ایران میں تقریباً تین ہفتے سے جاری احتجاج کی لہر پاکستان سے متصل صوبوں تک پہنچ گئی ہے، جس کے بعد زاہدان میں پاک، ایران سرحد عارضی طور پر بند کر دینے کی خبریں ہیں۔ پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی ہے
اوسلو سے سرگرم انٹرنیشنل ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ ایران کی سکیورٹی فورسز نے صوبہ سیستان، بلوچستان کے شہر زاہدان میں ہونے والی ’جھڑپوں‘ میں 41 افراد کو ہلاک کر دیا ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئی ایچ آر نے ایرانی سکیورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ وہ زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو خون ریزی کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہیں
مولوی عبدالحامد نے ویب سائٹ پر بیان میں بتایا کہ صوبے میں ایک پولیس افسر کی جانب سے ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ ریپ سے بلوچ کمیونٹی میں اشتعال پیدا ہوا
آئی ایچ آر کا کہنا ہے کہ سیستان بلوچستان کے شہر چاہ بہار میں پولیس سربراہ کی جانب سے پندرہ سالہ بلوچ لڑکی کا ریپ کے بعد مظاہرے شروع ہوئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والے شہریوں پر بہیمانہ تشدد کیا
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت کی تصدیق علاقائی این جی او ’بلوچ ایکٹوسٹ کمپین‘ (بی اے سی) نے کی
زاہدان میں مقیم ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر میں واقع عید گاہ میں نماز جمعہ کے خطبے کے دوران خطیب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی اہلکار نے چاہ بہار میں ایک بلوچ لڑکی کا ریپ کیا ہے
ان کے مطابق خطیب نے کہا کہ یہ اقدام بلوچ قوم کی ناموس پر حملہ ہے لہٰذا عوام اس پر پرامن احتجاج کریں، جس پر نماز کے بعد لوگ احتجاج کرنے لگے
انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران مظاہرین مقامی تھانے کی طرف گئے اور ذمہ دار پولیس افسر کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کیا، جس پر ایرانی فورسز نے فائرنگ کی اور چالیس بلوچ طلبہ ہلاک ہو گئے
ان کا دعویٰ تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد ہو سکتی ہے
دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ پرتشدد واقعات میں پاسداران انقلاب کے پانچ اہلکار مارے گئے، جسے ایرانی سرکاری میڈیا ’دہشت گردی‘ قرار دے رہا ہے
سیستان بلوچستان میں سُنی بلوچ اکثریتی آبادی رہتی ہے اور یہ پاکستان کے صوبے بلوچستان سے متصل ہے
پاکستان اور ایران کے درمیان یہاں سے تفتان، کیچ، پنجگور، گوادر کے سرحدی دروازے موجود ہیں
اوسلو میں قائم ایران کی انسانی حقوق تنظیم (آئی ایچ آر) نے بتایا کہ ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں جمعے کو ہوئی جھڑپوں میں مزید 41 افراد ہلاک ہو گئے، مزید کہا گیا کہ خطے کے پولیس سربراہ پر بلوچ اقلیت کی لڑکی کے ریپ کے الزامات نے بھی مظاہروں کو ہوا دی ہے
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے بعد حکام نے پاکستان سے ملحق تفتان میں سرحد بند کر دی ہے
پاکستان کی وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ذرائع کے مطابق ایران کی طرف کے حصے میں زیرو پوائنٹ پر امیگریشن اور ٹرانزٹ گیٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں سرحد کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی ہے
سرحد پر موجود پاکستانی سکیورٹی حکام کے مطابق ایران نے پاکستان سے آنے والوں کے لیے امیگریشن سروس بند کر دی ہے۔ تاہم ایران سے لوگوں کی معمول کی نقل و حرکت جاری ہے
کمشنر رخشان ڈویژن سیف اللہ کھیتران کا کہنا ہے کہ تفتان اور دوسرے سرحدی علاقوں میں ایران سے لوگوں کے انخلا کی کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں
ضلع چاغی کے علاقے تفتان میں سرحد کی نگرانی کے ذمہ دار حکام نے بتایا کہ ایرانی حکام نے موجودہ صورت حال میں امیگریشن کا سلسلہ بند کردیا ہے جس کی وجہ سے ایران سے لوگوں کو آنے کی اجازت ہے لیکن پاکستان سے کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جا رہا
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا
ضلع چاغی میں دالبندین کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ان کی فیملی کے بہت سے لوگ سیستان اور زاہدان میں رہائش پذیر ہیں۔ جن کے حوالے سے انہیں کسی قسم کی اطلاع موصول نہیں ہورہی ہے
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بدامنی کی لہر اور فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی اطلاعات مزید پریشان کر رہی ہیں۔ اس سے قبل ایک دو روز کے بعد فیملی کے افراد سے رابطہ ہوجاتا تھا لیکن جمعے کے بعد سےاب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا
انہوں نے بتایا کہ سرحدی علاقوں کے لوگوں کو اس سے قبل راہداری کے ذریعے ایران جانے کی اجازت تھی لیکن وہ بھی کرونا کی وبا کے باعث بند ہے۔ جبکہ اکثر لوگ ویزا کے ذریعے جانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں
