میاں نواز شریف اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد لاہور جانے سے قبل اپنے رفقا اور دوستوں سے سیاسی لائحہ عمل کے لیے طویل مشاورتی مجالس کرتے رہے۔ جس طرح ہر مسئلے کے حل کے لیے اختلافی آرا آیا کرتی ہیں ان کے سامنے بھی پیش کی جارہی تھیں۔ ان میں 2 نکات ایسے تھے جن پر خوب گفتگو ہوئی، ایک تھا ’مجھے کیوں نکالا‘ اور دوسرا تھا ’ووٹ کو عزت دو‘۔
فی الحال تو ان کی سیاسی زندگی پر پابندیاں ہیں۔ وہ سیاسی جماعت کے عہدیدار نہیں بن سکتے اور اس کے لیے عدالت ہی کوئی راستہ نکال سکتی ہے مگر دوسرا نکتہ ووٹ کو عزت دو ان سے بظاہر عمران خان نے چھین لیا ہے۔
ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہر کسی کو ایک پیغام دے رہا تھا، مگر یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ انتخابات ہوئے، آر ٹی ایس کی خرابی بھی ہوئی، مذاکرات بھی ناکام ہوئے، دن، رات میں بدل گیا، رات کی تاریکی میں سکوت ٹوٹ نہ سکا مگر صورتحال نے دوسرا رخ اختیار کرلیا۔
انجینیئر جتنی دیر میں آر ٹی ایس کو ٹھیک کرتے تب تک پو پھٹ چکی تھی، سورج بدلتے سورج کے طور پر آسمان پر چڑھ رہا تھا، اور ایسے میں سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی بھی رات کی تاریکی میں چھپ چکے تھے۔ رنگ و بُو سب کچھ بدل چکا تھا
جیت جب ہار میں بدلتی ہے تو ہار جیت میں شرمندگی کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے، ملکی تاریخ میں ایسا کئی بار ہوتے دیکھا ہے۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ عوام کے پاس انتخاب ہی ایک رہ جاتا تھا اور وہ چاہتے نہ چاہتے اسی کو اپنے گلے کا ہار بنالیا کرتے تھے۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ووٹ کو پوری طرح عزت ملتی نظر آئی اور پہرے داروں نے پیچھا کرکے چوروں کو چھپنے بھی نہ دیا۔ چور پکڑے گئے، گولی چلی اور نوشین افتخار جیت گئی مگر چوری کرنے والے، کروانے والے گویا سبھی کی نشاندہی ہوگئی۔ مگر نہ کسی کے ہاتھ کاٹے گئے نہ کوئی جیل گیا اور نہ ہی نوکری سے برخاست ہوا۔
اس سب کے باوجود ایک بات طے پائی کہ مقامی سرکاری افسران اور ان کے حکامِ بالا موردِ الزام ٹھہرے۔ ایسے ہی تجربات، مشاہدات اور ضروریات نے سابق حکومت کو سیکھنے کا کافی موقع دیا۔ فضا میں عزت دو کا نعرہ تحلیل نہیں ہوا تھا مگر فائدہ زیادہ تر انہوں نے اٹھانے کی کوشش کی جن کے دن ان کی کارکردگی کے باعث رات کی تاریکی میں ڈوب رہے تھے۔
ملک معاشی طور پر تباہ ہوچکا تھا، اور انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو توڑ کر ملک کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ سفارتی ناکامیوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی تھی اور انہوں نے اس میں بھی اضافہ کردیا
پہلے امریکا سے فون کا انتظار کرتے رہے اور جب ایسا نہیں ہوا تو اسی امریکا پر مداخلت اور سازش کا الزام لگا کر اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ امریکا کا نام بھی مت لینا مگر داستان گو نے داستان میں رنگ بھرنے کی خاطر خود سفارتکار کا نام لیا، پھر بدنام کیا اور بدنامی سے خود کو بچانے کے لیے انہی کے پسندیدہ لابی کرنے والوں کو خطیر رقم دے کر اپنے معاملات طے کرنے پر مامور کیا
