پاکستان اور آزادیِ صحافت: ”ملک چھوڑ دیا، لیکن پھر بھی محفوظ نہیں“

ویب ڈیسک

صحافیوں، بلاگرز اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کے بعد وہ پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہیں کہ مختلف سوچنے، دیکھنے اور لکھنے والوں کو چھوڑا نہیں جائے گا چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں، ایسا سوچنے والوں میں کئی پاکستانی صحافی شامل ہیں

انہی میں سے ایک پاکستان میں گزشتہ پندرہ برس سے زائد عرصے سے منظم جرائم، سیاست، کرپشن، فراڈ اور ہیومن رائٹس پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی احمد نورانی بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بطور صحافی نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے خاندان کو بھی خطرات لاحق ہیں

رپورٹس کے مطابق نومبر 2021 میں نورانی کی اہلیہ، عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر ایک نامعلوم حملہ آور نے حملہ کیا، جو لاہور میں ان کے گھر کے قریب سے فرار ہو گیا، اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی

احمد نورانی کے مطابق اکتوبر 2017ع میں اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے قریب موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے احمد نورانی کی گاڑی کو زبردستی روکا اور پھر انہیں گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا

امریکہ میں جلاوطنی کے دوران بھی احمد نورانی نے صحافت کا سلسلہ جاری رکھا اور 2020 سے ’فیکٹ فوکس‘ نامی ویب سائٹ سے منسلک ہیں، جسے احمد نورانی اور صحافیوں کی ایک ٹیم مل کر چلاتے ہیں

وہ بتاتے ہیں ”یہاں سے میں نے اپنی جرنلزم جاری رکھی اور جو میں خبریں کر رہا تھا، اس کے جواب میں پاکستان میں کپمین چلائی جاتی تھیں اور وہ جو کمپین چلائی جاتی ہیں وہ غداری کے فتویٰ سے شروع ہو کر مذہب تک جاتی ہیں۔ جب آپ کے بارے میں اس طرح کی چیزیں ایک ملک میں نیشنل لیول پر چل رہی ہوتی ہیں تو خطرات تو ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ تھریٹ لیول آپ کی فیملی کے لیے ہوتا ہے جو اس سسٹم میں رہ رہے ہوتے ہیں“

گزشتہ برس نومبر میں احمد نورانی نے اس وقت کے حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریٹرنز اور ان کی دولت میں کئی گنا اضافے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس رپورٹ کی تردید کی تھی۔ احمد نورانی کے خلاف ایف آئی اے میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے

پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹرز وڈ آوٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی صحافیوں کے لیے خطرات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے ۔اور بعض اوقات یہ دھمکیوں سے بھی آگے کی بات ہوتی ہے

پیرس میں صحافتی آزادی کے لئے کام کرنے والے ادارے رپورٹر ز ود آوٹ بارڈرز سے وابستہ ڈینیئل ناسٹغ کہتے ہیں ”سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ ارشد شریف کا ہے۔ یہ پاکستان کے اندر پوری صحافتی برادری کے لیے ایک دھچکہ ہے چاہے وہ کسی بھی میڈیا سے وابستہ ہوں اور آزادی صحافت کے ادارے کے طور پر یہ ہمارے لیے بھی واقعی تشویشناک ہے۔جب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک سے باہر صحافی اچھی طرح سے آزاد رہ سکتے ہیں، تو ایسا نہیں ہے ۔ کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان پر یا تو براہ راست دباؤ ڈالا جاتا ہے یا پیچھے رہ جانے والے ان کے خاندان کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے“

پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی کے ادارے ایسے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں

وفاقی وزیر اطلاعات اور نشریات مریم اورنگزیب کے بقول یہ تاثر غلط ہے کہ شہباز شریف کی قیادت والی حکومت کے آنے کے بعد ملک میں میڈیا کے خلاف تشدد اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے اور حکومت صحافیوں کی فلاح اور ان کی سیکیورٹی کے لیے پرعزم ہے

لیکن زمینی حقائق مریم اورنگزیب کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کے صحافی عمران ریاض خان، شاہد اسلم، سمیع ابراہیم، معید پیر زادہ، صابر شاکر، صدیق جان و دیگر کے خلاف حکومتی اقدامات نے ماضی کے تمام تجربات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے

صحافی شاہد اسلم کو مبینہ طور پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ٹیکس معاملات سے متعلق خبر دینے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے رواں سال جنوری میں مقدمہ قائم کر کے ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت بھی ایف آئی اے کے درج کیے گئے مقدمے میں ضمانت پر ہیں

