پاکستان کے مختلف شہروں سے ملنے والی بچوں کے اغوا کی خبروں نے ملک بھر میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سماجی رابطوں کی سائٹس پر ایسی متعدد خبریں گردش کر رہی ہیں
اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی ایم پی اے رابعہ نسیم فاروقی نے پنجاب اسمبلی میں ’یہ معاملہ‘ اٹھاتے ہوئے کہا ”بچوں کے اغوا کا معاملہ فوری طور پر زیرِ بحث لایا جائے کیونکہ خبروں کے مطابق بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات کی روک تھام میں پولیس بری طرح ناکام ہوئی ہے“
لاہور میں ڈی ایچ اے کی رہائشی اسما نورین نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بچوں کے اغوا کی اطلاعات ملنے کے بعد وہ اب خوف اور پریشانی سے دوچار ہیں۔ ان افواہوں کے تناظر میں اسما نے اپنے بچوں کو اجنبیوں سے نہ ملنے اور انتہائی محتاط رہنے کو کہا ہے
اسما کہتی ہیں ”مجھے لگتا ہے کہ یہ اطلاعات درست ہیں کیونکہ میری ملازمہ نے اپنے علاقے میں ایسا کیس پکڑے جانے کی اطلاع دی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے تلہ گنگ کے علاقے میں بھی ایسی وارداتوں کے بارے میں سنا ہے‘‘
نبیلہ جمال تین بچوں کے ماں ہیں۔ انہوں نے اپنے اس خوف کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ”میرے بچے گھر سے باہر محلے میں کھیلتے تھے لیکن بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے میں نے ان کا گھر سےنکلنا بالکل بند کر دیا ہے۔۔ میں نے صرف یہ سنا ہے کہ ہمارے اردگرد کے علاقوں سے بچے اٹھائے گئے ہیں لیکن مجھ سمیت ہمارے کسی جاننے والے نے ایسا ہوتا دیکھا نہیں ہے“
وہ کہتی ہیں ”اگر ایسا نہیں بھی ہوا تب بھی ایک ماں کا ایسی خبریں سن کر کیا حال ہوگا، آپ خود سمجھ سکتے ہیں“
نبیلہ واحد ماں نہیں ہیں، جو ان خبروں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس وقت ہر دوسری ماں یہ سوال کر رہی ہے کہ کیا واقعی ہی ایسے واقعات ہو رہے ہیں؟ نبیلہ اور اسما کی طرح بچوں کے اغوا کی خبروں پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ کئی لوگوں نے کرائے کی گاڑیوں کی بجائے بچوں کو خود اسکول چھوڑنا اور واپس لانا شروع کر دیا ہے
ایسی ہی ایک ماں نے فیسبک پر پوسٹ کیا کہ میں بہت خوفزدہ ہوں، کیونکہ حال ہی میں میرے بچوں کے اسکول سے نوٹس آیا ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے کے لیے آنے والے والدین کے لیے اصول تبدیل کیے جا رہے ہیں تاکہ بچوں کی سکیورٹی یقینی بنائی جا سکے
انہوں نے مزید لکھا ”مجھے بہت وہم ہوتا ہے جب تک میرا بچہ اسکول سے واپس نہیں آ جاتا۔ عجیب عجیب خیال آتے ہیں کہ اگر میرے بچے کو کسی نے اٹھا لیا تو میں تو مر ہی جاؤں گی۔ حکومت کیوں اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی؟“
پنجاب کے مختلف شہروں میں درجنوں نجی اسکولوں کی جانب سے مبینہ طور پر بڑھتے ہوئے اغوا کے کیسز اور بچوں کی حفاظت کے حوالے سے والدین کو نوٹس اور پیغامات بھیجے گئے ہیں جو مزید خوف وہراس پھیلانے کا باعث بنے ہیں
دو بچوں کے والد محمد پرویز کا کہنا ہے ”میری بیوی ان باتوں سے اتنی ڈری ہوئی تھی کہ وہ بچوں کو اسکول سے چھٹیاں کروانے کو تیار تھی۔ جب ہر جگہ سے ایسی باتیں سامنے آتی ہیں تو جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر پہلے یہ افواہیں دیکھیں پھر ٹی وی پر بھی کچھ نیوز چینلز نے ایسی خبریں چلائیں اور پھر کچھ جاننے والوں نے بھی بتایا کہ انھوں نے ایسا سنا ہے۔ اب اگر اتنی جگہوں سے ایسی باتیں سامنے آ رہی ہوں تو ذہن میں سوالات تو اٹھتے ہیں کہ کوئی تو ایسی بات ہوگی جس کی وجہ سے یہ باتیں پھیل رہی ہیں“
سچ کیا ہے؟
پاکستان میں انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی کئی وڈیوز ، آڈیوز اور ٹیکسٹ پیغامات میں بچوں کے اغوا کی اطلاعات شئیر کی جا رہی ہیں۔ واٹس ایپ پر گردش کرنے والی ایک پرانی وڈیو میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے کراچی کے ایک علاقے میں ایک بچے کے اغوا کا منظر دکھایا گیا ہے
