کیا چینی عوام, گمنامی سے چین کے طاقتور ترین لیڈر بننے والے رہنما کے خلاف اٹھ رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

چین جیسے مطلق العنان ملک میں حکومت مخالف مہم پر مبنی کوئی علامت سامنے آنا کوئی معمولی بات نہیں اس لیے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف احتجاج ایک غیر معمولی واقعہ ہے

ایسا ہی کچھ دارالحکومت بیجنگ کے ہیدان ضلع میں سیٹونگ برج پر ہوا۔ جمعرات کو کچھ مظاہرین کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کے دو بینرز کے ساتھ ایک پُل پر جمع تھے

ایک بینر پر لکھا تھا کہ ’کوئی کورونا کا ٹیسٹ نہیں، میں کمانا چاہتا ہوں۔ کوئی ثقافتی انقلاب نہیں، میں اصلاحات چاہتا ہوں۔ کوئی لاک ڈاؤن نہیں، میں آزادی چاہتا ہوں۔ کوئی حکمراں نہیں، میں ووٹ دینا چاہتا ہوں۔ کوئی جھوٹ نہیں، مجھے عزت چاہیے۔ میں غلام نہیں بنوں گا، میں ایک شہری بننا چاہتا ہوں۔“

دوسرے بینر پر ’غدار آمر شی جنپنگ‘ کو ہٹانے کا مطالبہ درج تھا۔
وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ستانگ برج پر دھواں اٹھ رہا تھا۔ پولیس بینرز ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔
جب اے ایف پی کے صحافی پہنچے تو وہاں پر نہ بینر اور نہ ہی اس کا تحریر کرنے والا موجود تھا

چینی حکام نے کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے قبل صدر شی جن پنگ کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے کا مواد انٹرنیٹ سے ہٹا دیا ہے

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو چین کے انٹرنیٹ سینسر نے احتجاج سے متعلق پوسٹس اور کی ورڈز کو بلاک کر دیا ہے۔ اس میں اس پُل (ستانگ برج) کا نام بھی شامل تھا جہاں پر صدر کے خلاف بینرز لگے تھے

بیجنگ میں عوامی احتجاج بہت کم ہوتا ہے اور وہ افراد جو دارالحکومت کی سخت سکیورٹی انتظامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے

بیجنگ میں جمعرات کے روز کم از کم ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس نے ایک غیر معمولی واقعہ میں صدر شی جن پنگ کے قیادت پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے، جب چند دن بعد ہی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کی قومی کانگریس ہونے والی ہے، جو ہر پانچ برس میں ایک مرتبہ منعقد ہوتی ہے

بظاہر کووڈ-19 وبا کے متعلق چین کی سخت پالیسی کے حوالے سے اس بینر پر سرخ رنگوں سے مزید لکھا تھا، "ہم وقار چاہتے ہیں، جھوٹ نہیں۔ ہمیں اصلاحات کی ضرورت ہے، ثقافتی انقلاب کی نہیں۔ ہم ووٹ دینا چاہتے ہیں، لیڈر نہیں۔ غلام نہ بنیں، شہری بنیں۔”

‘ڈکٹیٹر شی جن پنگ’ کے نعرے

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک وڈیو فوٹیج کے مطابق میگافون پر ایک آواز سنی جا سکتی ہے، جس میں کوئی شخص مطالبہ کر رہا ہے، "ڈکٹیٹر شی جن پنگ کو برطرف کر دیں۔”

احتجاج کے مقام پر دھواں بھی چھوڑا گیا اور جمعرات کو بعد میں اسی جگہ سے ایک جلی ہوئی فرش کی تصویریں بھی دیکھی جا سکتی ہیں

جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پولیس کو ایک شخص کو حراست میں لے کر گاڑی میں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ وہاں سے بینر کو ہٹا دیا گیا ہے

احتجاج کے فوراً بعد چینی شارٹ مسیج سروس وائیبو پر Siton Bridge کی سرچ اصطلاح کو بلا ک کر دیا گیا

یہ واقعات ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب ملک کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے اراکین اتوار سے شروع ہونے والی انتہائی اہم میٹنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ پانچ برس کے وقفے سے ہونے والی اس اجلاس میں قیادت میں تبدیلی جیسے اہم امور پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ اجلاس میں شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ ملک کا رہنما منتخب کر لیا جائے گا کیونکہ انہوں نے چین کے سب سے طاقت ور رہنما کے طور پر اپنی گرفت کافی مضبوط کرلی ہے

