ضرروت سے زیادہ پریشان ہونا اور سوچنا دراصل انسان کو ایک تشویش ناک کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ان کیفیات کے باعث سب سے پہلے انسان بے آرامی کا شکار ہوتا اور پھر وہ ذہنی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے
زیادہ سوچ و بچار (ruminating) اور پریشان کن خیالات دراصل سوچ کا ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے، جس میں منفی خیالات حاوی ہوتے ہیں اور انسان کسی معاملے کے صرف برے پہلوؤں پر ہی بے جا غور و فکر شروع کر دیتا ہے حالانکہ ابھی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہوتا
اگر انسان اپنی سوچوں کو قابو میں نہیں کرتا تو وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔ سوچوں اور خیالات پر کنٹرول دراصل پرسکون زندگی کا ایک اہم کلیہ قرار دیا جاتا ہے
ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد دراصل وہموں کے غلبے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی چھوٹی سی بات یا سوچ انہیں انتہائی حدود پر لے جا سکتی ہے۔ کسی واقعے کو اگر خیالی طور پر طول دیتے ہوئے صرف تصورات میں اس سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیا جائے تو انسان کی معمول کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے
ہمارے اطراف یا ہم پر براہ راست اثر انداز ہونے والے واقعات ہمیشہ ویسے رونما نہیں ہوتے، جیسا کبھی کبھار ہمارا تخیل نتائج اخذ کر لیتا ہے۔ بے جا اور زیادہ سوچنے والے افراد پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ ان کا حقیقی دنیا سے رابطہ ہی منقطع ہو جاتا ہے
بنیادی طور پر ہر انسان اپنی زندگی میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والے امکانات کو ضرور سوچتا ہے۔ کچھ لوگ البتہ ان امکانات کو ہی حقیقت سمجھ کر ایک خاص انداز میں ردعمل بھی ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ وہ انہی امکانات میں ہی خود کو قید کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کی پٹری سے اتر کر واپس حقیقی دنیا میں لوٹنے میں ناکام ہو جاتے ہیں
انسان کی اندرونی خود کلامی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک سوچ و بچار پر مبنی ہے اور دوسرا پریشان کرنے والا ہے۔ ماہر نفسیات سوزن نولن ہوئکسما کے بقول سوچ و بچار (Ruminating) کے مرحلے میں ایک ہی بات بار بار سوچی جاتی ہے۔ یوں انسان سوچ و بچار کے اس عمل میں جنونی ہو جاتا ہے۔ وہ ماضی کے کسی واقعے کو ایک خاص انداز میں ذہن میں دہراتا ہی چلا جاتا ہے
سوچ و بچار
اس عمل میں عمومی طور پر افسوس، خود کو الزام دینا اور خود سے نفرت کی کیفیات واضح ہوتی ہیں۔ اس طرح کی انتہائی سوچ وبچار دراصل ڈپریشن، بے چینی (انگزائٹی) اور معدے کی خرابی کی شکایت کا آغاز ہوتی ہیں
اس طرح کی کیفیات کا شکار لوگ ہر واقعے اور اس سے جڑے پہلوؤں کا بہت زیادہ اور غیر ضروری تجزیہ کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی رشتے کے ٹوٹنے کے بعد کچھ لوگ اکثر خود کو موردالزام ٹھہرانے لگتے ہیں۔ یوں وہ خود کو الزام دیتے ہیں اور خود سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ پارٹنر سے علیحدگی کی ایک مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے
مجھے صبر و تحمل کا زیادہ مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور زیادہ مددگار ثابت ہونا چاہیے تھا
مجھے صبر و تحمل کا زیادہ مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور زیادہ مدد گار ثابت ہونا چاہیے تھا
وہ درج بالا جملہ دہراتے رہتے ہیں اور کچھ یوں سوچتے ہیں:
میں نے اپنی زندگی کا بہترین ساتھی کھو دیا ہے
