ایک شہر، جو آبی گزرگاہوں پر تعمیر ہوا۔۔۔

عومر درویش

شہر، جو ایک گاؤں یا قصبے سے بڑھتے ہوئے اپنے عروج پر پہنچے اور پھر پیچھے اپنے زوال کی تاریخ چھوڑ گئے۔۔ یہ عظیم شہر اپنی خوبصورتی، علم اور بہترین شہری منصوبہ بندی کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ یہ شہر سیلابوں اور حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوئے اور پھر دوبارہ اپنے عروج کو پہنچ نہ سکے یا وہ عروج حاصل کر نہ سکے

آج دنیا میں ایسے کئی شہر ہیں، جن کو کئی صدیاں گزر چکی ہیں مگر آج بھی وہ اپنے آب تاب میں ہیں ۔ جو اپنی بہترین شھری منصوبہ بندی کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ شہر اگر اپنی فطری آبادی سے بڑھتے ہیں تو وہاں بہت کم مسائل جنم لیتے ہیں، مگر وہ مسائل جلد حل بھی ہوجاتے ہیں، اگر حکومتیں متحرک ہوں اور شہری انتظامیہ ٹھیک سے کام کرے

یورپی نو آبادیاتی دور میں جو شہر پھلنے پھولنے لگے اور آبادی تیزی سے بڑھنے لگی، ان شہروں میں نوآبادیاتی نظام نے بڑے پیمانے پر شہری منصوبہ بندی نہیں کی ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے یورپی نو آبادیاتی گرفت کمزور ہوئی اور ان ممالک کو آزاد کرنا پڑا۔ اس کے بعد مقامی حکومتوں کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ شہری منصوبہ بندی کی جائے، نہ ہی ریاست اور نہ منتخب حکومتوں کی ترجیحات میں شہری منصوبہ بندی کبھی شامل رہی، کہ شہری آبادی کو ایک حد تک محدود کیا جا سکتا۔ اس شھر کو پانی کی فراہمی ممکن ہو سکتی۔ خوشگوار ماحول ہوتا ، شہر کے اردگرد زرعی زمینیں ہوتیں، تاکہ ٹرک فارمنگ موثر انداز میں سرگرم ہو۔

کراچی جغرافیائی طور پر سندھ کوہستان کا حصہ ہے۔ آسان الفاظ میں کراچی میدانی علاقہ نہیں ہے، یہ کھیرتھر سلسلہ ہائے کوہ کا حصہ ہے ۔ ارضیاتی (Geological) حوالے سے دو بیسن، گڈاپ بیسن اور ملیر بیسن پر مشمتل ہے۔ مزید سمجھنے کے لیے ذیل میں دیئے گئے نقشے کو دیکھیے:

Source: https://onlinelibrary.wiley.com/doi/abs/10.1002/ird.2504

کراچی پاکستان کا سب بڑا شہر ہے اور پاکستان کا معاشی حب بھی۔۔ یہ وہ شہر ہے، جس نے بہت تیزی سے ترقی کی دوسرے معنوں میں اس کی آبادی غیر فطری طور پر بڑھی، جس کے باعث اس شہر میں کئی مسائل نے جنم لیا

ایک میٹروپولیٹن سٹی، جس کا پچھتر سالوں میں ماسٹر پلان بنا ہی نہیں۔۔ ہے نہ تعجب کی بات ۔۔۔ ؟, جو بلڈر مافیاؤں کے زیرِاثر رہا۔ یہاں جس نے جہاں چاہا، وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنادی۔ کے ڈی اے، ایم ڈی اے بھی کوئی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔ جب ایک شہر بلڈر مافیا کے زیرِ اثر ہو، کوئی پلان نہ ہو، کوئی شہری منصوبہ بندی نہ ہو، تو اس صورت میں جو کچھ ہو سکتا ہے، اس کی جیتی جاگتی مثال کراچی ہے۔

اب ذرا ذیل میں دیئے گئے نقشے پر غور کریں:

یہ گلگت بلتسان، بلوچستان یا خیبر پختون خواہ کے کسی شہر کا River Tributaries Network کا نقشہ نہیں بلکہ کراچی کا River Tributaries Network کا نقشہ ہے۔ اب اس نقشے کے مطابق کراچی کی جس طرح منصوبہ بندی کرنا چاہیے تھی، جو بدقسمتی سے نہیں ہوئی۔

