
علی داد گوٹھ، پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں ہوا کبھی پاکیزگی کی قسم کھاتی تھی۔ بارش کے بعد جب ندیاں بہتی تھیں، تو زمین کی خوشبو سانسوں میں سمٹ جاتی تھی، گویا کہیں ماں نے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔ یہ ندیاں موسمی تھیں چند مہینوں کے لیے آتی تھیں، مگر ان کی موجودگی میں زندگی نہ رکتی، بلکہ کھل اٹھتی تھی۔ بچے ان کے کنارے کھیلتے، عورتیں کپڑے دھوتیں، چرواہے مویشی چراتے، اور بزرگ کنارے بیٹھ کر خدا کو یاد کرتے۔
سائیں ڈنوں، گوٹھ کا بزرگ، اکثر کہتا، "پہلے یہ ندیاں بہنوں کی طرح تھیں۔ ہمیں سینچتی تھیں، جگاتی تھیں، اب ان کی فقط قبریں رہ گئی ہیں۔” اور حقیقت بھی یہی تھی۔ وہ ندیاں اب خشک ہو چکی تھیں۔ اور جو اب ان کے اوپر پھیلا تھا، وہ ماربل ویو سوسائٹی تھی ،پہاڑوں کو تراش کر بنائی گئی وہ بستیاں جنہیں شہر کے لوگ خوابوں کی جنت کہتے تھے۔ ان کے اشتہاروں میں بادل پہاڑوں کو چومتے دکھائی دیتے تھے، مگر درحقیقت وہی پہاڑ ان ندیوں کے محافظ تھے، جنہیں ماربل ویو کے بلڈوزر نگل چکے تھے۔
گوٹھ سے دو سو میٹر کی دوری پر اب ایک بلند دیوار کھڑی تھی۔ فلک شیر، جو کبھی پہاڑی ندیوں کے کنارے مویشی چراتا تھا، اب اسی دیوار کا مزدور تھا۔ وہی ہاتھ جن سے گوٹھ سے شہر کی حد بندی ہوئی، وہی ہاتھ دیوار کی آخری اینٹ رکھ کر محسوس کر رہے تھے جیسے اپنے ہی گلے پر مٹی کا پھندا کس رہا ہو۔
اب جو پانی ندیوں میں اترتا، وہ بارش کا صاف پانی نہ تھا بلکہ ایک زہریلا سیال تھا۔ سوسائٹی کے ٹرک گوٹھ کے ساتھ بہنے والی خشک ندی میں اپنا کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، باسی کھانے، جانوروں کی ہڈیاں، پلاسٹک، کپڑے، اور کیمیکل، سب کچھ وہیں ڈال دیا جاتا۔ مون سون میں پہاڑوں سے پانی اس ندی کے ذریعے بہتی تھی جو پوری علاقے کو سیریاب کرتی تھی، پہاڑوں کی کٹائی کی وجہ سے اس ندی کا قتل ہو گیا جس میں اب ماربل سٹی کی گٹر بہہ رہی ہے،
گوٹھ کے بچے اب تتلیاں نہیں پکڑتے ہے، بلکہ بیماریاں سونگھتے تھے۔ ہر صبح اسکول کے دروازے پر گدھ بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے کسی خاموش ماتم کے پہرے دار۔ شکر بی بی کے بچے اکثر رومال سے منہ چھپا کر اسکول جاتے۔ سانول کا چھوٹا بیٹا ایک دن بارش کے بعد باہر نکلا اور بولا،
"ابو، یہ بارش پہلے والی خوشبو کیوں نہیں لاتی؟”
سانول کچھ نہ کہہ سکا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ خوشبو اب بدبو میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اور یہ بدبو صرف ندیوں سے نہیں، بلکہ لوگوں کے دلوں اور زمین کی مایوسی سے اٹھ رہی ہیں، پودوں کی گھٹن سے، آسمان کی خاموشی سے۔ملک بی بی کی بیٹی بارش کے دنوں میں سانس لینے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا:
"یہ الرجی نہیں، آلودگی ہے، یہ وہ بدبو ہے جو پھپھڑوں کے اندر بیٹھ گئی ہے۔”
پہلے بارش گوٹھ کی خوشبو تھی، اب گوٹھ کی نحوست بن چکی ہے۔ بچے بارش کے بعد چھت پر نہیں کھیلتے ، بلکہ کمرے میں دروازہ بند کر کے خوفزدہ بیٹھے رہتے ہیں۔ گوٹھ کے لوگ خاموش، سہمے اور بکھرے ہوئے ہیں۔ مگر شاہ بی بی، جو پہلی بار شہر سے پڑھ کر لوٹی تھی، خاموش نہ رہ سکی۔ اس نے ماربل ویو کی انتظامیہ کو خط لکھا، ایک درخواست، ایک فریاد۔ اس خط پر گوٹھ کے تقریباً ہر فرد کے انگوٹھے کے نشان تھے۔ جو لکھنا نہیں جانتے تھے، وہ اپنے دستخط مٹی سے بناتے تھے۔ یہ دھبے صرف سیاہی کے نہیں، انسانوں کی سانسوں کی درخواستیں تھیں۔ خط میں لکھا تھا،
"ہماری ندیاں واپس دو۔
ہماری سانسیں آزاد کرو۔
کوڑا کہیں اور پھینکو۔
ہم انسان ہیں، کوڑا داں نہیں۔”
انتظامیہ نے خاموشی اختیار کی۔ بس دو کوڑا اٹھانے والے بدلے، اور کہا گیا، "ہم ایک نئے ری سائیکلنگ کے نظام پر کام کر رہے ہیں۔” مگر وہ نظام نہ آیا، صرف بدبو آئی، وہ بھی گہری ہوتی گئی۔سائیں ڈنوں اب چپ بیٹھتا ہے، مٹی اٹھاتا ہے، اسے سونگھتا ہے اور کہتا ہے، "یہ مٹی اب مٹی نہیں رہی… یہ کسی کی سانس کی قبر ہے۔”علی داد گوٹھ کے آسمان پر گدھ منڈلاتے ہیں، بچے سانس روک کر اسکول جاتے ہیں، بارش کے بعد درختوں پر سرسبزی نہیں، بلکہ سڑن ہوتی ہے۔ ماربل ویو کے مکین اپنی بالکونیوں میں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں، مگر انہیں معلوم نہیں کہ ان کے خواب کسی اور کے پھیپھڑوں کی قیمت پر سنور رہے ہیں۔ندیاں ختم ہو چکی ہیں، بس بدبو باقی رہ گئی ہے۔ اور ایک گوٹھ جو زندہ تو ہے، مگر روز بروز تھوڑا تھوڑا مر رہا ہے۔…۔۔




