وہاں پہنچ کر وہ خون آلود بھیڑ کا سر گول پوسٹ سے مس کرتے ہیں۔ یوں ایک چکر مکمل ہو جاتا ہے اور رسم پوری ہوتی ہے، جس کے بعد پولو کا کھیل شروع کیا جاتا ہے۔

جب میں نے وزیر حسن سے چند دن پہلے سکردو کے نانگ ژھوق چائے خانہ میں اس رسم کے بارے میں گفتگو کی تو وہ کافی فربہ لگ رہے تھے اور ایک لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سات آٹھ سال پہلے سے یہ کام چھوڑ دیا ہے کیونکہ عمر کی وجہ سے اب ایسا کرنا مشکل ہوگیا ہے تاہم سیٹیوں کی گونج، لوگوں کے داد و تحسین والے فقرے اور اندر کا جنون اب بھی انہیں اکساتا رہتا ہے مگر عمر رفتہ کو آواز دیں بھی تو کہاں لوٹ کر آتی ہے۔

پولو بلتستان میں صدیوں سے کھیلا جا ریا ہے، جس کے لیے بنیادی سرپرستی مقامی راجاؤں نے کی ہے، تاہم اب یہ کھیل زوال پذیر ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ پولو کا کھیل دستیاب تاریخ سے بھی قدیم ہے۔

آکسفورڈ ڈکشنری اور انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا کے مطابق اسی طرز کے کھیل کا آغاز وسط ایشیا کے خانہ بدوشوں کے ہاں ہوا، جہاں یہ کھیل کے علاوہ جنگی حکمت عملی کی تربیت کا بھی حصہ تھا۔ وہاں سے یہ کھیل 600 قبل مسیح سے 100 عیسوی تک ایران اور پھر دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔

تاریخی حوالوں کے مطابق ایران کے ساسانی بادشاہوں کے عہد (224-651 عیسوی) میں یہ منظم صورت میں کھیلا جاتا تھا، جس میں رؤسا اور فوجی کماندار حصہ لیتے تھے اور اسے چوگان کہا جاتا تھا، جو بعد ازاں برصغیر میں بھی اس نام سے متعارف ہوا۔ ایران کے مشہور شاعر فردوسی نے اپنے شاہ نامہ میں چوگان کے ایک مقابلے کی منظوم روداد فارسی میں لکھی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اناطولیہ (موجودہ ترکی) میں یہ کھیل بازنطینی حکومت کے دوران پہنچ گیا تھا۔

پولو کو مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے۔ قازقستان والے اسے شوگن (Shogen) کہتے تھے، یورپ میں شروع شروع میں یہ گھوڑے کی پشت پر ہاکی یعنی ’ہاکی آن دی ہارس بیک‘ (Hockey on the horseback) اور برصغیر میں چوگان کے نام سے مقبول رہا۔

برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے اپنی تزک بابری میں چوگان کھیلنے کا تذکرہ کیا ہے اور بعد ازاں مغل شہنشاہوں کا بھی یہ پسندیدہ کھیل رہا۔ شہنشاہ جلال الدین اکبر جو مغل اعظم کے طور پر مشہور ہیں، کے دور کی تاریخ طبقات اکبری میں چوگان بازی کی تفصیل دی گئی ہے۔ اسی طرح دیگر مغل بادشاہوں جہانگیر، شاہ جہان اور اورنگزیب کی کتابیں، جو تزک کہلاتی ہیں، ان میں بھی جگہ جگہ چوگان کا ذکر ہے۔

برصغیر میں جدید پولو کا آغاز منی پور میں ہوا، جو انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ہے۔ اس ریاست کی تاریخی دستاویزات میں پولو کے کھیل کو Sagol Kangjei کا نام دیا گیا ہے اور پولو گراؤنڈMapal Kangjeibung کہلاتا تھا۔ یہیں پر پہلی دفعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کےJeo Shearer نے مقامی لوگوں کو یہ کھیل کھیلتے ہوئے دیکھا اور کہا کہ ’ہمیں یہ کھیل سیکھنا چاہیے۔‘

1859 میں برطانوی فوجی افسروں اور چائے اگانے والوں نے پہلا پولو کلب قائم کیا۔ انڈیا سے پولو 1868 میں مالٹا، 1869 میں انگلینڈ، 1870 میں آئرلینڈ، 1872 میں ارجنٹائن اور 1874 میں آسٹریلیا تک پہنچ گیا۔

گلگت بلتستان میں بھی پولو صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ گلگتی شنا میں اسے بولو اور بلتی زبان میں پولو کیا جاتا ہے جبکہ استور اور دیامیر میں اس کا بالکل علیحدہ نام ’ٹھوپے‘ ہے۔ بلتی زبان میں گول گیند کو پولو کہتے ہیں، اس لیے کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اس کھیل کا آغاز یہاں سے ہوا ہے کیونکہ یہ نام یہاں کا ہے۔

