جوزیفہ ماریا کے رشتہ داروں نے دیکھا کہ وہ اس سال کے شروع میں ٹھیک محسوس نہیں کر رہی تھیں، جب انہوں نے ہر روز سگریٹ مانگنے کی عادت ترک کر دی تھی
یہ برازیل کی ریٹائرڈ کسان کی ایک سو بیسویں سالگرہ منانے کے بعد ہوا۔ جوزیفہ کے بائیس بچوں میں سے ایک سیسرا کہتی ہیں ”میری ماں نے ساری زندگی سگریٹ نوشی کی ہے۔۔ جیسے جیسے وہ عمر رسیدہ ہوتی گئیں ہم نے ان سے سگریٹ نوشی چھڑوانے کی کوشش کی۔ لیکن میری ماں ہمیشہ خود جا کر سگریٹ خریدنے کی دھمکی دیتی تھیں“
رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ وہ اپنے ملک میں مقامی ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے لیے ’دنیا کی معمر ترین خاتون‘ ہونے کی وجہ سے مشہور تھیں
ادھر جسیپی کے برتھ سرٹیفکیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 7 فروری 1902ع کو پیدا ہوئے تھے اور گنیز ورلڈ ریکارڈ کے لیے ان کی درخواست کامیاب رہی تھی
دنیا کی معمر ترین شخصیت کا موجودہ خطاب فرانسیسی راہبہ لوسیل رینڈن کا ہے، جو سسٹر آندرے کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان کی عمر ایک سو اٹھارہ سال ہے
مردوں میں یہ ریکارڈ وینزویلا سے تعلق رکھنے والے جوآن ویسینٹے مورا کے پاس ہے، جن کی عمر ایک سو تیرہ سال ہے
ان برسوں میں سسٹر آندرے کا دنیا کی واحد بزرگ خاتون کے طور پر مقام مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ کیونکہ سو سالہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں جلد ہی دس لاکھ سے زیادہ سو سالہ لوگ ہوں گے
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے اندازے کے مطابق 2021ع میں دنیا میں سو سال سے زائد عمر کے تقریباً چھ لاکھ اکیس ہزار افراد تھے، یہ تعداد موجودہ دہائی کے اختتام تک دس لاکھ سے بڑھ جائے گی
جبکہ 1990ع میں صرف بانوے ہزار افراد نے اپنی عمر کی سینچری مکمل کی تھی
انسانوں نے لمبی عمر کی راہ میں ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ معاشی ترقی، ادویات، علاج، خوراک اور زندگی کے بہتر حالات کی بدولت انسان نے اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں طویل عمر پائی ہے
1960ع میں جب اقوام متحدہ نے عالمی اعداد و شمار ریکارڈ کیے تو اوسط عمر تقریباً باون سال تھی
لیکن ہمیں سو سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے
دنیا بھر میں ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی پچھترویں سالگرہ تک پہنچنے کی توقع بھی نہیں کر سکتے کیونکہ عالمی اوسط متوقع عمر تقریباً تہتر سال ہے
یقیناً مختلف ممالک میں صورتحال ایک جیسی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جاپان میں ایک اوسط فرد پچاسی سال کی عمر تک زندہ رہتا ہے اور وسطی افریقی جمہوریہ میں یہ اوسط صرف چون سال ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر لوگ جو بڑھاپے کو پہنچتے ہیں وہ دائمی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں
برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں سیل بائیولوجی کی پروفیسر جینیٹ لارڈ کہتی ہیں ”لمبی عمر کا مطلب اچھی زندگی گزارنا نہیں۔۔ اوسطاً مرد اپنی زندگی کے سولہ سال ذیابیطس اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں میں گزارتے ہیں اور خواتین اپنی زندگی کے انیس سال ایسے گزارتی ہیں“
لمبی عمر کا راز کیا ہے؟
