یوسف مستی خان

محمد خان داؤد

سیاست تھر میں پانی نہ ہونے سے موروں کے مر جانے اور جنگلی پھولوں کے مُرجھانے کا نام نہیں

سیاست تھر میں معصوم بچوں کو دودھ اور خوراک نہ ملنے کا نام بھی نہیں

سیاست سندھ میں سیلاب اور پھر اس سیلاب کے نتیجے میں آنے والی امداد اور پھر وہ امداد منتخب نمائندوں اور وڈیروں میں بٹ جانے کا بھی نام نہیں

سیاست سندھ میں پاگل کتوں سے سگ گزیدہ ہو کر بچوں کے مر جانے کا نام نہیں اور سیاست ان ماؤں کے انتظار کا نام بھی نہیں،
جو اپنی میلی جھولی میں سگ گزیدہ بچے کو لیے، ویکسین کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور نہ ڈاکٹر آتا ہے اور نہ ویکسین!

پاگل کتا زندہ رہ جاتا ہے اور ماں کا بیٹا ماں کی جھولی میں ہی مر جاتا ہے۔۔ اور ماں اوپر آکاش میں خدا کو تلاشتی رہ جا تی ہے۔۔

سیاست یتیم بچیوں کے جہیز کے پیسے کھا جانے کا نا م نہیں،
سیاست تو منھ کا نوالہ دینے کا نام ہے

سیاست بیوہ عورتوں کے نام پر بہت سے شناختی کارڈ کی کاپیاں جمع کر کے سب کچھ کھا جانے کا نام نہیں،
سیاست تو بیوہ عورتوں کے سروں پہ ہاتھ رکھنے کا نام ہے

سیاست معذور افراد کو دکھا کر ان کی ویل چئیر کے پیسے کھا جانے کا نام نہیں، سیاست تو ان معذور افراد کی بیساکھی بن جانے کا نام ہے

سیاست زمین میں داخل ہو کر دلال بن جانے کا نام نہیں، سیاست تو ایمان بچانے کا نام ہے

سیاست ماں جیسی زمیں بیچ کر امیر ہو جانے کا نام نہیں، سیاست تو زمیں کی حُرمت کو قائم رکھنے کا نام ہے

سیاست ووٹ لینے اور ووٹ دینے کا نام نہیں،
سیاست تو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس یقین کا نام ہے کہ ”نیا سویرا اب دور نہیں!“

سیاست گندی جھیل کا نام نہیں، سیاست تو اس نیل کنول کا نام ہے جو گندی سی جھیل میں بھی جھول رہا ہوتا ہے

سیاست ’ووٹوں پر پیشاب کرنے‘ کا نام نہیں، سیاست تو ووٹ کے تقدس کو بچانے کا نام ہے

سیاست سب کچھ حاصل کرنے کا نام نہیں ہے، سیاست تو سب کچھ گنوانے کا نام ہے

سیاست دامن بچانے کا نام نہیں، سیاست تو جھولی پھیلانے کا نام ہے

سیاست ووٹ، نعرے، تقاریر، جلسے، جلوس، کارنر میٹنگ کا نام نہیں،
سیاست تو آگہی، حقوق، علم، شعور کا نام ہے

سیاست کوئلے کا کاروبار نہیں، سیاست دغا بازی نہیں، سیاست دوکھا فریب نہیں، سیاست چال بازی، بازی گری نہیں، سیاست دونمبری چار نمبری نہیں، سیاست تو ایمان، اور ایمان بچا کر حقوق کی بات کرنے کا نام ہے

ایسے بہت سے سیاستدان ہیں، جن کے منھ پر تاریخ نے کالک مل دی ہے۔ پر کچھ ایسے بھی نام ہیں کہ جب وہ نام لیے جاتے ہیں، تو تاریخ کا سر ادب اور احترام سے جھک جاتا ہے۔ تاریخ مؤدب ہو جاتی ہے اور بہت دیر تک ان ناموں کو محبت سے تکتی رہتی ہے۔ اگرچہ قحط الرجال کے اس دور میں ایسے نام کم ہی ہیں، پر ہیں ضرور۔۔ ایسے ہی سیاسی نام ہیں، جن کی بدولت جب بھی کوئی مغرور وڈیرہ ایسی بے ہودہ بات کرتا ہے کہ ”وہ ووٹ پر پیشاب کرتا ہے!“ تو سیکڑوں پیشاب کے آلے عضوہ ِ تناسل اس وڈیرے کے منھ کی طرف ہو جا تے ہیں اور بہت سا پیشاب اس وڈیرے کے منھ پر بہتا رہتا ہے اور تاریخ کے ہاتھوں کی دسوں انگلیاں کھل جاتی ہیں اور اس سے جو نشان بنتا ہے، وہ بھی اس وڈیرے کے منھ پر اک نیا ٹریڈ مارک بن جاتا ہے!

پر تاریخ ایسا کیوں کرتی ہے؟
اس لیے کہ اس سیاسی کوئلے کے کاروبار میں بہت کم ہی سہی پر ایسے بھی سیاسی کارکن ہیں، جو سیاسی میدان میں ہیں پر ان کے ہاتھ کالے نہیں،
وہ ایسے ہوتے ہیں کہ انہوں نے سیاست سے کچھ نہیں لیا ہوتا
بلکہ وہ سیا ست کو اپنا سب کچھ دے چکے ہوتے ہیں

پھر تاریخ بھی سمجھ جاتی ہے کہ سیاست سب کچھ لینے کا نام نہیں، پر سیاست سب کچھ دینے کا نام بھی ہے

پھر جب ایسے نام سیاسی میدانوں میں پکارے جاتے ہیں تو تاریخ کا سر ادب اور احترام سے جھک جاتا ہے اور تاریخ مؤدب ہو جاتی ہے!

