قطر: ’ورلڈ کپ کی تعمیرات میں کام کرنے والے مزدور قرضوں کی دلدل میں پھنس گئے‘

ویب ڈیسک

قطری فرمز پر ورلڈ کپ کی تعمیرات کے دوران ہلاک ہونے والے مزدوروں کے اہل خانہ کی تنگ دستی کا باعث بننے کا الزام لگایا گیا ہے

عرب نیوز نے دنیا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر سی) کی ایک رپورٹ کا حوالہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے ”آنے والے فٹبال ورلڈکپ کی میزبانی کے لیے قطر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد کرنے والے غیرملکی مزدور، ایجنٹوں کی طرف سے وصول کی جانے والی بہت زیادہ فیسوں کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں“

گزشتہ ایک سال میں غیر سرکاری تنظیم نے بنگلہ دیش، بھارت، کینیا اور نیپال سے تعلق رکھنے والے درجنوں غیرملکی مزدوروں کے انٹرویو کیے ہیں، جن میں ان سات افراد کے خاندان بھی شامل ہیں، جو اب مر چکے ہیں

بہت سے لوگوں نے بتایا ”انہیں قرض کے ایک ایسے جال میں پھنسایا گیا، جو جبری مشقت کی ایک شکل ہے، جسے بین الاقوامی قانون کے تحت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی ملازمتیں نہیں چھوڑ سکتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا“

بعض لوگوں کے مطابق: وہ اپنی تمام بچت سمیت اپنے خاندانی اثاثے بھی فروخت کر چکے ہیں تاکہ ایجنٹوں کے پیسے ادا کر سکیں

قطر میں مرنے والے بعض مزدوروں کے اہل خانہ نے کہا کہ انہیں مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے

نیپال سے تعلق رکھنے والے غیرملکی مزدور، جو اس سال کے آغاز میں قطر میں مر گئے تھے، کے والد بولانی سہانی نے کہا کہ ان کے بیٹے کے قرضوں کی وجہ سے انہیں اپنے پوتے پوتیوں کی پرورش میں مشکلات پیش آ رہی ہیں

انہوں نے بتایا ”میرا بیٹا گاؤں والوں سے گیارہ سو ڈالر قرض لے کر قطر گیا تھا۔ اب ہر کوئی اپنی رقم کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اپنے بیٹے کی موت کا معاوضہ مل گیا ہے‘ لیکن مجھے ایک روپیہ بھی نہیں ملا“

انہوں نے مزید کہا ”میں کیسے انہیں قرض ادا کروں گا؟ میرے پاس تو زمین بھی نہیں، جسے بیچ کر میں ان کے پیسے ادا کر دوں“

کئی تحقیقات، جن میں قطر کی سپریم کمیٹی برائے ڈیلیوری اور لیگیسی جو ورلڈکپ کی میزبانی کے لیے درکار انفراسٹرکچر بنانے کا ذمہ دار ادارہ ہے، کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھرتی کے لیے فیسوں کی ادائیگیوں میں اگر سال نہیں تو مہینے لگ جاتے ہیں

ہیومن رائٹس واچ نے ایسے دس افراد، جنہوں نے اپنے قرضے ادا کیے تھے، کے انٹرویو کیے تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنے پیسے ملنے میں چار ماہ سے دو سال کے درمیان تک کا وقت لگا

اگرچہ بہت زیادہ فیس کا مسئلہ مزدوروں کے آبائی ممالک میں کمپنیوں کے ساتھ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطر میں مقیم کاروباری افراد اس میں ملوث تھے کیونکہ انہوں نے بھرتی کرنے والوں پر اخراجات عائد کیے تھے، جو انہیں معلوم تھا کہ مزدوروں کو منتقل کیے جائیں گے

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فٹبال کی گورننگ باڈی فیفا اور قطری حکام نے تارکین وطن مزدوروں کے ساتھ سنگین زیادتیوں کے لیے ابھی تک معاوضہ فنڈ قائم کرنے کا بھی عزم نہیں کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close