ایرانی سرحد سے متصل نوکنڈی کے رہائشی، جن کے رشتہ دار ایرانی بلوچستان کے علاقے زاہدان میں مقیم ہیں، وہ ان کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں
انہوں نے بتایا کہ ایران میں جاری بدامنی کا معاملہ کئی ہفتوں سے چل رہا ہے تاہم جمعے کے روز جھڑپوں اور وہاں سے رابطہ ہونے پر انہیں اپنے عزیزوں کی خیریت کے حوالے سے تشویش ہے
انہوں نے بتایا کہ جب سے زاہدان میں جھڑپیں اور لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اس کے بعد نیٹ ورکس بند ہونے سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، وہاں سے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز نے انہیں پریشانی کا شکار کردیا ہے
ایرانی پولیس کے ہاتھوں مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج جاری
ایرانی پولیس کے ہاتھوں مہسا امینی کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج کی لہر تاحال تھم نہیں سکی ہے بلکہ اب یہ مظاہرے پڑوسی ملکوں میں بھی پھیل گئے ہیں
ایران کے دارالحکومت تہران کی ایک یونیورسٹی میں طلبہ کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئی ہیں اور اس دوران متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایران کے سرکاری میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تہران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں احتجاج کرنے والے سینکڑوں طلبہ پر سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس اور پیلٹ گنز کا استعمال کیا
رپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں نے یونیورسٹی میں پرتشدد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق طلبہ ’عورت، زندگی اور آزادی‘ اور ’بے عزتی سے موت اچھی‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ بعدازاں ملک کے وزیر سائنس یونیورسٹی پہنچے اور صورت حال کو سنبھالنے اور طلبہ کو پرسکون کرنے کی کوشش کی
اوسلو سے تعلق رکھنے والے ایران انسانی حقوق کے گروپ کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکل سوار سکیورٹی اہلکار ایک زیرزمین پارکنگ میں بھاگنے والے طلبہ کا پیچھا کر رہے ہیں
جبکہ ایک اور وڈیو میں پکڑے جانے والے طلبہ کو لے جایا جا رہا ہے جن کے چہروں کو کالے کپڑوں کے ساتھ ڈھانپا گیا ہے
ایک اور فوٹیج میں گولیاں چلنے اور لوگوں کے چیخنے کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور ایک گلی میں بڑی تعداد میں لوگ بھاگ رہے ہیں۔
ایران ہیومن رائٹس گروپ نے اتوار کی رات ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’آج رات سکیورٹی اہلکاروں نے تہران میں شریف یونیورسٹی پر حملہ کیا اور گولیاں چلنے کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔‘
اسی طرح سامنے آنے والے ایک وڈیو کلپ میں لوگوں کو یہ نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’مت ڈرو، ہم سب ساتھ ہیں۔‘
ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ یہ وڈیو تہران کے شریعتی میٹرو اسٹیشن کی ہے
مہر نیوز ایجنسی کے مطابق تشدد کے واقعات کے بعد طلبہ کے تحفظ کی غرض سے شریف یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ پیر سے تمام کلاسیں ورچوئل ہوں گی
مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ اب پڑوسی ملکوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ اتوار کے روز عراق اور ترکی میں بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ ترکی میں مظاہرین نے ایرانی پاسپورٹ پھاڑ دیے جب کہ بعض خواتین نے اپنے بال کٹوا کر مہسا امینی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا
برطانوی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ’حجاب درست انداز میں نہ پہننے‘ کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران کومہ میں جانے کے بعد وہ 16 ستمبر کو انتقال کر گئی تھیں، جس کے نتیجے میں ایران میں تقریباً تین برسوں کی بدامنی کی سب سے بڑی لہر سامنے آئی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہفتے کو دنیا بھر کے ڈیڑھ سو شہروں میں ایرانی خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ احتجاج مسلسل سولہویں رات بھی جاری رہا جبکہ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں نے شہروں کو ہلا کر رکھ دیا، مظاہروں کا آغاز کرد اقلیت کے اس شہر سے ہوا تھا، جہاں سے مہسا امینی کا تعلق تھا
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایرانی حکومت کے جرائم کی تحقیقات کرائے اور ایرانی مظاہرین کو قتل ہونے سے بچائیں
دوسری جانب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اتوار کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ دشمنوں کی سازش ناکام ہو چکی ہے۔ دشمن ملک کو تنہا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن وہ شکست کھا گئے ہیں۔ ان کی سازش کو کچل دیا گیا ہے۔”
صدر رئیسی نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو حکم دیا گیا ہے کہ ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کرنے والوں اور امن عامہ کے لیے خطرہ بننے والوں کو سختی سے کچل دیا جائے۔