سفید ہاتھی بدلہ لے کر ہی چھوڑتا ہے، ہم نے تو یہی سن رکھا ہے کہ اب سفید ہاتھی کیا حکمتِ عملی اختیار کرے گا؟ یہ تو اس کی صوابدید پر منحصر ہے۔ مہاتیر محمد اپنے وقت کے بہت مقبول لیڈر تھے مگر تحریک عدمِ اعتماد کا شکار تو وہ بھی ہوئے۔ اگر ہمارے لیڈر ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو پھر ان کی طرح کارکردگی بھی دکھانا ضروری ہے۔
بات تو ہورہی تھی ووٹ کو عزت دو کی۔ اب چونکہ یہ نعرہ مسلم لیگ (ن) نے دیا تھا، اس لیے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ یہ جماعت اس نعرے کی پاسداری کررہی ہے یا خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے۔ یہ وقت نہ خواب کا ہے اور نہ مزے لوٹنے کا، درجن بھر جماعتیں ملکر حکومت کررہی ہیں اور ووٹ اور نمائندگی سے منہ موڑ چکی ہیں
قومی اسمبلی اور سینیٹ یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس دیکھ کر کوفت ہوتی ہے۔ جس پارلیمنٹ کے صرف 4 فیصد ارکان سربراہِ مملکت صدرِ پاکستان کا خطاب سننا گوارہ کریں وہاں صدر کو بھی اپنی حیثیت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ صرف ٹی وی انٹرویو اور چند صحافیوں سے ملاقات وہ رنگ روپ دوبارہ عطا نہیں کرسکتی جو صدارتی جوانی میں نظر آتا تھا اور پارلیمنٹ بھی اپنی بے توقیری کو توقیر میں نہیں بدل سکتی جو اس کا اصل رقبہ اور مزاج و مقام ہے۔
اگر قائدِ ایوان خود ایوان میں موجود نہ ہو تو بے توقیری کوئی اور نہیں قائدِ ایون خود کررہا ہوتا ہے۔ سینیٹ، جس کے چیئرمین کے بارے ہر روز خبر آتی ہے کہ مہمان کی عزت کرو اور وہ اپنی لابنگ میں مصروفِ عمل ہو اور ایوان خالی ہو تو کوئی بتلائے کہ ہم کیا بتلائیں
قومی اسمبلی میں مرحوم محمد خان جونیجو، یوسف رضا گیلانی اور شوکت عزیز کی حاضری بہت زیادہ ہوا کرتی تھی، نتیجہ یہ تھا کہ کابینہ کے ارکان اور پارلیمانی سیکرٹری اتنی تعداد میں ہوتے تھے کہ کورم کی نشاندہی کی دھمکی کبھی کسی نے دینے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔
شریف برادران اپنی ضرورت کے مطابق کبھی کبھی ایوان میں رونق افروز ہوا کرتے ہیں یا تھے۔ موجودہ وزیرِاعظم کے وزرا ایوان میں کھڑے ہوکر ایوان کی بے توقیری کی بات کرتے ہیں۔ سوالوں کے جواب دینے کے لیے وزرا موجود نہیں ہوتے، پارلیمانی سیکرٹری کون ہے کسی کو علم نہیں، قانون سازی جس طرح ہورہی ہے اس کی کوئی مثال ہوگی تو پی ٹی آئی کے پاس ہی ہوگی۔
ایوان میں ارکان کے نام لینا غیر پارلیمانی طریقہ ہے مگر ہم تو گالی گلوچ بھی سن چکے ہیں۔ اگر جمہوریت پارلیمنٹ کی بے توقیری میں ہے تو پھر گلہ کیا ہوگا اور اگر ووٹ کو عزت دینی ہے تو حکومت کو وزرا، پارلیمانی سیکرٹری، افسران اور خود وزیرِاعظم کو آنا ہوگا بصورتِ دیگر ایوان تو بے توقیر ہو ہی رہا ہے، قوم بھی ہوگی اور مسلم لیگ نے جو فضا قائم کی تھی اس کا فائدہ عمران خان کو حاصل ہوگا۔
کبھی سنا نہیں تھا کہ ارکانِ اسمبلی کی لابی میں غیر ارکان جاکر محو گفتگو ہوں گے، مگر یہ بھی انہی دنوں ہورہا ہے۔ اتحادی حکومت کو اپنی اجتماعی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ ہی قومی مسائل کا حل نکال سکتی ہے اس لیے حکومت ووٹ کو عزت دے اور اپنے ارکان سے بھی عزت دلوائے.
بشکریہ ڈان نیوز اردو