بوسٹن یونیورسٹی کی طویل تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پچاس لاکھ امریکیوں میں سے صرف ایک ہی کم از کم ایک سو دس سال تک زندہ رہ سکتا ہے
اگرچہ محققین نے 2010ع میں یہ تعداد ساٹھ ستر افراد کے لگ بھگ بتائی تھی لیکن 2017ع میں یہ تعداد ڈیڑھ سو افراد تک پہنچ گئی ہے
سو سال زندہ رہنے والوں میں وہ سائنسدان بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، جو انسانی لمبی عمر اور بڑھاپے کے شعبے میں تحقیق کرتے ہیں
پروفیسر لارڈ کا کہنا ہے ”یہ لوگ، عمر بڑھنے کے نتیجے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، اس کے بارے میں لچک رکھتے ہیں، اور ہم واقعی نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہے“
لمبی عمر کے علاوہ ایسے افراد اپنی صحت اور اچھی جسمانی حالت کے لیے مشہور ہیں۔ مثال کے طور پر، ان کے خاندان کے افراد کے مطابق، جوزیفہ کو مسلسل کوئی دوا لینے کی ضرورت نہیں ہے اور پھر بھی وہ مٹھائیاں اور سرخ گوشت کھاتی ہیں
یہ سچ ہے کہ ان کی یادداشت خراب ہو گئی ہے اور ان کی بینائی کم ہو گئی ہے لیکن سیسرا تسلیم کرتی ہہں کہ وہ اب بھی اپنی ماں کی حالت پر حیران ہیں
ان کے چھہتر سالہ بیٹے کا کہنا ہے ”وہ پہلے کی طرح چل نہیں سکتیں اور ہمیں انہیں اٹھانا پڑتا ہے اور بچوں کی طرح ان کے لنگوٹ بدلنے ہوتے ہیں۔ لیکن میں اب بھی یقین نہیں کر سکتا کہ میری ماں اتنے سالوں سے زندہ ہیں، وہ بچپن سے ہی سگریٹ نوشی کرتی رہی ہیں اور کئی دہائیوں کی سخت جسمانی مشقت سے گزری ہے“
لمبی عمر پر تحقیق کرنے والے ماہرین کو جو چیز حیران کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ جو لوگ سو سال یا اس سے زیادہ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، وہ ہمیشہ صحت مند طرز زندگی پر قائم نہیں رہتے
جیسا کہ جوزیفہ ماریا کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے، جنہوں نے تقریباً ساری زندگی سگریٹ نوشی کی ہے اور شمال مشرقی برازیل کے پسماندہ علاقے میں مشکل زندگی گزاری ہے
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک امریکی جریدے کی 2011ع کی تحقیق کے مطابق پچانوے سال سے زیادہ عمر کے چار سو افراد میں بہت سی عادات صحت مند ہرگز نہ تھیں
تحقیق میں تقریباً 60 فیصد لوگ بہت زیادہ تمباکو نوشی کرتے تھے اور ان میں سے نصف اپنی زندگی میں موٹاپے کا شکار تھے۔ اور صرف تین فیصد سبزی خور تھے اور ان سب حیران کن چیزوں میں سے ایک یہ تھی کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ ورزش بھی نہیں کرتے تھے
برطانیہ کی برائٹن یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ فراگر کہتے ہیں ”وہ ایک فطری طور پر غیر معمولی صورتحال میں ہیں، کیونکہ انکوں نے ہر اس چیز کے برعکس کیا ہے اور کر رہے ہیں جو ہمارے خیال میں لوگوں کو طویل عرصے تک زندہ رہنے میں مدد کرتا ہے“
کیا اس کی وجہ جینیاتی ڈھانچہ ہے؟
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جینیاتی ڈھانچہ لوگوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے
سو سال یا اس سے زیادہ عمر پانے والے اس نقصان سے بچے ہوتے ہیں، جس سے نوجوان اور ان سے کم عمر افراد متاثر ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ ایسی غیر صحت مند عادات رکھ کر بھی بچ نکلتے ہیں، جو بہت سے دوسرے لوگوں کی موت کی وجہ بنتی ہے
ماہرین ان جینیاتی فوائد کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اتنے واضح نہیں ہیں۔ سنہ 2020ع میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس گروپ کے زیادہ تر لوگوں میں ایسے جینز تھے، جو بڑھاپے کی بیماریوں کا باعث بنتے تھے