جب ارضیاتی اور جغرافیائی حوالے سے کسی علاقے کا مطالعہ ہی نہ کیا جائے اور بلڈر مافیاؤں کو بے لغام اور بدمست گھوڑے کی طرح چھوڑ دیا جائے، ادارے آنکھیں بند کر کے NOC کے اوپر NOC دئے جائیں Environmental Impact Assessment صرف کورے پَنوں کا سیاہی سے پیٹ بھرنا ہی مقصود ہو۔ ندی نالوں کو مسمار کرکے وہاں سوسائیٹیز تعمیر کیے گئے۔ تو جس قدر بدترین صورتحال کا تصور ممکن ہے، وہ کراچی ہے۔

 

” کراچی کا ہر نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کا اشتہار پُر فضا ماحول،تین کمروں پر مشتمل ویسٹ اوپن سلوگن کے ساتھ ایک خوبرو جوان لڑکے اور لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔۔ لیکن سچ تو یہ ہے خریدار محض یہ تصورات ہی خریدتا ہے، کیونکہ پچھلے پچھتر سالوں میں اس پُر فضا ماحول کو یہ چھوٹی چھوٹی سوسائٹیز نگل چکی ہیں”

 

پورے شہر کا ایکوسسٹم تباہ ہو چکا ہے ۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ معتدل اور خوشگوار موسم رکھنے والا شہر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے

ذیل میں دیے گئے کچھ تصاویر اور نقشہ جات ہیں، ان کو دیکھئے اور سر دھنیے۔۔۔ جب آبی گزرگاہوں پر شہر تعمیر ہونگے تو پانی اپنا راستہ سونگتا ہوا سڑکوں پر ہی آئے گا اور گھروں اور آبادیوں میں گھسے گا۔

نیا ناظم آباد

 

بحریہ ٹائون کراچی: ان دوںوں تصاویر کا جائزا لیجیئے آبی گزرگائوں کو مسمار کر کے گھر بنائے گئے ہیں۔ ان گھروں کا مستقبل کیا ہوگا۔۔؟ قدرت ہمیشہ اپنا بدلہ لیتا ہے
تائیسر ٹائون ایم ۔ ڈی۔ اے کا پروجیکٹ

 

ڈی۔ ایچ۔ اے سٹی

نئی تعمیر ہونے والی سوسائیٹز بحریہ ٹاؤن کراچی، ڈی ایچ اے سٹی، فضائیہ سٹی، تیسر ٹاؤن ، سرجانی ٹاؤن، سعدی ٹاؤن ، نیاناظم آباد اور ایسی متعد سوسائیٹیز بھی آبی گزرگاہوں پر تعمیر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ان کا مستقبل بھی یہی ہے، جو آج کراچی شہر کا 50 ملی میٹر بارش میں ہوتا ہے۔ یہاں کا انفراسٹرکچر، سیوریج سسٹم، بارش کے پانی کی نکاسی (Drainage System) کو کراچی کے جغرافیائی ساخت کو نظر انداز کر کے تعمیر کیا گیا ہے۔ کراچی کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے، کراچی کا Horizontal Growth نہیں ہوا، کراچی ٹکڑوں ٹکڑوں میں تعمیر ہوا ہر تعمیر ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹی الگ انفرا، سیوریج سسٹم اور بغیر Drainage System کے تعمیر ہوئی ہے۔ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بارش کے پانی کا کوئی نکاسی سسٹم نہیں ہے اور یہ پورے کراچی کا مستقل مسئلہ ہے اور اس کا حل کیا ہے، کرتا دھرتا اس پر سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے

سعدی ٹائون کیوں ڈوبتا ہے ۔۔۔ ؟؟ اس نقشے میں سرخ نقطے دیکھائے گئے ہیں یہ ایک بہت بڑے برساتی ندی لٹھ کرمتانی کا گزرگاہ ہے جو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے اس ندی کے اوپر سعدی ٹائون تعمیر ہوا

موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے، جس کا ٹریلر حالیہ مون سون بارشوں میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والوں سالوں میں یہ بارشیں خطے میں مزید خطرناک صورت اختیار کریں گی۔

بحریہ ٹاؤن کراچی محض تیس منٹ کی 100 ملی میٹر بارش نہ جھیل سکا۔ گھر اور سڑکیں زیرِ آب آگئے۔ یہ اس وقت کی صورتحال ہے، جب ابھی تک بحریہ ٹاؤن کراچی میں کچھ ہی گھر بنے ہیں، جب سڑکوں اور گلیوں میں دونوں جانب گھر تعمیر ہونگے، اس کا حشر بھی وہی ہونا ہے، جو باقی کراچی کا ہے۔

بحریہ ٹائون کراچی آگست 2022

 

بحریہ ٹائون کراچی آگست 2022

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close