عراق کا عظیم دریائے دجلہ پیاس سے مر رہا ہے۔۔ وڈیو جرنلسٹ نے اس دریا کے ساتھ اپنے سفر میں کیا دیکھا؟

ویب ڈیسک

یہ وہ دریا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بائبل دور کے باغ عدن کو سیراب کیا تھا اور انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیب اسی کا پانی پی کر پروان چڑھی تھی۔ لیکن آج دریائے دجلہ خود مر رہا ہے۔

انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور ان تبدیلیوں نے جہاں دنیا بھر کے موسمی حالات پر اثرات مرتب کیے، وہیں اس نے دجلہ کے زبردست بہاؤ کو روک دیا ہے

دریائے دجلہ کچھ نیچے جا کر دریائے فرات سے ملتا ہے اور انہی دو دریاؤں نے اس خطے کو ہزاروں سال قبل میسوپوٹیمیا (بین النہرین) کی تہذیب کا گہوارہ بنایا تھا

واضح رہے کہ میسوپوٹیمیا یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے نہروں/ ندیوں یا دریاؤں کے درمیان۔۔ کیونکہ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق دریائے دجلہ و فرات کے درمیانی خطے میں ہی پہلی انسانی تہذیب نے جنم لیا تھا

عراق تیل کی دولت سے مالا مال ہو سکتا ہے لیکن یہ ملک اس وقت دنیا کے طاقتور ملکوں کی ہوس کی وجہ سے کئی دہائیوں کی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد اب خشک سالی اور بنجر ہونے سے غربت سے دوچار ہے

واضح رہے کہ موسم گرما میں عراق میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر چلا جاتا ہے اور انسانوں کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں

دریائے دجلہ کو کئی حوالوں سے کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ عراقی شہروں موصل، بغداد اور بصرہ کے شہروں کو جوڑتا ہے اور اسے ان شہروں کی لائف لائن قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اس دریا پر بنائے جانے والے ڈیموں کی وجہ سے اب یہ خود پیاس سے مر رہا ہے۔ زیادہ تر ڈیم اوپر ترکی کے علاقے میں بنائے گئے ہیں

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک وڈیو جرنلسٹ نے پندرہ سو کلومیٹر طویل اس دریا کے ساتھ ساتھ سفر کیا ہے۔ ان کا سفر شمالی کرد پہاڑی علاقوں سے شروع ہوا تھا اور جنوبی خلیج میں آ کر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران انہوں نے ماحولیاتی تباہی کو فلم بند کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے قدیم طرز زندگی کو تبدیل کرنے پر مجبور ہیں

عراق میں بہنے والے دریائے دجلہ کا سفر شمال میں ترکی اور شام کی سرحدوں کے قریب خود مختار کردستان کے پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ اسی پہاڑی علاقے میں مقیم اکتالیس سالہ کسان پیبو حسن کا کہنا ہے ”ہماری زندگیوں کا انحصار دجلہ پر ہے۔ ہمارے تمام کاموں اور زراعت کا انحصار اس پر ہے‘‘

لیکن اس علاقے کے رہائشیوں کو بھی مستقبل کے خطرات کا اندازہ ہو رہا ہے۔ پیبو حسن کہتے ہیں ”پہلے بہنے والے پانی کی مقدار زیادہ ہوتی تھی لیکن اب گزشتہ دو، تین برسوں سے اس کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے، دن بدن پانی کم ہو رہا ہے‘‘

عراقی حکومت اور کرد کسان پانی کی کمی کا الزام ترکی پر عائد کرتے ہیں، جہاں دجلہ کا منبع ہے۔ ان کے مطابق ترکی ڈیموں میں پانی بھرتا ہے اور اس کا عراق میں بہاؤ کم ہو جاتا ہے

عراق کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عراق میں داخل ہونے والے دجلہ کے پانی کی مقدار گزشتہ ایک صدی کے دوران اوسطاً 35 فی صد تک کم ہو چکی ہے

