گلیشیر پھٹنے سے سیلاب: غذر کے گاؤں بوبور کی المناک داستان، کیا ہمیں فکرمند ہونا چاہیے؟

ویب ڈیسک

یہاں سیلاب تو آ کر گزر چکا ہے مگر تباہی کے آثار باقی ہے۔ مقامی افراد جس تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہاں دیکھنے کو صرف لاتعداد پتھر نظر آتے ہیں جو مرکزی سڑک سے لے کر اونچائی کی طرف پہاڑ کے قدموں تک کئی کلو میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں

مقامی لوگ جس ‘نقصان’ کے بارے میں بتاتے ہیں، وہ سننے میں محض اعداد وشمار یا نمبرز ہیں۔ 63 مکانات، دو جماعت خانے (عبادت گاہیں)، کچھ پل اور مرکزی سڑک کا ایک حصہ

لیکن پہاڑوں سے پتھر ساتھ لانے والا پانی محض چند منٹوں میں اپنے ساتھ جو کچھ بہا کر لے گیا، وہ یہاں کے لوگ شاید الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے۔ وہ ان کے چہروں پر نظر آتا ہے۔ انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے وہ جذباتی طور پر کئی دن گزر جانے کے بعد بھی اس دھچکے سے باہر نہیں آئے

بوبور پہاڑ کے عین دامن میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ گلگت بلتستان کے غذر ضلعے کی ایک تحصیل پنیال میں واقع ہے۔ یہ گاؤں ہماری منزل نہیں ہے۔ ہم یہاں سے صرف گزر رہے ہیں لیکن ہمیں یہاں رکنا پڑا

یہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ہم وادی درکوت میں واقع گلیشیئرز اور ان کے رویے میں آنے والی جس تبدیلی کو دیکھنے جا رہے ہیں اسی طرز کی ایک تبدیلی کے اثرات بوبور کو چند ہی روز پہلے دیکھنے پڑے ہیں

دور سے دیکھنے میں یہ گاؤں گلگت بلتستان کے کسی بھی دوسرے پرکشش گاؤں دیہات ہی کی طرح نظر آتا ہے۔ پہاڑ کا دامن، چھوٹے بڑے مکانات، خوبانی اور سفیدے کے درختوں کے جھنڈ، جنگل، گھروں کے گرد پھیلی انگور کی بیلیں اور اکا دکا پہاڑی نالے

آپ اگر مسافر ہیں تو شاید آپ بھی صرف اس کے حسن کی تعریف کر کے آگے بڑھ جائیں۔ لیکن لکڑی کے پل کو عبور کر کے دریا کے دوسری طرف جب ہم اس گاؤں کی مرکزی سڑک پر اس مقام تک پہنچے جہاں سے سیلاب کا پانی گزرا تھا تو نظارہ بہت مختلف تھا

پینٹنگ کیسے بدل گئی؟

اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے خوبصورت پینٹنگ کا ایک حصہ درمیان سے پھاڑ دیا ہو۔ یہ آبادی دریا اور پہاڑ کے درمیان دو یا تین کلو میٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ عام حالات میں بارشوں کا جو پانی پہاڑ پر بنے ایک درے سے آتا تھا اس نے ایک مستقل گزرگاہ بنا رکھی تھی

یہ پانی اس نالے سے ہوتا نیچے دریا میں گر جاتا تھا۔ لیکن اس دفعہ کچھ مختلف ہوا۔ گزشتہ مہینے کی بات ہے۔ کئی روز سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ پھر ایک صبح لگ بھگ 10 بجے کے قریب گاؤں والوں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی

یہ آواز اتنی اونچی تھی کہ دریا کی دوسری طرف کی آبادیوں سے بھی لوگ بابور کی طرف دوڑ پڑے تھے۔ بابور میں یہ آواز سن کر جو لوگ باہر تھے وہ پناہ لینے کے لیے نالے سے دور بھاگے۔ انھیں لگا کہ یہ گلیشیئر پھٹنے یا آسمانی بجلی گرنے کی آواز تھی۔ اس کے ساتھ اوپر پہاڑ سے پانی کا سیلاب نکل پڑا تھا

ان کا خیال تھا کہ سیلاب بھی ہے تو اس کا پانی اس نالے میں آئے گا۔ لیکن انھیں اس وقت حیرت ہوئی جب پانی نالے کی طرف گیا ہی نہیں۔ اشرف خان یہاں کی ایک سماجی شخصیت ہیں۔ نالے سے چند ہی قدم کے فاصلے پر انھوں نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں سے سیلاب آیا

پتھروں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’یہاں ہمارے دو جماعت خانے تھے۔ بہت ہی خوبصورت بنے ہوئے تھے۔ باقی گھر بھی بنتے رہیں گے لیکن ہمیں جماعت خانوں کے ڈھیر ہو جانے کا بہت دکھ ہے۔‘

بوبور کے لوگ خوفزدہ کیوں ہیں؟

سڑک کے دوسری طرف کچھ گھروں کی صرف چھتیں نظر آ رہی تھی۔ باقی مکان پتھروں کے ملبے تلے دبے تھے

اشرف خان نے مجھے بتایا کہ اس سے پہلے ’صدیوں سے یہاں کے لوگوں نے اس طرح کی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ نہ کبھی یہاں اتنی زیادہ بارش ہوئی، نہ کبھی سیلاب آیا اور نہ ہی کبھی نالے نے اپنا رستہ بدلا۔‘

