سمندروں کے بدلتے رنگ کس بات کی نشاندھی کرتے ہیں؟

ویب ڈیسک

صدیوں سے ماہی گیر اور غوطہ خور سمندری پانی کے بدلتے رنگوں سے موسم اور طوفانوں کی پیش گوئیاں کرتے آئے ہیں۔ اب پہلی دفعہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سمندروں کے بدلتے رنگ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں

ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے اوشین ایکو سسٹم اور سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، جولائی کے اواخر میں رائل اینتھروپولوجیکل انسٹیٹیوٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا بھر میں سمندروں کے رنگوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو قرار دیا گیا ہے

جولائی 2023 میں رائل اینتھروپولوجیکل انسٹیٹیوٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کی مصنف کرسٹین مالون اینڈریوز کے مطابق سنہ 2015 میں وہ سائیراکوز یونیورسٹی نیویارک سے وابستہ تھیں۔ ایک تحقیق کے سلسلے میں انھیں ڈومینک ریپبلک میں پانی کے مسائل کا مشاہدہ کرنے اور کچھ عرصے قیام کا موقع ملا

اس دوران انھوں نے غوطہ خوروں کے استعارات سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ غوطہ خور عموماً کالے، زرد، نیلے، سبز، دھانی اور چاکلیٹی رنگوں کو مختلف حالات میں سمندر ی پانی کی حالت بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے

مالون اینڈریوز کے مطابق یہ بدلتے رنگ غوطہ خوروں کو پانی کی گہرائی، بہاؤ، تلاطم، طوفان کی آمد اور مچھلیوں کی موجودگی وغیرہ سے متعلق اہم معلومات دیتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں معلوم ہوا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سمندروں پر بھی پڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے ان کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے

یہی وہ معلومات تھی، جس سے مالون کو تحریک ملی اور انہوں نے ایک نئی تحقیق کا آغاز کیا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ آیا سمندروں کے بدلتے رنگ ماحولیاتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتے ہیں اور کیا ان کی بنیاد پر کوئی ایسا ماڈل تیار کیا جا سکتا ہے، جس کی مدد سے اوشین ایکو سسٹم کو بچانے کی کوشش کی جا سکے

مالون نے یہ آئیڈیا جب مانچیسٹر میٹرو پولیٹن یونیورسٹی میں شعبہ سوشل اینڈ کلچرل جیوگرافی سے وابستہ استاد ٹم ایڈنسر سے شیئر کیا تو ایڈنسر نے اس میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا

مالون اینڈریوز کے مطابق قوس و قزح کے سات رنگ ہماری زندگی اور ماحول کا ایک اہم حصہ ہیں، جو مختلف خطوں کے کلچر، سماجی و سیاسی زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور اینتھروپولوجسٹ کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے ہیں، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرت کے یہ رنگ کہیں پھیکے پڑنے لگے ہیں تو کئی جگہ ان میں بڑی تبدیلیاں نوٹ کی گئیں ہیں جن میں سمندر بھی شامل ہیں

مالون کے مطابق ان کی تحقیق مرکز وہ کمیونیٹیز تھیں، جن کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں اور خطرناک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سمندر کے رنگوں میں تبدیلیاں پریشان کن ہیں کیونکہ ان سے سمندری حیات اور ساحلوں کےقریب آبادیاں براہ راست متاثر ہو رہی ہیں

سمندروں کے بدلتے رنگ اور ماحولیاتی تبدیلیاں

کرسٹین مالون کے مطابق ڈومینیک ریپبلک میں ماہی گیر کافی عرصے سے سمندری پانی کے رنگ اور حالت میں تبدیلیاں نوٹ کر رہے ہیں۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے سمندر کا رنگ زردی مائل سفید ہوا ہے، جس کے باعث مچھلیاں اور دیگر آبی حیات گہرے پانی میں چلی گئی ہیں کیونکہ زرد رنگ ان کے لے مہلک ہے

کرسٹین مالون بتاتی ہیں ”اس سے پہلے سمندری طوفان کے بعد کچھ ہفتوں تک پانی کا رنگ چاکلیٹی براؤن رہا کرتا تھا مگر اب یہ دورانیہ بڑھ کر کئی ماہ ہوگیا ہے۔ ان رنگوں سے غوطہ خوروں کی بصارت اور جسمانی صحت دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“

مالون کے مطابق ماضی قریب میں پرپل یا ارغوانی رنگ کا مطلب شفاف سمندری پانی ہوا کرتا تھا مگر اب دنیا بھر میں پانی کا یہ رنگ بھی نایاب ہو چکا ہے

وہ مزید بتاتی ہیں کہ سمندری پانی کے ان بدلتے رنگوں کے تجز یئے سے سائنسدانوں اور محققین کو میرین ایکو سسٹم کے متعلق اہم معلومات ملی ہیں، جو مستقبل میں عالمی سطح پر نئی ماحولیاتی پالیسیاں بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوں گی۔

سٹیلائٹ تحقیق کے نتائج

کچھ عرصے قبل میسا چوسیٹس انسٹیٹیوٹ کے شعبۂ ایٹموسفیرک اینڈ پلینیٹری سائنسز کی اسی حوالے سے ایک تحقیق شائع ہوئی تھی، جس کے لئے ایکوا سٹیلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے مدد لی گئی تھی۔ سنہ 2002 میں لانچ کیا گیا یہ سٹیلائٹ گذشتہ 22 سال سے سمندر کے رنگوں اور حالت میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے

یہ سٹیلائٹ سمندری پانی کا ایک مکمل طیف یا سات رنگوں کی پٹی میں تجزیہ کرتا ہے ان رنگوں میں وہ مخصوص نیلی رنگت بھی شامل ہے جس میں سمندر عموماﹰ ہمیں نظر آتے ہیں

اس تحقیق کے مطابق دنیا بھرمیں 56 فیصد سمندروں کے رنگ تبدیل ہوچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر خط استوا کے قریب ٹراپیکل خطے میں ہیں، جہاں درجۂ حرارت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس ڈیٹا کے مزید تجز یے سے معلوم ہوا کہ رنگوں میں یہ واضح تغیرات ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہیں

اس تحقیق میں معاونت کرنی والی سائنسدان اسٹیفنی ڈٹ کیوی کہتی ہیں ”اب یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ ہمارے سمندر تبدیل ہو رہے ہیں اور ان کے رنگوں میں تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ سمندری فوڈ چین کی اکائی ’فائٹو پلانکٹن‘ کی کیمیونیٹیز انسانی سر گرمیوں سے شدید متاثر ہوئی ہیں

وہ کہتی ہیں ”یہ الارمنگ صورتحال ہے کیونکہ فائٹو پلانکٹن کے متاثر ہونے سے سمندروں کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت پر براہ رست اثر پڑا ہے۔ اگرچہ سمندر انسانی بقا کے لیے لازم ہیں مگریہ ایک ایسی تبدیلی ہے، جسے انسان کے لیے کسی بھی طرح ریورس کرنا ممکن نہیں ہوگا۔“

مذکورہ صورتحال کے پیش نظر پاکستان سے ملحقہ سمندر کی بھی جامع تحقیق کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان کی ساحلی پٹی بھی شدید آبی آلودگی اور دیگر مسائل کا شکار ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close