بغداد حکومت باقاعدگی سے انقرہ کو مزید پانی چھوڑنے کا کہتی رہتی ہے۔ دوسری جانب رواں برس مئی میں عراق میں ترک سفیر علی رضا گونے نے عراق پر زور دیا تھا کہ وہ دستیاب پانی کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرے۔ ان کا ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا ”عراق میں زیادہ تر پانی ضائع کر دیا جاتا ہے‘‘

ماہرین کے مطابق ترک سفیر کے اس بیان میں وزن بھی ہے۔ عراقی کسان آج بھی قدیم سمیری دور کے زرعی طریقے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ وہ فصلوں کو سیراب کرنے کے بجائے اپنے کھیتوں میں سیلاب لاتے ہیں۔ اس طرح بہت زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے

عراقی دارالحکومت بغداد کے قریب مرکزی میدانی علاقوں میں دجلہ سے نکلنے والی ایک معاون ندی دیالہ میں اب جو کچھ باقی بچا ہے، وہ ٹھہرے ہوئے پانی کے جوہڑ ہیں۔ خشک سالی نے اس آبی گزرگاہ کو خشک کر دیا ہے، جو خطے کی زراعت کے لیے انتہائی اہم تھی

اس سال عراقی حکام نے زیر کاشت علاقوں کو نصف تک کم کر دیا ہے یعنی بری طرح سے متاثرہ دیالہ میں کوئی فصل نہیں اگائی جائے گی

اس علاقے کے رہائشی بیالیس سالہ ابو مہدی کہتے ہیں ”ہم کھیتی باڑی چھوڑ کر اپنے جانور بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہم اَسی کی دہائی میں ایران جنگ کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اب پانی کی وجہ سے بے گھر ہوں گے۔ پانی کے بغیر تو ہم اس علاقے میں رہ ہی نہیں سکتے‘‘

ابو مہدی کا کہنا ہے ”کسانوں نے ایک سو فٹ تک زمین کھودی تاکہ پانی نکالا جا سکے۔ اس کے لیے ہم نے ہر چیز بیچ دی لیکن ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔‘‘

یاد رہے ورلڈ بینک نے گزشتہ برس خبردار کیا تھا کہ عراق کے بیشتر حصوں کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان حالات میں عراق کی تقریباً ایک تہائی زرعی زمین کو پانی نہیں ملے گا

اس موسم گرما کے دوران دجلہ کی سطح اتنی نیچے گر گئی تھی کہ بغداد کے لوگ دریا کے بیچوں بیچ والی بال کھیلتے تھے

بغداد کے سیوریج کا پانی اور کوڑا کرکٹ بھی بہتے ہوئے دجلہ میں جاتا ہے، جس سے آلودگی پیدا ہو رہی ہے اور اس کے زہریلے پن سے سمندری حیات اور انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے

وہ مقام جہاں دریائے دجلہ و فرات ملتے ہیں، کبھی میٹھے پانی کی مچھلیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ ان دونوں دریاؤں کے مجموعی دھارے کو شط العرب کہتے ہیں۔ اپنی کشتی میں ننگے پاؤں کھڑے ماہی گیر نعیم حداد کا شط العرب کے پانیوں پر غروب ہوتے سورج کو دیکھتے ہوئے کہنا تھا ”باپ سے لے کر بیٹے تک، ہم نے اپنی زندگیاں ماہی گیری کے لیے وقف کر رکھی ہیں‘‘

نعیم حداد نے افسردہ لہجے میں کہا ”اگر پانی چلا جاتا ہے تو ماہی گیری بھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہماری روزی روٹی بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘

لیکن اس پر مستزاد یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ نیچے سے سمندری پانی اوپر آ رہا ہے اور میٹھے پانی کی مچھلیاں کم ہو رہی ہیں۔ حداد سمندر میں ماہی گیری کی طرف نہیں جا سکتا کیونکہ اس کی کشتی چھوٹی ہے اور خلیجی پانیوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ وہاں وہ کشتیاں جاتی ہیں، جو ایرانی اور کویتی کوسٹ گارڈز کے آنے کے بعد فرار ہونے کا خطرہ مول لیتی ہیں