واٹس ایپ پر ایک آڈیو پیغام میں ایک خاتون بچوں کے اغوا کی واردات کی تفصیل بتا کر شہریوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ ایک اور پوسٹ میں فیصل آباد کے ایک علاقے میں بچے کو اغوا کرنے کے کوشش کرنے والے ایک شخص کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
جبکہ سوشل میڈیا پر باقاعدہ نفرت اور بدنیتی پر مبنی ایسی جھوٹی خبریں چھی شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سندھ کے کچے کے سیلاب زدہ علاقوں سے آنے والے جرائم پیشہ افراد ان وارداتوں میں ملوث ہیں
پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز وقاص نذیر کا کہنا تھا کہ سندھ کے سیلابی علاقوں سے آنے والے جرائم پیشہ افراد کی طرف سے پنجاب میں بچوں کو اغوا کرنے کے اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں ہے
وقاص نذیر کے مطابق اب تک کی تحقیقات کے مطابق وائرل ہونے والی وڈیوز میں بتائی جانے والی وارداتوں کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے
پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کا کہنا ہے ”بچوں کے اغوا کی خبروں کی تازہ لہر میں پہلی وڈیو گوجرانوالہ سے آئی، جہاں پر سندھ سے آئے ڈاکووں کی طرف سے بچے اغوا کرکے ان کے اعضا نکال کر فروخت کرنے کا ذکر کیا گیا۔ تفصیلی چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ یہ وڈیو بھارت کے ایک علاقے کی ہے لیکن لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والوں نے معاملہ کچھ کا کچھ بنا دیا‘‘
وقاص نذیر نے مزید بتایا کہ وائرل ہونے والی ایک اور وڈیو منڈی بہاؤالدین کی تھی، جس میں ایک خاتون بچوں کو پنسلیں دیتے ہوئے دکھائی گئی تھیں۔ (وڈیو میں انہیں ’بچے اغوا کرنے والی عورت‘ ظاہر کیا گیا تھا) وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ خاتون اپنی والدہ کے انتقال پر بیرون ملک سے آئی تھیں اور اپنے آبائی علاقے کے بچوں کے لیے اسٹیشنری کی چیزیں لائی تھیں۔ اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات ہی نہ تھی لیکن کسی راہ چلتے نوجوان نے وڈیو بنا کر بات کا بتنگڑ بنا ڈالا۔ یوں سب لوگ اس فیک نیوز کو شئیر کرنے لگے۔“
اس پولیس اہلکار نے ان جھوٹی خبروں کی تردید کرتے ہوئے مزید بتایا کہ لاہور میں ایک بھکاری خاتون کو بچوں کے اغوا میں ملوث ہونے کے شبے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں مقامی لوگوں نے اسے پہچان لیا اور گواہی دی کہ یہ خاتون تو برس ہا برس سے باقاعدگی سے اس علاقے میں آتی ہے اس کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں‘‘
دوسری جانب صدر پرائیوٹ اسکول اسوسی ایشن کاشف مرزا کا کہنا ہے ‘اب تک کوئی ایک بھی ایسا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا کہ اسکول سے یا اسکول کے باہر سے کوئی بچہ اغوا ہوا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جن اسکولوں نے ایسے پیغامات بھیجے ہیں وہ صرف خوف و ہراس پھیلانے کے مترادف ہے۔ اگر اسکول انتظامیہ والدین کو ایسا کچھ کہنا بھی چاہتی تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ والدین کو اسکول بلا کر بات کرتے، ایسے پیغامات بھیجنے سے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات اور خوف پیدا ہوتے ہیں۔‘
اغوا یا گھر سے فرار؟
ڈی آئی جی وقاص نذیر بتاتے ہیں کہ انہوں نے اغوا کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے۔ ان کے مطابق پولیس ریکارڈ کے مطابق بچوں کے اغوا کے اٹھہتر اعشاریہ آٹھ فی صد کیسز میں بچے اپنی مرضی کے ساتھ کہیں چلے جاتے ہیں اور خود سے ہی گھر واپس آ جاتے ہیں اور ان کے مقدمات کو خارج کرنا پڑتا ہے