اب مجھے کوئی محبت نہیں کرے گا
پریشان ہونا
پریشانی دراصل مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس عمل میں منفی خیالات حاوی ہوتے ہیں اور برے نتائج ذہن کو جکڑ لیتے ہیں۔ مثال کے طور:
وہ مجھے انٹرویو میں پسند نہیں کریں گے، مجھے یہ ملازمت نہیں مل سکے گی
مجھے انٹرویو کا کوئی جواب نہیں ملا ہے، میں کب تک بے روزگار رہوں گا؟
اس طرح کے خیالات انسان کی توانائی پی جاتے ہیں اور وہ ایک پریشان کن حالت میں چلا جاتا ہے۔ اسٹریس میں یہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب یہ کیفیت مستقل طاری ہو جائے تو انسان کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتا
زیادہ سوچنے کے عمل پر قابو کیسے پایا جائے؟
جرمن شہر بون کے سائیکوتھراپیسٹ روبین برگر کے بقول کئی ایسے اقدامات ہیں، جن کی مدد سے کوئی بھی شخص غیر ضرروی سوچ و بچار اور پریشانی پر قابو پا سکتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ جب کسی پر یہ کیفیت طاری ہو تو وہ با آواز بلند کہے کہ ‘اسٹاپ‘، ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ طریقہ اس وقت زیادہ مؤثر ہوتا ہے جب اونچی آواز میں کہا جائے کہ ‘اسٹاپ‘ یہ حقیقت نہیں ہے
روبین برگر تجویز کرتے ہیں کہ ایسی کیفیات کا شکار لوگ کلائی میں ربر کا بینڈ پہن لیں اور اسے یاد دہانی کے ایک آلے کے طور پر دیکھیں۔ جب بھی ان پر ایسی کیفیت طاری ہونے لگے تو وہ اس بینڈ کو ‘اسٹاپ‘ کہنے کے لیے بطور یاددہانی استعمال کریں
اس ماہر نفیسات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘اسٹاپ‘ سائن بھی اس پریکٹس میں بہت زیادہ مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ بصری اشارہ ان کی سوچ اور تخیل میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے
اس پریکٹس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کسی پریشان کن سوچ میں جانے لگے تو وہ کس طرح اس میں ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔ روبین برگر کے بقول بس سوچ کا وہ دھاگہ توڑنا ہوتا ہے، جو کسی شخص کو مایوسی اور پریشانی کے سمندر میں لے جاتا ہے
روبین برگ کہتے ہیں کہ اس طریقے کو کارآمد بنانے کے لیے مشق ضروری ہے اور کچھ ہفتوں کی ریاضت کے بعد انسان اس طرح کی الجھی ہوئی فکر مند سوچ کی گتھیوں کو سلجھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے
خیالات تو صرف خیالات ہی ہوتے ہیں
منفی خیالات سے چھٹکارا پانے کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ سوچا جائے کہ خیالات حقیقت نہیں ہوتے بلکہ یہ صرف امکانات ہی ہیں۔ برگر کے بقول جب سوچا جائے تو یہ بھی ذہن میں ہونا چاہیے کہ کیا یہ حقیقت ہے؟ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ کیا برا ہو سکتا ہے؟
پرواز سے خوف ایک مثال ہے، جس میں پرکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح غیر حقیقی خوف سچ بن جاتے ہیں۔ حالانکہ ہوائی جہاز کو ایک محفوظ ترین سفر قرار دیا جاتا ہے
دھیان بٹانا
سائیکو تھراپیسٹ برگر کے مطابق بے جا فکر اور پریشانی سے بچنے کا ایک طریقہ دھیان بٹانا (Mindfulness) بھی ہو سکتا ہے۔ اس طریقے میں کسی تجربے پر توجہ دی جاتی ہے نہ کہ اس سے جڑے امکانات پر۔ جیسا کہ کسی واقعے کے نتیجے پر کوئی واحد حتمی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے سوچا چائے کہ نتیجہ مثبت بھی ہو سکتا ہے
برگر کہتے ہیں کہ آگے کا سوچنے کے بجائے موجودہ تجربے یا واقعے پر توجہ مرکوز کرنے سے مستقبل کے ممکنہ منفی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ متعدد اسٹڈیز بتاتی ہیں کہ دھیان بٹانا برے خیالات اور پریشانی سے بچنے کا ایک اہم طریقہ ہے