1835 میں بلتستان میں آنے والے سب سے پہلے انگریز سیاح جی ٹی وین (G. T. Vigne) نے اپنی کتاب میں راجہ احمد شاہ کے ساتھ یہاں کی تاریخ اور ثقافت پر مفصل گفتگو کی ہے اور کتاب میں جگہ جگہ اس کھیل کو چوگان بازی کا نام دیا ہے۔

پولو کا نام آکسفورڈ ڈکشنری اور انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے بعد کے ایڈیشنز میں انگریزوں کی وجہ سے درج ہوا ہے۔ قدیم ایرانی تاریخ، وسطی ایشیا اور مغلیہ برصغیر میں اس کا نام چوگان ہی مستعمل تھا اور رہا ہے۔

گلگت بلتستان کے ممتاز محقق جناب حسن حسرت نے پولو کے نام سے ایک کتاب تحریر کی، جو 2003 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے پولو اور اس کھیل سے متعلق رسم و رواج کو بیان کیا ہے۔

وزیر حسن کا خاندان کریم پا کہلاتا ہے اور ان کا تعلق کورو گاؤں سے ہے۔ رشتے میں وہ وزیر محمد علی ولی پا کے خالہ زاد ہیں، اسی لیے انہیں بھی وزیر کہا جاتا ہے۔ وزیر محمد علی پولو کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔

وزیر حسن کریم پا کا کہنا تھا کہ ان سے پہلے دراصل بھیڑ کے سر کو پولو گراؤنڈ میں گھمانے کا کام تقی نامی شخص کے ذمہ تھا، جو راجہ سکردو کے کاشت کار تھے۔

20 سال پہلے جب تقی عمر رسیدہ ہوئے اور وہ امام بارگاہ کلاں میں مرثیہ و سوز خوانی کرنے لگے تھے، تو وزیر حسن نے پولو گراؤنڈ کی یہ ذمہ واری ان سے لے کر اپنے کندھے پر لے لی۔

وزیر حسن کو اس کام کے عوض جو داد و تحسین ملی، وہ اپنی جگہ دوسری طرف راجہ ذوالفقار علی خان مقپون نے اس وقت کی انتظامیہ کو کہہ کر انہیں گلگت بلتستان کی ٹرانسپورٹ کمپنی نیٹکو میں ملازمت دلوائی تھی، جہاں سے وہ گریڈ ون سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کئی تعارفی اسناد اور میڈل بھی موجود ہیں، جو مختلف پولو ٹورنامنٹس میں ان کے کام کو سراہتے ہوئے دیے گئے ہیں۔

جہاں پولو کے کھیل کے دوران حسن کریم پا خون میں آلودہ رہتے تھے، وہیں ان کی ایک اور خدمت بھی ہے، جس کا تعلق بھی خون سے ہے۔ ان کا یہ پہلو نہ صرف قابل قدر ہے بلکہ گلگت بلتستان کی سطح پر سراہے جانے کے قابل ہے۔

حسن کریم پا نے جوانی میں ہی عزم کرلیا تھا کہ کسی طریقے سے خدمت خلق کی جائے اور اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی روپیہ پیسہ تو تھا نہیں، صرف متاع جاں تھی، لہذا انہوں نے انسانوں کی خدمت کے لیے جان ہتھیلی پر رکھی اور اپنا خونِ دل پیش کردیا یعنی دکھی انسانیت کے لیے خون کا عطیہ دینا شروع کیا۔

انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ خون کس کو دے رہے ہیں۔ وہ رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی حد بندی اور تنگ نظری سے بلند ہو کر ہر ضرورت مند کو اپنے بازوؤں کا تازہ سرخ خون ایسے بخشنے لگے کہ کوئی ریوڑیاں بھی اتنی آسانی سے نہیں بانٹتا۔

ان کے سامنے جو مطمع نظر تھا وہ بالکل سیدھا سادہ تھا کہ کسی کی جان بچائی جائے اور اس کے لیے انہیں نہ صلے کی پروا تھی اور نہ ہی ستائش کی تمنا ان کے ذہن کے کسی کونے کھدرے میں تھی۔

تاہم ضلعی انتظامیہ اور تنظیم النصرت سندوس نے مشترکہ طور پر وزیر حسن کی خدمات پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر حاجی ثنا اللہ صاحب کے ذریعے انہیں خصوصی میڈل دیا۔

اب پولو گراؤنڈ کے چکر کاٹنا وزیر حسن کے بس کی بات نہیں۔ عمر 60 سال سے تجاوز کر چکی ہے، تاہم جب کبھی کوئی پولو میچ ہوتا ہے تو وہ پولو گراؤنڈ کی منڈیر پر بیٹھے خاموشی سے تماشائی بن کر کھیل دیکھتے رہتے ہیں۔

اس دوران ان کے ذہن کے پردے پر ماضی کی یادیں اور پولو کے مشہور کھلاڑیوں کی تصویریں ابھر ابھر کر سامنے آتی ہیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور پھر ایک عجب سی اداسی انہیں گھیر لیتی ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close