ایران: سابق صدر رفسنجانی کی بیٹی گرفتار، ایران کا عراقی کردستان پر حملہ

ویب ڈیسک

ایران میں سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کو مظاہرین کو ’ہنگاموں پر اُکسانے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے

دوسری جانب کرد حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے ڈرون حملوں میں کرد ایرانی مخالف گروپ کے تیرہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب کردخاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے خلاف ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں

بائیس سالہ مہسا امینی نامی کرد خاتون تقریباً دو ہفتے قبل پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ ان کو تہران میں درست طور پر حجاب نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔
مہسا امینی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ اخلاقی پولیس نے ان پر بدترین تشدد کیا اور سر پر چوٹ لگنے کے باعث وہ دم توڑ گئیں

واقعے کے بعد حکومت کے خلاف ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے

فائزہ ہاشمی کی گرفتاری

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی ویب سائٹ ریڈیو فردا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری سے قبل فائزہ ہاشمی نے بتایا تھا کہ ایرانی حکومت احتجاج کرنے والوں کو دبانے کے لیے انہیں ’فسادی‘ اور ’باغی‘ قرار دے رہی ہے

خیال رہے کہ ایران میں پولیس حراست کے دوران مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ملک گیر مظاہرے جاری ہیں۔
ریڈیو فردا نے کہا ہے کہ ان کے پاس فائزہ ہاشمی کے بیان کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں ”حکام کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ فساد ہے؟ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں“

ان کا مزید کہنا تھا ”جنہوں نے احتجاج دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی نوجوان نے کچرے کو آگ لگائی تو اس کی وجہ آنسو گیس کا اثر کم کرنا تھا۔۔ اگر لوگ پولیس اہلکاروں کو مار رہے تھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور دفاع میں وہ ایسا کر رہے تھے“

دوسری جانب ایران میں مہسا امینی کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد احتجاج کی لہر کے اثرات افغانستان میں بھی دیکھے گئے، جہاں ایران میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت میں خواتین نے ریلی نکالی، جسے منتشر کرنے کے لیے طالبان فورسز نے ہوائی فائرنگ کی

خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران میں استعمال ہونے والے نعرے ’عورت، زندگی، آزادی‘ کو دہراتے ہوئے تقریباً پچیس افغان خواتین نے کابل میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا

خواتین مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر ’ایران ابھر گیا، اب ہماری باری ہے‘ اور ’کابل سے ایران تک، آمریت نامنظور‘ تحریر تھا

عراقی کردستان پر ایران کا ڈرون حملہ

عراقی کردستان کی انسداد دہشت گردی سروس نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ایران نے عراقی کردستان کے علاقے میں ایک مخالف گروپ کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا، جس میں 13 افراد ہلاک اور 58 دیگر زخمی ہو گئے

ایرانی گروپ کے خلاف یہ حملے تقریباً دو ہفتے قبل ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں جاری شورش کے درمیان ہوئے ہیں

سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے کہا کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے ”درست نشانہ لگانے والے میزائل” اور ”خودکش ڈرونز” کا استعمال کیا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ عراق کے شمال سے باہر سرگرم کرد علیحدگی پسند گروپ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے تھے

بائیں بازو کی مسلح حزب اختلاف، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران (کے ڈی پی آئی) نے اس حملے کی مذمت کی ہے

کے ڈی پی آئی نے کہا کہ ”یہ بزدلانہ حملے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران کی دہشت گرد حکومت اندرون ملک جاری مظاہروں کو کچلنے اور کرد اور ایرانی عوام کی شہری مزاحمت کو خاموش کرنے سے قاصر ہے۔”

کے ڈی پی آئی کے ایک رکن کے مطابق، حملے میں اربیل سے تقریباً 65 کلومیٹر مشرق میں واقع کویا میں ہوئے

ایرانی پاسداران انقلاب نے حملوں کے بعد کہا کہ وہ خطے میں ‘دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنانا جاری رکھیں گے

عراق کی وفاقی حکومت اور علاقائی کرد حکومت نے بھی حملوں کی مذمت کی ہے

عراق کی وفاقی حکومت نے ہلاکت خیز حملوں پر احتجاج کے لیے ایرانی سفیر کو طلب کیا، جب کہ عراق میں اقوام متحدہ کے مشن نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "راکٹ ڈپلومیسی تباہ کن نتائج کے ساتھ ایک لاپرواہ عمل ہے۔” اقوام متحدہ کے مشن نے ٹوئٹ کیا کہ "ان حملوں کو فوری طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے۔”

ایران میں کیا ہو رہا ہے؟

حزب اختلاف کے میڈیا نے بتایا کہ ایران میں خواتین کی قیادت میں مظاہرے منگل کو مسلسل بارہویں رات بھی جاری رہے

امینی کی موت کے خلاف جاری پرتشدد مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس نے 1200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا

پولیس نے متنبہ کیا کہ وہ ”اپنی پوری طاقت کے ساتھ” مظاہرین کا مقابلہ کریں گے

دوسری جانب ایرانی حکام نے مظاہروں اور جلسوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ اپنے کریک ڈاؤن کی فوٹیج کو گردش کرنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر دیا ہے

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بدھ کے روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”مہسا امینی کی موت نے ہم سب کو دکھ پہنچایا ہے۔” سخت گیر رہنما نے وعدہ کیا کہ نوجوان خاتون کی موت کی فرانزک رپورٹ جلد ہی جاری کی جائے گی

صدر رئیسی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فسادات اور تشدد ناقابل قبول ہیں اور یہ کہ پولیس ملک کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ”کسی کو افراتفری پھیلا کرعوام کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔”

ادہر نوبل امن انعام یافتہ اور ایرانی سیاسی کارکن شیریں عبادی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانیوں کی حمایت کے لیے مزید کام کریں

شیریں عبادی نے کہا ”وہ صرف باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں الفاظ نہیں چاہئے، ہم عمل چاہتے ہیں۔ جب تک جبر ہے، انہیں ایران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانا چاہیے۔ اور براہ کرام لوگوں کے قتل میں ملوث قصورواروں کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں شامل کریں۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close