خوش رہنے کی کوشش
جنونی یا پریشان سوچوں میں گھرے لوگ اکثر اوقات اس قابل نہیں ہو سکتے کہ وہ دھیان بٹاتے ہوئے منفی خیالوں کو آسانی سے ذہن سے نکال سکیں۔ چونکہ وہ ایک خودساختہ حقیقت میں قید ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنی پریشانیوں، فکروں اور منفی خیالات کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ یوں وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے قریب رہنے والوں کی زندگیوں کو بھی مشکل میں ڈال دیتے ہیں
ایسے لوگوں کی زندگی میں شکوک و شبہات اور فکریں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ وہ خوش رہنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کے حالات ایسے ہے ہی نہیں کہ وہ سکون کر سکیں۔ تاہم حقیقت سے سے برعکس ہوتی ہے
فلوریڈا یونیورسٹی سے وابستہ سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ایڈورڈ سیلبی کا کہنا ہے کہ سوچوں اور فکروں پر قابو پا کر لوگ حقیقی دنیا میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے البتہ کہا کہ ایسی کئی مطالعے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ان منفی رویوں سے جان چھڑانے کی خاطر ایسے رویوں کی طرف بھی مائل ہو سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا
ڈاکٹر سلیبی کے بقول ان میں زیادہ کھانا اور منشیات کا استعمال بھی شامل ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جنونی سوچوں سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے معمول کی زندگی بسر کرنا ممکن ہے۔ اس کے لیے وہ کہتے ہیں کہ ایسی عادتیں اپنائی جائیں، جو جسمانی اور ذہنی طور پر فائدہ مند ہوتی ہیں
ڈاکٹر سلیبی کا اصرار ہے کہ میوزک سننا، کتابیں پڑھنا، ورزش کرنا، دوستوں سے گفتگو (مشکلات کے بارے میں نہیں)، فلمیں دیکھنا اور مراقبہ کرنا ایسی سوچوں سے آزادی فراہم کر سکتا ہے
سوچ کا زاویہ بدلنے کی کوشش
جس انداز میں کوئی شخص ایک خاص صورتحال کا ادارک کرتا ہے، وہ اس کے جذباتی اور جسمانی رویوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کوئی واقعہ بذات خود کوئی اثر نہیں رکھتا بلکہ انسان جس طرح اس کو سمجھتا اور محسوس کرتا ہے، ساری اہمیت اسی کی ہے
سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اہمیت اس تجزیے کی ہے، جو انسان کرتا ہے۔ یعنی سوچنے، توقعات اور خدشات پر منحصر ہے کہ انسان کسی ایک ہی واقعے پر کیسا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہی کلاس کے دو اسٹوڈنٹس کسی امتحان میں ایک جیسے نمبر حاصل کرتے ہیں لیکن ایک خوش ہو جاتا ہے اور دوسرا مایوس
نمبرز تو ایک جیسے ہی ہیں لیکن وہ کیا احساس تھا، جس نے ایک کو اداس کیا اور دوسرے کو خوش؟ وہ توقعات اور امیدیں اور خدشات ہی ہیں جو ردعمل تخلیق کرتے ہیں۔ اس کیس میں ایک اسٹوڈنٹ فیل ہونے کا سوچ رہا تھا جبکہ دوسرا ٹاپ کرنے کا
یوں جو فیل ہونے کا سوچ رہا تھا، وہ خوش ہو گیا اور جو ٹاپ کرنے کا سوچ رہا تھا، وہ اداس۔ یعنی کیفیات اور انسانی ردعمل کا انحصار کسی واقعے کے نتیجے پر نہیں ہے بلکہ اندورنی کیفیات اور سوچوں سے ہے
انسان کو پریشان کن خیالات، بے جا سوچ و بچار اور بہت زیادہ سوچنے سے بچنا چاہیے۔ یہ وہ طریقہ ہے، جس سے کوئی بھی شخص ایک پرسکون زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکتا ہے
اگر کوئی شخص سنجیدہ قسم کے جذباتی دباؤ کا شکار ہے اور خودکشی کے بارے میں بھی سوچنے لگا ہے تو اسے فوری طور پر طبی مدد حاصل کرنا چاہیے۔ ایسے طریقے ہیں، جو ان فکروں سے آزادی دے سکتے ہیں، صرف ارادہ کرنے کی ضرورت ہے
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو