رشی سوناک کا شمار برطانیہ کے امیر ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک بھارتی نژاد ڈاکٹر اور فارماسسٹ کے بیٹے ہیں، جو ساؤتھمپٹن، ہیمپشائر میں پیدا ہوئے اور برطانیہ کے اعلیٰ بورڈنگ اسکولوں میں سے ایک میں تعلیم پائی
سیاست میں آنے سے پہلے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور گولڈمین ساکس نامی کمپنی کے لیے کام کیا
سابق برطانوی وزیر خزانہ دو ماہ کے اندر ملک کے تیسرے وزیر اعظم بنیں گے۔ واحد حریف امیدوار پینی مورڈانٹ کے دستبردار ہونے کے بعد برطانیہ کی حکمراں کنزرویٹو پارٹی نے رشی سوناک کو نیا رہنما نامزد کر دیا ہے
اس طرح بھارتی نژاد رشی سونک آج برطانیہ کے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ ان کے حلف لینے سے پہلے ہی بھارتی شہریوں نے ان سے اپنا تعلق جوڑنا شروع کر دیا ہے، لیکن شاید بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ نئے برطانوی وزیراعظم کی جڑیں کہیں نہ کہیں پاکستان میں بھی موجود ہیں
رشی سونک جمعے کی رات تک تقریباً دو سو عوامی نامزدگیاں اکٹھی کرنے کے بعد برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے واحد امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں
بیالیس سالہ سیاستدان گزشتہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے برطانیہ کے سب سے کم عمر کے وزیر اعظم ہوں گے۔ وہ ملک کے پہلے غیر سفید فام رہنما اور وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے ہندو اور پہلے ایشیائی ہوں گے
رشی سونک کے آبا و اجداد تقسیم ہند سے قبل کینیا منتقل ہو گئے تھے، جہاں سے پھر وہ برطانیہ آئے۔ وہ ایک امیر ہندو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اہلیہ اکشتا مورتی بھارت کی معروف کاروباری شخصیت نرایان مورتی کی بیٹی ہیں
لیکن پاکستانیوں کے لیے یہ بات دلچسپ ہوگی کہ رشی سونک کے آبا و اجداد کا تعلق تقسیم ہند سے پہلے گجرانوالہ سے تھا
رشی سونک اگرچہ خود تو انگلینڈ کے شہر ساؤتھ ہیمپٹن میں پیدا ہوئے لیکن بھارتی اور برطانوی میڈیا کے مطابق ان کے دادا رام داس سونک کا تعلق تقسیم ہند سے پہلے گجرانوالہ سے تھا، جبکہ رشی سونک کی دادی سوہاگ رانی سونک نئی دہلی سے تعلق رکھتی تھیں
رام داس سونک 1935ع میں گجرانوالہ سے کینیا کے دارالحکومت نیروبی گئے، جہاں انہوں نے کلرک کی حیثیت سے برطانوی راج کی خدمت کی
بھارتی نیوز چینل اے بی پی کے مطابق رشی سونک کے دادا کا تعلق ’اونچی ذات‘ کے ہندو خاندان سے تھا، جنہیں 1930ع میں مذہبی فسادات کے دوران اپنے خاندان کی حفاظت کی غرض سے اثاثے و جائیداد گجرانوالہ میں چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی
گجرانوالہ پاکستانی صوبے پنجاب کے اہم شہروں اور اضلاع میں سے ایک ہے۔ عام طور پر اسے ’پہلوانوں کے شہر‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
اے بی پی کے مطابق رام داس سونک تو گجرانوالہ سے کینیا چلے گئے، جبکہ ان کی اہلیہ پہلے نئی دہلی گئیں اور دو سال بعد یعنی 1937 میں وہ بھی کینیا منتقل ہوگئیں
رام داس اور سوہاگ رانی کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں
رشی سونک کے والد یش ویر سونک کی پیدائش 1949 میں کینیا کے شہر نیروبی میں ہوئی اور 1966 میں وہ انگلینڈ کے شہر لیورپول منتقل ہو گئے۔ 1977 میں انہوں نے اوشا نامی خاتون سے شادی کی اور 1980 میں ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام رشی رکھا گیا
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق رام داس سونک نے 1971 میں ساؤتھ ہیمپٹن میں ایک مندر بھی قائم کیا تھا اور رشی سونک اب بھی اس مندر میں جاتے ہیں
رشی سونک کا شمار آج بھی انگلینڈ کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ وہ انگلینڈ کے امیر ترین وزرائے اعظم میں سے ایک ہیں اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ برطانیہ کے شاہی خاندان سے بھی زیادہ امیر ہیں
رشی سونک کے اثاثوں کی مالیت 83 کروڑ ڈالر (181 ارب پاکستانی روپے) کے قریب بتائی جاتی ہے جب کہ آنجہانی ملکہ الزبتھ دوئم کے اثاثوں کی مالیت 42 کروڑ ڈالر (91 ارب پاکستانی روپے) تھی
