ایران آوارگی (قسط-8)

گل حسن کلمتی

ہم نے لاشار کے دوستوں کو الوداع کہا اور مشہد جانے والی بس میں بیٹھ گئے۔ اب ہمارے دو سالار تھے: ڈاکٹر مبارک اور میر نواب بلوچ۔ ڈاکٹر مبارک ہمارے گائیڈ اور میر نواب پر پورے سفر کی ذمیداریاں تھیں۔ حساب کتاب، سواری اور ہوٹل کا بندوبست کرنا ان کے ذمے تھا۔

ایرانشہر کا خوبصورت، مسافروں کے لیے ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ سینٹرل اے۔سی بس اسٹینڈ، شہر سے باھر ہے۔

میں نے اور ڈاکٹر مبارک بلوچ نے یہ ذمیداری لی کہ سفر کی روداد کو قلمبند کیا جائے۔ علاقوں کے بارے معلومات لینا اور دوستوں میں شیئر کرنا۔۔ ڈاکٹر یاسین نے فوٹوگرافی میں میری مدد کی۔

بس میں، مَیں اور ڈاکٹر مبارک ساتھ بیٹھتے تھے ۔ ہماری نظر کھڑکی پر ہوتی تھی، شہر کے نام کے بورڈ اور سنگ میل نوٹ کرتے رہے ۔ ہر گھنٹے بعد میر نواب کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتا تھا۔ سفر میں ہم نے طے کیا تھا کہ کم سے کم کھانا ہے، تو یہ بات گل محمد جدگال کے پلے نہیں پڑتی تھی، اسے بھوک کچھ زیادہ ہی لگتی تھی ، جس کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بہت ہی ’پریشان ہوا‘ تو ہمیں لڑ کر بس رکوانی پڑی۔ اس کے بعد گل محمد نے بہت ہی احتیاط سے کام لیا۔

ہم بمپور اور ایران شہر چھوڑ چکے تو ہر طرف خشک پہاڑوں کے درمیان کجھور کے باغات ، ندی میں بہتا پانی اور مٹی کے بنے بلوچوں کے خوبصورت گھر تھے ۔

میں 2003 میں پھرا، جسے اب ایرانشہر کہتے ہیں، آیا تھا۔ اس وقت ہم وھاب کلکلی کے مہمان تھے۔ کلکلی رندوں کی ایک شاخ ہے، ایرانشہر جو سیستان و بلوچستان اوستان (صوبے) کا ایک شہرستان (ضلع) ہے، جس کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں میڈیکل یونیورسٹی بھی یے، قلعہ بھی ہے، جو اب شہر کی بیچ میں اچھی حالت میں یے۔

اس کے ساتھ بمپور ہے، جس کا ذکر میں کر آیا ہوں۔ بمپور قدیم زمانوں سے مغربی بلوچستان کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے۔ فارس میں صفوی عہد سے پہلے اور پہلوی عہد تک یہاں کے بلوچ ہمیشہ اپنے وطن کے دفاع کے لیے برسر پیکار رہے ہیں۔ فارس کی جانب سے یہاں فوج کشی بہت پرانی ہے۔

عیسیٰ خان بلوچ اپنی کتاب ’بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں‘ میں لکھتے ہیں: ”1834ع میں بمپور کے جنگجو بلوچ حکمران کو شکست دینے کے بعد اس علاقے پر فارس نے قبضہ کر لیا۔ 1840ع کی دہائی میں کرمان کے طاقتور گورنر امام آغا خان محلاتی کو شکست دی، اس کے بعد گیھ، کسر قند کے خودمختار بلوچ علاقے اسی دھائی میں بزور طاقت فارس میں شامل کئے گئے۔ بمپور کے نئے گورنر ابرہیم خان سرہنگ نے گیھ، کسر قند، دیزک، باہو کلات، سرباز کے علاقوں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کر لیا۔بمپور کے حاکم صدیوں سے آزاد اور خودمختار حکمران کی حیثیت سے رہتے آئے ہیں۔ ان کی آزادی ختم کرنے کی پہلی کوشش کی گئی۔ اس فوج کشی کی قیادت ابرہیم سرہنگ جیسے ایک ظالم شخص نے کی، جسے بعد میں فارس کے جانب سے بمپور کا گورنر بنایا گیا“

وہ مزید لکھتے ہیں ”لوگوں نے بغاوت کی تو لوگوں کی زمینیں اور جائیدادیں ضبط کی گئی ،ان کی حاکمیت بھی چھین لی گئی۔ فارس کی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بمپور سمیت بہت سے علاقوں کو بلوچوں نے آزاد کروا لیا۔ 1849ع میں فارس نے دوبارہ بمپور پر قبضہ کیا“

عیسیٰ خان بلوچ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”1834ع سے 1938ع تک مغربی بلوچستان کی آزاد خودمختار ریاستوں پر فارسی قاچار (قاجار) حکمرانوں اور ایران کے پہلوی خاندان کے بادشاہوں کے یہ جارحانہ حملے جاری ریے“

اس قاجار کے وجہ سے بلوچ فارسیوں کو گجر کہتے ہیں، جو ’قاچار‘ اس کے بعد ’قاجار‘ بنا، بلوچوں نے ’قاجار‘ کو بگاڑ کر ’گَجر‘ کر دیا۔ اب ہر فارسی بلوچوں کے ہاں ’گجر‘ کہلاتا ہے۔
فارس کے بلوچ تو صدیوں سے ان علاقوں میں رہتے آرہے ہیں۔فردوسی شاہنامہ میں انہیں کیخسرو (558-530 ق۔م) کی افواج میں شامل بتاتا یے۔ وہ کوچ اور بلوچ دونوں کا ذکر کرتا ہے۔
گستاشم، اشکال بعد میں نوشیروان کے دور میں یہاں بلوچ طاقتور تھے، نوشیروان کی لشکر کشی میں کئی بلوچ مارے گئے۔

فردوسی کے شاہنامہ کے اشعار کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

”دورانِ سفر شہنشاہ کو اطلاع ملی کی بلوچوں نے دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے قتل و غارت اور تخت و تاراج ،کشت و خون نے کرہ ارض کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ غم میں ڈوب گیا“

اور پھر فردوسی کے شاہنامہ میں ہے کہ نوشیروان کی سپاہ نے ان کو ایسا سبق دیا کہ ”بلوچ شاذو نادر ہی بچ سکے، سب کے سب تلواروں کی نذر ہوگئے“

کچھ عرصہ بعد بلوچ کرمان کے پہاڑوں میں بھی نظر آتے ہیں اور آگے چل کر بلوچ نوشیروان کی فوج میں نظر آتے ہیں۔ فردوسی میں نوشیروان کے فوج کشی کے وقت صرف بلوچ کا ذکر ملتا ہے، کوچ کا نہیں۔

(جاری ہے)



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close