”جو بھی ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے“ یوکرینی علیحدگی پسند رہنما

ویب ڈیسک

کییف – مشرقی یوکرین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے روس کے حملے اور یورپ میں جنگ کے خدشات کو اس وقت مزید بڑھا دیا، جب ایک انسانی امدادی قافلہ گولہ باری کا نشانہ بنا جبکہ روس نواز باغیوں نے تنازعات کے علاقے سے شہریوں کو نکالنا شروع کردیا

اے پی کی رپورٹ کے مطابق کریملن نے اپنے فوجی دستوں کی تیاری کے لیے بڑے پیمانے پر جوہری مشقوں کا اعلان کیا تھا، اور صدر ولادیمیر پیوٹن نے روس کے قومی مفادات کے تحفظ کا عہد کیا، جسے وہ مغربی خطرات کی گھیراؤ کے طور پر دیکھتے ہیں

البتہ فوری طور پر تشویش مشرقی یوکرین پر مرکوز رہی، کیونکہ لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقوں میں ماسکو نواز باغیوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے شہریوں کو روس منتقل کرنا شروع کر دیا ہے

مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے رہنما اور یوکرین کی باغی ’جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کے مرکزی لیڈر ڈینس پُوشی لین نے اپنے تمام ریزرو فوجیوں کو حرکت میں آنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے ’’جو کوئی بھی ہتھیار اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے‘‘

یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے ہفتہ انیس فروری کو ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس بحران زدہ مشرقی یورپی ملک میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے رہنما ڈینس پُوشی لین نے آج اس خطے کے تمام ریزرو فوجیوں کو حرکت میں آنے کا حکم دے دیا ہے

علیحدگی پسندوں کے اس رہنما نے ٹیلیگرام نیوز چینل پر اپنے ایک تحریری پیغام میں کہا کہ جنگ کے ‘شدید تر‘ خطرے کی وجہ سے اب ضروری ہو گیا ہے کہ تمام ممکنہ عسکری صلاحیتوں کو حرکت میں لایا جائے

اپنے اس تحریری حکم میں عسکری تیاریوں کے لیے ”جنرل موبیلائزیشن“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ڈینس پُوشی لین نے لکھا ”میں جمہوریہ ڈونیٹسک کے ان تمام مردوں کو، جو اپنے ہاتھوں میں کوئی بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے ہتھیار اٹھا لیں، تاکہ وہ اپنے خاندانوں، بچوں، بیویوں اور ماؤں کی حفاظت کر سکیں۔‘‘

مشرقی یوکرین کے اس علیحدگی پسند رہنما کے مخاطب اس روس نواز خطے کے تمام ریزرو فوجی تھے

ڈونیٹسک کی باغی حکومت کے سربراہ ڈینس پوشیلین نے کہا کہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو پہلے وہاں سے نکالا جائے گا اور روس نے ان کے لیے سہولیات تیار کر رکھی ہیں

انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں الزام لگایا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی علاقے میں ایک فوری حملے کا حکم دینے جا رہے ہیں

اس کے بیان کے فوراً بعد،حکام نے ڈونیٹسک کے ایک یتیم خانے سے بچوں کو منتقل کرنا شروع کردیا اور دوسرے رہائشی روس کے لیے بسوں میں سوار ہو گئے، پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی لائنیں لگ گئیں، کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خود ہی نکلنے کے لیے تیار ہو گئے

دوسری جانب یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ایس سی ای نے، جو مشرقی یوکرین میں فائر بندی کی نگرانی کرتی ہے، کہا ہے کہ اس علیحدگی پسند خطے میں سیزفائر کی خلاف ورزیوں میں کافی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے

روس نواز باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ڈونیٹسک کے علاقے میں گولہ باری سے پانی کی ایک پائپ لائن کو کافی نقصان پہنچا ہے

مشرقی یوکرینی علیحدگی پسندوں کے رہنما نے اپنا تازہ ترین بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے، جب اس خطے میں ایک نئی جنگ کی آگ بھڑک اٹھنے کے خدشات گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل بہت زیادہ ہو چکے ہیں

امریکا اور یورپی ممالک کے رہنما پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل یہ بیانات دے رہے ہیں کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے

امریکی اور یورپی حلقوں کا کہنا ہے کہ یوکرینی علیحدگی پسندوں کے رہنما کا بیان ایک بار پھر یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ مشرقی یوکرین میں جنگ کا خطرہ شدید تر ہو چکا ہے اور وہاں تشدد بڑھتا جا رہا ہے

مغربی دفاعی ماہرین کے بقول یہی وہ ممکنہ بہانہ ہو سکتا ہے، جس کا سہارا لے کر روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرائن پر فوجی چڑھائی کر سکتا ہے

یاد رہے کہ ایک روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے دعویٰ تھا کہ روس، یوکرین پر حملہ کرنے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے

مغربی دفاعی حلقوں کے مطابق پوشی لین کا حالیہ اعلان روس کے حملے کے بارے میں مغربی انتباہات کا مقابلہ کرنے اور اس کے بجائے یوکرین کو جارح کے طور پر دکھانے کی ماسکو کی کوششوں کا حصہ معلوم ہوتا ہے

ڈینس پُوشی لین مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی علامتی ‘جمہوریہ ڈونیٹسک‘ کی حکومت کے سربراہ ہیں اور ان کے تازہ ترین بیان سے قبل اس خطے میں ایک اور بڑی پیش رفت بھی دیکھنے میں آنے لگی تھی

یہ پیش رفت علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ ڈونیٹسک اور لوہانسک نامی علاقوں سے خواتین اور بچوں کی ہمسایہ ملک روس کے سرحدی علاقوں میں منتقلی کا عمل تھا۔ یہ منتقلی بظاہر اس لیے شروع کی گئی ہے کہ ممکنہ جنگ کی صورت میں اس خطے کی عورتیں اور بچے محفوظ رہیں

دوسری جانب ولادیمیر پیوٹن نے اپنے ہنگامی امور کے وزیر کو حکم دیا کہ وہ یوکرین کی سرحد سے متصل علاقے روستوف کے لیے روانہ ہو جائیں، تاکہ انخلا کو منظم کرنے میں مدد ملے

ساتھ ہی انہوں نے اپنے حکام کو حکم دیا کہ وہ ہر انخلا کرنے والے کو دس ہزار روبل (تقریباً ایک سو تیس ڈالر) کی ادائیگی کی جائے، جو جنگ سے تباہ شدہ ڈونباس میں اوسط ماہانہ تنخواہ کے نصف کے برابر ہے

ادہر یوکرین نے کسی بھی حملے کی منصوبہ بندی کی تردید کی، وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے کہا کہ ان کا ملک ڈونباس میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے

انہوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ہم تنازعات کے صرف سفارتی حل کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں

ادھر رابطوں کی غیر مستحکم لائن کے اطراف اقوام متحدہ کا ایک قافلہ لوہانسک کے علاقے میں باغیوں کی گولہ باری کی زد میں آیا جس میں باغیوں نے ملوث ہونے سے انکار کیا اور یوکرین پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا

تاہم علیحدگی پسند حکام نے لائن کے ساتھ یوکرینی فورسز کی جانب سے مزید گولہ باری کی اطلاع دی جبکہ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ صورتحال ممکنہ طور پر بہت خطرناک ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close