رشی سونک کی دو بیٹیاں ہیں۔ کرشنا اور انوشکا
رشی سونک اپنے بھارتی نژاد ہونے کے بارے میں عوامی سطح پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر گائے کے گوشت کی ممانعت کی بات بھی کی ہے
2020ع میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا تھا ’میں مکمل طور پر برطانوی ہوں، یہ میرا گھر اور میرا ملک ہے، لیکن میرا ثقافتی ورثہ بھارتی ہے۔‘
پیر کے روز ایک مختصر سے بیان میں رشی سوناک نے سبکدوش ہونے والی وزیر اعظم لز ٹرس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ”انہوں نے ‘غیر معمولی مشکل حالات’ سے نمٹے کی کوشش کی“ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ملک کے بہت مقروض ہیں اور وہ اسے کچھ واپس کرنا چاہتے ہیں
لز ٹرس کی ناکامی کے بعد سوناک کی کامیابی
سبکدوش ہونے والی برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس نے محض چھ ہفتے تک عہدے پر رہنے کے بعد ہی گزشتہ جمعرات کے روز اپنا استعفیٰ دے دیا تھا۔ مہینوں کے اسکینڈلز اور مارکیٹ میں ہنگامہ آرائی کے بعد جب ٹرس نے استعفیٰ سونپا، تو نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی پھر سے مہم شروع ہوئی۔ یہ پہلے سے ہی توقع کی جا رہی تھی کہ اس بار اس مقابلے میں سوناک کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ جب سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اس دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تو، اس مقابلے میں صرف وہ اور دارالعوام کی رہنما پینی مورڈانٹ ہی میدان میں باقی بچے تھے
ماہ ستمبر میں اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن کے زوال کے بعد جب وزارت عظمی کے عہدے کے لیے دوڑ شروع ہوئی تھی، تو اس وقت بھی سوناک نے کوشش کی تھی تاہم انہیں لز ٹرس کے ہاتھوں شکست ہو گئی تھی
سوناک نے پچھلی مہم کے دوران خبردار کیا تھا کہ ان کی حریف لز ٹرس کے معاشی منصوبوں کے نفاذ سے ملک مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے اور ان کی یہ بات تقریباً صحیح ثابت ہوئی۔ لیکن بطور وزیر خزانہ خود سوناک نے بھی ایسی ہی پالیسیاں اپنائی تھیں کہ دہائیوں میں پہلی بار ملک کو ٹیکس کے سب سے بڑے بوجھ کی راہ پر گامزن کر دیا۔ وہی فروری 2020 اور جولائی 2022 کے درمیان وزیر خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے تھے
انہوں نے ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی حمایت کی تھی، تاہم یہ بھی کہا تھا کہ جب مہنگائی کو قابو میں کر لیا جائے گا تبھی وہ اسے دوبارہ نافذ کریں گے۔ رواں برس کے آغاز میں اس انکشاف کے بعد وہ کافی دباؤ میں تھے کہ ان کی اہلیہ اکشتا مورتی نے اپنی بیرون ملک کی آمدن پر ٹیکس نہیں ادا کیا
لوگوں کا رد عمل
سبکدوش ہونے والی برطانوی وزیر اعظم ٹرس نے سوناک کو ان کی تقرری پر مبارکباد پیش کی اور ان کی حمایت کا بھی وعدہ کیا۔ کنزرویٹو پارٹی کے چیئرمین نے بھی ”پوری پارٹی” سے سوناک کے پیچھے متحد ہونے کا مطالبہ کیا
جیک بیری نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”اب وقت آ گیا ہے کہ پوری پارٹی اکٹھی ہو جائے اور چہار جانب سے رشی کے پیچھے کھڑی ہو، کیونکہ ایک ملک کے طور پر ہمیں جو چیلنجز در پیش ہیں اس سے نمٹنے کی انہیں ذمہ داری مل رہی ہے۔”
اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ وزیر نکولا اسٹرجن نے سوناک سے عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا، حالانکہ پہلے وہ اس کو مسترد کرتی رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا، ”اسکاٹ لینڈ کے لیے بھی، بلاشبہ، وہ وزیر اعظم بنتے ہیں، ہم نے تو نہیں کیا اور بلا شبہ موقع ملنے پر بھی ہم انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ یہاں کوئی مینڈیٹ نہ رکھنے والی ویسٹ منسٹر کی حکومتوں کے نقصان سے بچنے کے لیے، اور اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے، اسکاٹ لینڈ کو آزادی کی ضرورت ہے۔”