سو سال کی عمر تک پہنچنے والے افراد کی تعداد میں اضافے نے سائنسدانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ عام طور پر انسانی عمر میں اضافہ ہوا ہے
سب سے عمر رسیدہ شخص کا ریکارڈ
اب تک زمین پر سب سے معمر شخص جین لوئس کالمنٹ تھیں، جن کی 1997ع میں ایک سو بائیس سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ سرکاری طور پر وہ واحد شخص تھیں، جو ایک سو بیس سال سے زیادہ دیر زندہ رہیں
امریکہ کی یونیورسٹی آف واشنگٹن کے محققین کا خیال ہے کہ اس صدی میں لوگوں کی متوقع عمر نئی حدوں کو چھو لے گی اور ممکن ہے کہ مزید لوگ اپنے کیک پر ایک سو پچیس یا ایک سو تیس کی موم بتیاں رکھیں گے
ایک محقق اور شماریات دان مائیکل پیئرس کہتے ہیں ”یہ ہمارے لیے یقینی ہے کہ 2100ع میں لوگ موجودہ عمر کا ریکارڈ توڑ دیں گے اور غالب امکان ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے جو 126، 128 اور یہاں تک کہ 130 سال کی عمر کو پہنچ جائیں گے“
پیئرس اور پروفیسر آدرین رافٹری کا یہ اندازہ ہوائی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے انہوں نے آنے والی دہائیوں میں متوقع زندگی کی حدود کا تصور کرنے کے لیے متوقع زندگی سے متعلق عالمی ڈیٹا کا استعمال کیا ہے
انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ سو فیصد امکان ہے کہ یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا اور 68 فیصد امکان ہے کہ آنے والی دہائیوں میں کوئی اپنی ایک سو ستائیسویں سالگرہ منائے گا
عمر رسیدگی کی وجوہات کو سمجھنا
عمر بڑھنے کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے سائنس کو اب بھی کئی سوالوں کے جواب کھوجنے باقی ہیں
کنگز کالج لندن کے سنٹر فار ایجنگ ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رچرڈ سیوو جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ایسی دنیا میں، جس کی آبادی تیزی سے عمر رسیدہ ہو رہی ہے، وہاں معیارِ زندگی کو بہتر بنانا ضروری ہے
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نسبت پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد زیادہ ہیں
سیوو بتاتے ہیں ”بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ ہم کتنی دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم عمر بڑھنے کے ٹوٹ پھوٹ میں کتنی تاخیر کر سکتے ہیں اور لمبی اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔۔ اس طرح اگر ہم خوش قسمتی سے بڑھاپے کو پہنچ گئے تو ہم ان برسوں میں دُکھ اور تکلیف کے بجائے زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں“
ہیلپ ایج، جو کہ دنیا بھر میں بزرگوں کی مدد کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا ایک نیٹ ورک ہے، نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ فلسفہ بزرگوں کو ایک نعمت اور موقع کے طور پر دیکھنے میں مدد کرنے میں بہت اہم ہے۔ ان کے مطابق بزرگوں کو ایک بوجھ اور رکاوٹ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے
ہیلپ ایج کے ترجمان ایڈورڈو کلین کہتے ہیں ”یہ مہلک نظریہ، جو بڑھاپے کو ایک مسئلے اور المیے کے طور پر بتاتا ہے، گمراہ کن ہے“
انہوں نے کہا ”عمر رسیدہ افراد، جن کی صحت کی حالت اچھی ہے، وہ مختلف طریقوں سے انسانی معاشروں کے لیے اچھے ثابت ہو سکتے ہیں، بشمول معاشی پہلو سے“