دوسرے لفظوں میں ماہی گیروں کو عراق کے سکڑتے دریاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، ان کی قسمت بھی دریائے دجلہ و فرات کے بہاؤ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے

نعیم حداد کا افسردہ لہجے میں کہنا تھا، ”اگر پانی چلا جاتا ہے تو ماہی گیری بھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہماری روزی روٹی بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘

دوسری جانب حکام کا اندازہ ہے کہ فرات بھی 2040ع کے اوائل میں خشک ہو سکتا ہے، جس سے زراعت اور مویشیوں پر مبنی مقامی معیشت کو خطرہ لاحق ہوگا

جنوبی عراق کے صوبے المثنا میں جھیل ساوا کے ساحل پر تعمیر کیے گئے پرانے سیاحتی کمپلیکس کے اوپر سے جہاں تک آنکھ نظر جاتی ہے، صحرا پھیلا ہوا ہے۔ یہ عمارتیں 2003ع میں امریکی-برطانوی حملے کے بعد سے چھوڑ دی گئی ہیں

ایک چالیس سالہ ٹیکسی ڈرائیور عبداللہ، جو سماو کے پڑوسی قصبے میں دن کے وسط میں اس جگہ کے سکون سے لطف اندوز ہونے کے لیے آیا تھا۔ لیکن یہ سکون بھی یہاں ناپید ہے ۔ عبداللہ ماضی کو یاد کرتے ہوظے کہتے ہیں ”ماضی میں، کناروں تک پانی تھا، مچھلیاں اور پرندے تھے۔۔ ہم جھیل پر تیراکی، پکنک اور کشتی پر سواری کرنے آتے تھے“

اپریل میں یہ جھیل مکمل طور پر سوکھ گئی۔ یہ بھی پانچ ہزار سال سے زیادہ پہلے دریائے فرات کے قریب، زرخیز میسوپوٹیمیا کی وادی کے مغربی سرے پر بنی ہے، جو دریائے دجلہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ جو سمیری تہذیب کا گہوارہ ہے اور جس کے بارے میں ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ اس نے دنیا کو تحریر اور زراعت دی

موسم گرما کے آغاز میں، یہاں کچھ پانی دوبارہ پیدا ہوا لیکن صرف جھیل کے لیے – جو زمین میں دراڑوں کے ذریعے اٹھتا ہے – 5 بائی 2 کلومیٹر کے فاصلے والے گڑھے کے بیچ میں صرف ایک تالاب بچا ہے

ال کے ماحولیاتی افسر یوسف جابر نے کہا، ”جھیل ساوا اب اپنے اصل سائز کا صرف پانچ یا 10 فی صد ہے ۔ یہ کبھی بھی اپنی سابقہ ​​سطح پر واپس نہیں آئے گی۔ اگر ہم کم از کم اس علاقے کو محفوظ کر سکتے ہیں تو یہ ایک کامیابی ہوگی۔“

یوسف نے بتایا کہ 2015 میں پانی کی سطح گرنا شروع ہوئی، جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ تین سالوں سے بارش نہیں ہوئی اور سماوہ میں درجہ حرارت بعض اوقات 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ چھوٹے زلزلوں نے جھیل کو پانی دینے والے چشموں کو بند کر دیا ہے“

اس صورتحال کے لیے مقامی انسانی سرگرمیاں بھی ذمہ دار ہیں۔ خطے میں پانی کی کمی نے صنعت کاروں، کسانوں اور چرواہوں کے درمیان قیمتی وسائل کو استعمال کرنے کے لیے مسابقت کو تیز کر دیا ہے

یوسف کہتے ہیں "زرعی منصوبوں اور کارخانوں جیسے سیمنٹ اور نمک کے کاموں کے لیے ارد گرد کے صحرا میں کنویں غیر قانونی طور پر کھودے گئے ہیں۔ یہ زیر زمین پانی کے ذخائر سے بہت سا پانی نکالتے ہیں جو جھیل کو کھلاتا ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close