شی جن پنگ: گمنامی سے چین کے طاقتور ترین لیڈر بننے والے رہنما

چینی صدر شی جن پنگ بیسویں کمیونسٹ پارٹی کانگریس میں تیسری مرتبہ غیر معمولی انداز سے اپنی مدت کا آغاز کرنے کی تیاری کر رہے ہیں

اس کے ساتھ ہی شی جن پنگ کے تاحیات اس عہدے پر رہنے کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ چین کے رہنماؤں نے 2018 میں صرف دو بار عہدے پر رہنے کی حد کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یہ اصول 1990 کی دہائی سے نافذ تھا

شی جن پنگ نے 2012 میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے دور حکومت میں چین آمرانہ حکمرانی کی طرف بڑھا اور ناقدین، بااثر ارب پتیوں اور صنعت کاروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا

کچھ لوگ ان کو چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بانی اور سابق حکمران چیئرمین ماؤ سے بھی زیادہ آمرانہ سوچ کا حامل سمجھتے ہیں

ان کے دور حکومت میں چین نے سنکیانگ میں ’ری ایجوکیشن‘ کیمپ قائم کیے جن پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا

چین نے ہانگ کانگ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور ضرورت پڑنے پر تائیوان تنازعے کو ’طاقت کے ذریعے‘ دوبارہ حاصل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا

ان کے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے، کمیونسٹ پارٹی نے 2017 میں آئین میں ’شی جن پنگ کے خیالات‘ شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے پہلے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بانی ماؤ اور 1980 کی دہائی میں ڈینگ شیاؤپنگ کے نظریات شامل کیے گئے تھے

شہزادہ جو گمنامی سے صدر کے عہدے تک پہنچا

شی جن پنگ 1953 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، ژی ژونگکسن، ایک انقلابی اور کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ وہ چین کے نائب وزیر اعظم بھی رہے

ان کا خاندانی پس منظر اتنا شاندار تھا کہ شی جن پنگ کے ساتھ ہمیشہ شہزادے جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے

لیکن ان کے خاندان کے حالات نے اس وقت ڈرامائی موڑ لیا جب ان کے والد کو 1962 میں قید کر دیا گیا

ماؤ کو اپنی پارٹی کے لیڈروں پر شدید شک تھا، خاص کر ان لوگوں پر جو ان کے حریف تھے۔ ماؤ نے ایسے لیڈروں کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا

اس کے بعد 1966 کے ثقافتی انقلاب کے دوران لاکھوں لوگوں کو چینی ثقافت کا دشمن کہا گیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے

ان واقعات نے شی جن پنگ کے خاندان کو بھی متاثر کیا۔ چند رپورٹس کے مطابق ان کی سوتیلی بہن کو قتل کر دیا گیا تھا۔ تاہم نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اعلیٰ طبقے سے واقف ایک مورخ نے کہا کہ انھوں نے دباؤ میں آ کر خود اپنی جان لے لی تھی

شی جن پنگ کو اس سکول سے بھی نکال دیا گیا جہاں اعلیٰ سیاستدانوں کے بچے پڑھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے 15 سال کی عمر میں بیجنگ چھوڑ دیا

ان کو ملک کے شمال مشرق میں غربت زدہ لیانگ جیاہ بھیجا گیا تھا۔ یہاں وہ سات سال رہے

لیکن کمیونسٹ پارٹی سے نفرت کرنے کی بجائے انھوں نے کئی بار پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کی جو والد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئی

آخرکار ان کو 1974 میں ہیبی صوبے میں پارٹی میں جگہ مل گئی۔ وہاں سے شروع ہونے والے سفر کے بعد انھیں سینئر کردار ملتے رہے

1989 میں، پینتیس سال کی عمر میں، وہ جنوبی فوجیان صوبے کے شہر ننگدے میں پارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بیجنگ کے تیان مین چوک پر سیاسی آزادی کے مطالبے کے لیے مظاہرے ہو رہے تھے