اس مرتبہ بارش مسلسل کئی روز تک چلتی رہی۔ دھماکے کی آواز کے بعد جب پہاڑ سے پانی نکلا تو اس کا رخ اس جانب تھا جہاں کئی گھر تھے۔ ان میں ایک گھر نوشیر خان کا تھا۔ وہ مزدوری کے لیے دوسرے گاؤں گئے ہوئے تھے

گھر پر ان کی بیوی، والدہ اور بیٹیاں موجود تھیں۔ سیلاب کا شور سن کر انھوں نے بھی گھر سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ایک بچی معذور تھی۔ اس کو بچانے اور گھر سے نکالنے میں دیر لگی۔ تب تک پانی پہنچ گیا

نوشیر خان کی صرف ایک بیٹی بچ پائی۔ ان کے خاندان کے آٹھ افراد کو پانی اور پتھر ان کے گھر سمیت بہا کر لے گئے۔ ان کی صرف ایک دکان کی عمارت کھڑی ہے

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ سیلاب کا پانی صرف آدھے گھنٹے کے اندر ان کے گاؤں سے گزر کر نیچے دریا میں شامل ہو گیا۔ لیکن اس پانی کی سطح کئی فٹ تک بلند تھی۔ جس نے بھی اسے دیکھا وہ کہتا ہے یہ ایک خوفناک منظر تھا

‘سیلاب نے انھیں نکلنے کی مہلت نہیں دی’

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بوبور کے لوگ اب تک سمجھ نہیں پائے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ یوں لگتا ہے وہ اب تک ہمت جمع کر رہے ہیں اپنے گھروں کو دوبارہ بنانے کی اور اس خوفناک منظر کو بھلانے کی۔ مگر واضح طور پر کئی لوگوں کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے

شیر وزیر انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ اس روز اپنے والد کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرنے کے بعد گھر سے نکل کر کچھ دور ہی گئے تھے جب سیلاب آیا۔ ان کے 80 سالہ والد خود کو بچانے کے لیے گھر سے باہر نہیں بھاگ پائے

اس واقعے کو لگ بھگ دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے۔ شیر وزیر کے خیال میں ان کے والد کی لاش لگ بھگ چھ فٹ اونچے ملبے تلے دبی ہے۔ کئی روز تک مشین کی مدد سے ملبہ کا کچھ حصہ ہٹانے کے بعد بھی وہ اپنے والد تک نہیں پہنچ سکے

’مجھے یقین ہے کہ وہ ادھر ہی نیچے ہیں۔ سیلاب نے انھیں نکلنے کی مہلت نہیں دی۔‘ شیر وزیر کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور ایسا لگتا تھا انھیں زیادہ پرواہ نہیں تھی کہ ان کی قمیض کے تمام بٹن کھلے ہوئے تھے

ان کے قریب ایک ٹریکٹر ٹرالی آ کر رکی اور انھوں نے ایک مزدور کی مدد سے اپنے گھر کے ملبے سے نکلنے والی لکڑیاں اس میں رکھنی شروع کر دیں۔ ان کے گھر کے ایک کمرے کی چھت پر بنے روشن دان کے سوراخ سے چھت سے لٹکا پنکھا نظر آ رہا تھا۔ باقی کمرہ مٹی اور ملبے سے بھرا تھا

جو ہوا، وہ کیوں ہوا؟

بوبور کے لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا تھا۔ ان کے پاس اس کی توجیہات بھی موجود تھیں۔ کچھ کا خیال تھا کہ اوپر پہاڑ میں ایک گلیشیئر موجود تھا جو نظروں سے اوجھل تھا

مسلسل بارش ہونے کی وجہ سے وہ گلیشیئر پھٹ گیا۔ محمد نظیر نے مجھے بتایا کہ سیلاب آنے کے بعد گاؤں کے کچھ نوجوان یہ دیکھنے پہاڑ پر گئے تھے کہ سیلاب کہاں سے آیا۔ ‘انھوں نے دیکھا کہ وہاں ایک گلیشیئر پھٹا ہوا تھا۔’

کچھ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ گلیشیئر کیسے پھٹ سکتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ سیلاب پہاڑ پر آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے آیا۔ لیکن اتنے زیادہ پتھر وہ کیسے ساتھ لے کر آیا۔ کیا یہ گلیشیئر کے سیلاب کی ایک نشانی ہو سکتی تھی؟

انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس مرتبہ ان کے گاؤں میں اتنی زیادہ بارش کیوں ہوئی؟ وہ ان سوالوں کے جواب جاننا چاہتے ہیں۔ اور شاید خوفزدہ ہیں کہ اگر آنے والے سالوں میں بھی ایسا ہوتا رہا تو کیا ہوگا

ہم نے وہاں سے آگے درکوت کی طرف جانا تھے اس لیے بابور میں کچھ گھنٹے گزارنے کے بعد درکوت کی طرف بڑھ گئے

درکوت میں پہنچ کر ہم آپ کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ بوبور میں جو ہوا اگر وہ گلیشیئر کا سیلاب تھا تو یہ کیا ہوتا ہے اور اتنا خطرناک کیوں ہے۔ کیا صرف پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں ہی کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے یا نیچے میدانوں میں بسنے والوں کو بھی فکرمند ہونا چاہیے۔

رپورٹ: عمر دراز ننگیانہ
بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close