انہیں میں سے ایک نام یوسف مستی خان صاحب کا بھی تھا۔۔
سیاست کی تاریخ نے یوسف مستی خان کو بہت آزمایا پر یہ جو جوانی میں سُرخ پرچم لیے چلے تھے، کل تک بھی ان کے ہاتھوں میں وہی سُرخ پرچم ہی تھا۔کیسی کیسی سیاسی تبدیلیاں آئیں۔۔ سیاسی وفاداریاں کوڑیوں کے مول بکیں، کوئی اقتدار میں آیا کسی کے حصے میں کچھ اور آیا۔۔ کوئی اسمبلی میں جا بیٹھا، کسی نے کوئی اور مسند سنبھالی۔۔ کسی کے حصے میں کوئی سیاسی گدّی آئی، کسی کے حصے میں روحانی گدّی۔۔۔ کوئی چور سے چوکیدار بن بیٹھا، کوئی چوکیدار سے چور!

سیاسی اتھل پتھل ہوئی۔۔ سیا سی ایمان جانچے گئے۔۔ جو کمزور پائے گئے وہ خرید لیے گئے، جو نہیں بکے انہیں ڈرا کر اک طرف کر دیا گیا۔۔ پرانی پارٹیاں ختم ہوئیں، پرانے پرچم لپیٹ کر رکھ دیے گئے، پرانے سیاسی سلوگن کو گالی بنا دیا گیا۔۔ پرانے لیڈروں کو نیا جال دے کر نئی پارٹیاں بنائی گئیں۔ نئے ترانے لکھے گئے، نئے سلوگن بنائے گئے ،نئے پرچم سلوائے گئے اور لیڈر بھی نیا، پارٹی بھی نئی، وفاداری بھی نئی اور خلق بھی نئی۔۔ اور سیاسی میدان بھی نیا۔ سب کچھ مٹ گیا، سب کچھ بک گیا، سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل کر دیا گیا پر جو نہیں مٹا، جو نہیں بکا، جو نہیں ہٹا، جو منظر سے پسِ منظر میں نہیں گیا، جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا پرچم نہیں چھوڑا، جس نے اپنا گیت نہیں چھوڑا، وہ یوسف مستی خان تھا!

کیسے کیسے لوگ کہاں سے چلے اور کہاں پہنچے اور اب لگتا ہے یہ یہیں پر ختم ہو جائیں گے۔۔ پر یوسف مستی خان نے اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ سیاسی کلابازی کھا کر کچھ حاصل تو کر سکتا ہے پر کل وہ تاریخ کو کیا منھ دکھائے گا؟

اور تاریخ میں بھی ہوں اور تاریخ تم بھی ہو!
آج یوسف مستی خان کا نام آجانے سے تاریخ کی نظریں احترام سے جھک جا تی ہیں۔۔ وہ تاریخ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو!

کل اگر یہ سیاسی سودہ بازی کر لیتا تو تاریخ کی نظریں نہیں جھکتیں پر تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے ”سب ایک جیسے ہیں!“ پر آج تاریخ فخر سے کہتی ہے ”سب ایک جیسے نہیں ہیں!“

آج جب سیاسی ویلوز تبدیل ہو گئے ہیں اور ٹی وی اینکر فواد چودھری سے یہ سوال کرتا ہے کہ ”آپ مشرف کے ساتھ تھے، آپ بلاول کے ترجمان تھے اور آپ آج عمران خان کے ساتھ ہیں تو ہم کیسے یقین کر لیں کہ آپ کل بھی عمران خان کے ہی ساتھ ہونگے؟“ تو وہ جو جواب دیتا ہے، تو تاریخ اپنے ہونٹوں سے مستی خان کے گال کو چوم لیتی ہے

فواد چودھری جواباً کہتا ہے: ”آپ کو کون گدھا کہتا ہے کہ میں کل بھی عمران خان کے ساتھ ہونگا؟ جناب میں رئیلسٹ ہوں!“

اور سیاست کی سَسّی یوسف خان مستی آج اس عمر میں بھی اپنے پنہوں جیسی عوام کے ساتھ کھڑا تھا۔۔ وہ رئیلسٹ نہیں، وہ تو سیاست کی سَسّی تھا
اور اسے اپنے پنہوں کی تلاش تھی۔۔
اور وہ پنہوں میں بھی ہوں اور تم بھی ہو!
کیوں کہ وہ جانتا ہے
کہ ”صبح تھیندو!“
اور اپنے عمل سے مستی خان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سیا ست سب کچھ حاصل کرنے کا نام نہیں، سیاست سب کچھ گنوا دینے کا نام ہے!

وہ یوسف خان مستی جا چکا ہے، جو سیاست کی بقا تھا،
وہ یوسف خان مستی جا چکا جو سیاست کی آبرو تھا۔۔
وہ یوسف مستی خان جا چکا ہے، جو سیاست کا یقین تھا۔
وہ یوسف مستی خان جا چکا، جو سیاست کا یوسف تھا۔۔
وہ یوسف مستی خان جا چکا، جس کی زندگی ’تنہائی کے سو سال‘ کے اس کردار جیسی گزری، جس نے کہا تھا کہ
’’بوڑھے دوست یاد رکھو“ اس نے جنرل سے کہا: ”یہ میں تمہیں گولی نہیں مار رہا، یہ انقلاب ہے جو تمہیں گولی مار رہا ہے!‘‘

آئیں اس یوسف کے لیے سلام پیش کریں، جو سیاست میں نیل کنول کی طرح جھولتا رہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close