اگرچہ یہ صوبہ دارالحکومت بیجنگ سے بہت دور تھا لیکن شی جن پنگ نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر مقامی مظاہروں کو کنٹرول کرنے اور دبانے کی کوششیں کیں

کمیونسٹ پارٹی نے اس خونریز کشمکش کو ملک کے سرکاری ریکارڈ اور تاریخ کی کتابوں سے مٹا دیا۔ تیان مین چوک پر خونی تنازعے کی وجہ سے چین 2000 کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی سے محروم ہو گیا۔ اس واقعے میں ایک اندازے کے مطابق کئی ہزار افراد ہلاک ہوئے

تقریباً دو دہائیوں کے بعد، شی جن پنگ بیجنگ میں 2008 کے اولمپکس کے انچارج بنے۔ چین دنیا کو یہ دکھانے کے لیے بے چین تھا کہ وہ بدل چکا ہے اور میزبانی کا مستحق ہے۔ چین نے یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ اس سمت میں کام کر رہا ہے اور چین کھیلوں میں ابھرتی ہوئی طاقت بن گیا ہے

شی جن پنگ کے بڑھتے ہوئے سیاسی قد کاٹھ نے پارٹی کے فیصلہ ساز ادارے پولٹ بیورو کو بھی متاثر کیا اور 2012 میں وہ چین کے صدر منتخب ہو گئے

انہیں اور ان کی بیوی پینگ لییوان کو سرکاری میڈیا نے بہت زیادہ توجہ دی۔ ان کی بیوی ایک معروف گلوکارہ ہیں

اس جوڑے میں ایک خاصیت تھی جو پچھلے صدور سے مختلف تھی۔ سابق صدور کی بیویاں عوام میں زیادہ سامنے نہیں آئیں

شی جن پنگ اور پینگ کی ایک بیٹی ژی منگ زی ہے۔ ان کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں، حالانکہ یہ واضح ہے کہ انھوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے

غیر ملکی میڈیا ہمیشہ خاندان کے دیگر افراد اور ان کے غیر ملکی کاروبار کے بارے میں تحقیقات کرتا رہا ہے

’ماؤ کے بعد سب سے زیادہ آمرانہ کے حامل لیڈر‘

صدر بننے کے بعد شی جن پنگ نے پارٹی کے اعلیٰ عہدوں میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کی

ناقدین نے اس پالیسی کو پارٹی میں حریفوں یا مخالفوں کے خلاف قدم کے طور پر دیکھا۔ ان کے دور حکومت میں چین میں آزادئ رائے پر بہت سی پابندیاں دیکھی گئیں

انسانی حقوق کے گروپوں کا خیال ہے کہ سنکیانگ صوبے میں حکومت نے پچھلے کچھ سالوں میں لاکھوں مسلمانوں کو قید کیا۔ چینی حکومت اسے ’ری ایجوکیشن کیمپ‘ کا نام دے رہی ہے۔ چین امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی طرف سے لگائے جانے والے نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتا ہے

شی جن پنگ کے دور میں ہانگ کانگ پر بھی چین کی گرفت مضبوط ہوئی

صدر جن پنگ نے سال 2020 میں قومی سلامتی کا قانون پاس کر کے ملک میں جمہوریت نواز مظاہروں کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اس قانون کے مطابق ایسا کرنے والے لوگ علیحدگی پسند، تشدد پسند اور غیر ملکی طاقتوں سے ہاتھ ملانے والے مجرم ہیں۔ ایسے الزام میں زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے

اس قانون کے نفاذ کے بعد جمہوریت کے حامی رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایپل ڈیلی، سٹینڈ نیوز جیسی میڈیا تنظیمیں بھی بند کردی گئیں۔

شی جن پنگ کے دور حکومت میں ہی چین نے تائیوان کے خود مختار جزیرے کے ساتھ الحاق کرنے کی کوششیں شروع کیں اور فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی

چین کی طاقت اور اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے دنیا کی نظریں اب ان کے تیسری بار صدر بننے پر ہوں گی۔

ان کا فی الحال کوئی سیاسی جانشین سامنے نہیں آیا۔ 69 سالہ شی جن پنگ 1970 کی دہائی میں ماؤ زے تنگ کی موت کے بعد سے چین کے سب سے طاقتور رہنما ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close