صحافی شاہد اسلم نے کا کہنا ہے کہ آزادیٔ صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کسی دور میں نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں تو الزام لگایا جاتا تھا کہ ریاستی ادارے صحافیوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے لیکن موجودہ دور میں میرے خلاف ایک ایسا کیس بنایا گیا، جس میں مجھ سے پوچھا تک نہیں گیا کہ آیا اس میں میرا قصور ہے بھی یا نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مجھے سمن بھیج کر بلوایا جاسکتا تھا لیکن مجھے ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیا اور اڈیالہ جیل کی سیر کروائی گئی۔ ان کے بقول: ’’ایسے حالات میں کون سی آزادیٔ صحافت؟‘‘

شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ صحافی قانون سے بالا تر نہیں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی حکم کی روشنی میں بنائے گئے ایف آئی اے کے اپنے رولز کے مطابق صحافیوں کو کسی بھی معاملے پر پہلے نوٹس جاری کیا جائے گا اور اس کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن مجھے نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ اب تک اس کیس میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا

انہوں نے کیا ”تین مئی کو جب عالمی یومِ صحافت منایا جا رہا ہوگا اس وقت میں عدالت میں پیشی کے لیے جاؤں گا“

ایک دو نہیں بلکہ پاکستان میں کام کرنے والے کئی صحافیوں کی یہی کہانی ہے۔ صحافیوں کی آزادی اور تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ’فریڈیم نیٹ ورک‘ کی حالیہ رپورٹ سے اس بارے میں کئی حقائق سامنے آئے ہیں

فریڈم نیٹ ورک کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور آرگنائزیشنز کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے کم از کم 140 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ایسے واقعات میں سالانہ بنیادوں پر 60 فی صد اضافہ ہواہے

2022 میں شائع ہوانے والے ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کے میڈیا فریڈیم انڈیکس کے مطابق پاکستان آزادی صحافت کے اعتبار سے دنیا کے 180 ممالک میں 157 نمبر پر تھا۔ تاہم 2023 کی رپورٹ کے مطابق اب پاکستان اس انڈیکس میں سات درجے ترقی کے بعد 150ویں نمبر پر ہے

پاکستان پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صحافت کے لیے پاکستان میں سب سے زیادہ خطرے والا شہر اسلام آباد ہے

رپورٹ کے مطابق آزادیٔ صحافت کی خلاف ورزیوں میں سے 56 فی صد وفاقی دار الحکومت میں ہوئی ہیں

تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے سے قبل جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں میڈیا کے لیے ماحول خطرناک اور زیادہ پُرتشدد ہو گیا ہے۔ مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان حملوں کی تعداد 63 فی صد بڑھ کر 140 ہو گئی جن کی تعداد سال 22-2021 میں 86 تھی۔

رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران پاکستان میں کم از کم پانچ صحافیوں کے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ پریشان کن ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے

اقبال خٹک نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی بنیادی وجہ پالیسی فریم ورک ہے جو ریاستی اداروں اور حکام کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کے خلاف حملوں میں اداروں سمیت سیاسی جماعتیں بھی شامل رہی ہیں۔ یہ وہ پالیسی ہے جس کے تحت صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے

ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر حملے سے اہم معلومات تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ملک میں جاری موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کے دوران یہ صورتِ حال مزید پریشان کن ہے۔

اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کرنے والا ایشیا کا پہلا ملک بنا لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وفاق اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کسی ایک صحافی کے لیے بھی مددگار ثابت نہیں ہوئے

پاکستان میں گزشتہ گیارہ مہینوں میں صحافیوں کے خلاف 140 حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مہینے میں 13 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں تقریباً ہر دوسرے دن ہورہی ہیں

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں رواں سال جان کی بازی ہارنے والے پانچ صحافیوں کی فہرست دی گئی ہے۔ جن میں چارسدہ سے روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے افتخار احمد ، سرائیکی اخبار کے لیے کام کرنے والے راجن پور کے اشتیاق سودھیرو، چینل فائیو لاہور کے لیے کام کرنے والی صدف نعیم اور خیرپور میں ’مہران‘ ٹی وی کے لیے کام کرنے والے نریش کمار کے علاوہ ارشد شریف کا نام بھی شامل ہے۔ صحافی ارشد شریف اگرچہ پاکستان میں قتل نہیں ہوئے تاہم ان کا نام بھی اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے

رواں سال رپورٹ کے مطابق خواتین صحافیوں کے خلاف آٹھ خلاف ورزیاں کی گئیں، جن میں انہیں ہراساں کرنے سمیت دھمکانے کے کیسز بھی شامل ہیں

رپورٹ کے مطابق جن صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ حملے ہوئے وہ ٹی وی سے تعلق رکھنے والے تھے جن کے خلاف 69 فی صد حملے ہوئے جب کہ پرنٹ میڈیا کے خلاف 19 فی صد اور 11 فی صد آن لائن صحافیوں کے خلاف حملے ہوئے

جہاں پانچ صحافی قتل ہوئے وہیں دس صحافیوں پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ بچ گئے جب کہ نو صحافیوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اکیاون صحافیوں کو جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں وہ زخمی ہوئے جب کہ سات صحافی گرفتار اور چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے اغوا بھی کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close