انہوں نے بتایا کہ باقی بچ رہنے والے کیسز میں پندرہ فی صد بچے گھر سے ناراض ہونے کی وجہ سے گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ صرف پانچ سے سات فی صد کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں جرائم پیشہ لوگ ملوث ہوتے ہیں
وقاص نذیر کے بقول، ”ہمارا ریکارڈ بتاتا ہے کہ لاہور میں روزانہ بچوں کے گھر سے چلے جانے کے دو یا تین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایک سال میں بچوں کی گمشدگی یا غائب ہونے کے ایک ہزار کے قریب واقعات ہوتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال باقی پنجاب میں ہے‘‘
ایک سوال کے جواب میں وقاص نذیر کا کہنا تھا کہ اس سال لاہور میں گھر سے غائب ہو جانے والے بچوں میں سے آٹھ سو کے قریب واپس آ چکے ہیں، جبکہ ستاون کیسز کی تحقیقات جاری ہیں
لاہور پولیس کے مطابق شہر میں پچھلے 8 ماہ کے دوران 13 سال سے کم عمر بچوں کی 932 اغوا اور گمشدگی کی وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں
ڈی آئی جی انویسٹیگیشن اطہر اسماعیل کے مطابق رواں سال 687 بچوں کے اغوا کے مقدمات درج ہوئے ہیں جبکہ زیادہ تر والدین کے جھگڑوں اور گم شدہ بچوں کے واقعات پر ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ستمبر کے مہینے میں 96 بچے اغوا ہوئے
سازشی نظریات اور حقائق
وقاص نذیر کا کہنا تھا کہ بچوں کے حوالے سے جرائم کی شرح گنجان آبادی والے بڑے شہروں میں زیادہ ہے۔ دیہات میں کسی بچے کے غائب ہو جانے پر عموما وہاں کا مقامی نظام محدود علاقوں میں گھر سے بھاگ جانے والے بچے کو خود سے ہی تلاش کر لیتا ہے
یاد رہے 2017 میں بھی بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں تیزی آئی تھی۔ اس دوران بیان کی جانے والی سازشی نظریات میں پہلے ایک موبائل فون کمپنی پر الزام لگا تھا کہ وہ بچوں کی نقل و حمل کی نگرانی کرنے والی ایک سٹریپ (جسے کلائی پر باندھا جاتا تھا) کی سیل میں اضافے لے لیے ایسی خبروں کو بڑھاوا دلوا رہی ہے
انہی دنوں یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ لاہور میں پوسٹنگ کا متمنی پنجاب پولیس کا ایک اعلی افسر ایسی خبروں کے پیچھے تھا۔ نہیں معلوم کے بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی تازہ خبروں کے پیچھے اب کون اپنا کھیل کھیل رہا ہے
ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سوال کے جواب میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے ایک اعلی افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسی خبروں میں پاکستان کے ایک ہمسایہ ملک کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہت سے پاکستانی بھی زیادہ صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسی باتیں آگے بڑھا رہے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کے معاملات پنجاب پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، اس لیے ایف آئی اے ایسی فیک نیوز پھیلانے والوں کی تلاش میں ہے
اطلاعات کے مطابق عنقریب بچوں کے اغوا کی فیک خبریں گھڑنے اور پھیلانے والوں کو گرفتار کر کے عوامی آگاہی کے لیے منظر عام پر لایا جائے گا
حل کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ایسے مسائل کے حل کے لیے شہریوں، میڈیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی سب کو مل جل کر کوششیں کرنا ہوں گی ۔ ان کے مطابق عوام کو ان امور کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کو بھی یقینی بنانا ہوگا
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت میں ممبر لیگل کے طور پر خدمات سر انجام دینے والے پاکستان کے ممتاز قانون دان بابر سہیل کا کہنا ہے کہ شہریوں کے آزادی اظہار کے حق کو متاثر کیے بغیر سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ضروری قواعد و ضوابط تیار کیے جا رہے ہیں ، انہیں امید ہے کہ اس طرح فیک نیوز کے پھیلاو میں ضرور کمی آ سکے گی۔