لمپی اسکن ڈزیز: بھارت کو افواہوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا

ویب ڈیسک

پڑوسی ملک بھارت میں مویشیوں کو متاثر کرنے والی وائرل بیماری ’لمپی اسکن ڈزیز‘ (گلٹی دار کھال کے مرض) کے بارے میں سوشل میڈیا غلط معلومات پر مبنی پوسٹ کی بھرمار کے بعد افواہوں کا بازار گرم ہو گیا ہے

حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ’لمپی اسکن ڈزیز‘ پہلے ہی چوبیس لاکھ سے زیادہ جانوروں کو متاثر کر چکی ہے اور ملک میں ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ مویشیوں کو ہلاک کر چکی ہے

واضح رہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس میں دنیا کی سب سے بڑی مویشیوں کی آبادی ہے لیکن حال ہی میں پھیلنے والی متعدی بیماری کی وجہ سے ملک بھر کے کسانوں کی روزی روٹی خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے، جس میں خاص کردار اس بیماری کے بارے میں گمراہ کن افواہوں کا ہے

اس دوران غلط معلومات نے کچھ لوگوں کو دودھ پینے سے روک دیا ہے

کیا متاثرہ مویشیوں کا دودھ انسانی استعمال کے لیے محفوظ ہے؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بہت سی پوسٹس میں صارفین کی جانب سے جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے کہ جلد کی گلٹی والی بیماری پھیلنے کی وجہ سے متاثرہ گائے اور بھینس کا دودھ انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ ہو گیا ہے اور متاثرہ جانور کا دودھ پینے سے انسانوں میں بھی جلد کی بیماری پیدا ہو سکتی ہے

ان پوسٹس کے ساتھ اکثر انسانی لاشوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں، جو مبینہ طور پر اس بیماری سے پیدا ہونے والے زخموں سے اٹی ہوئی تھیں۔ ایسی تصویروں کا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا ہے

بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ کے کسانوں کی چھ ہزار ڈیریوں کی ایسوسی ایشن کی جنرل سکریٹری پورس مہلا بتاتی ہیں ”میں نے ڈیری انڈسٹری کے سوشل میڈیا گروپس میں ایسے بہت سے دعوے دیکھے ہیں۔ جو لوگ ایسی افواہیں پھیلاتے ہیں ایسے لوگ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں- وہ اسے اس طرح شیئر کرتے ہیں، جیسے کہ یہ معلومات صرف ان کے پاس ہیں“

بھارتی ریاست راجستھان ایک ڈیری فارمر اور مویشیوں کی پناہ گاہ کی مینیجر مانو ویاس کہتی ہیں ”جھوٹے دعوے کی وجہ سے ڈیری صنعت سے وابستہ کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر اس دعوے کو دیکھا اور یہاں تک سنا کہ کچھ لوگ جو اس پر یقین رکھتے ہیں، وہ گائے کے دودھ کو پھینک رہے ہیں“

ڈیری فارمرز جو پہلے سے ہی مویشیوں کو جلد کی گلٹی کی بیماری میں کھونے کے بعد معاشی دباؤ کا شکار ہیں، اب ان لوگوں کی طرف سے ایسی افواہوں کی وجہ سے ایک اضافی نقصان کے بوجھ کا سامنا کر رہے ہیں جو دودھ خریدنے سے انکار کر رہے ہیں

گوگل ٹرینڈز کے ڈیٹا کے مطابق ’پچھلے تیس دن میں کیا ہم جلد کی بیماری والی گائے کا دودھ پی سکتے ہیں‘ کے سوال کی تلاش کے لیے پانچ ہزار فی صد سے زیادہ پوسٹوں کا اضافہ ہوا

حقیقت میں، گلٹی والی جلد کی بیماری کوئی ’زونوٹک‘ بیماری نہیں۔ یعنی یہ چھوت کی ایسی بیماری نہیں، جو قدرتی طور پر جانوروں سے انسانوں کو لگ سکتی ہو

2017ع کی ایک رپورٹ میں، اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (FAO) نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جلد کی گلٹی کی بیماری انسانوں کو متاثر نہیں کرتی ہے

اس کی تصدیق حکومت کے انڈین ویٹرنری ریسرچ انسٹیٹیوٹ (IVRI) نے بھی کی ہے۔ آئی وی آر آئی کے جوائنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کے پی سنگھ کہتے ہیں ”آج تک اس بیماری کے کسی جانور سے انسانوں میں منتقل ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، تاہم دودھ پلانے والے بچھڑے کو متاثرہ گائے کے دودھ سے انفیکشن ہو سکتا ہے“

ڈاکٹر سنگھ کے مطابق، جہاں تک زخموں سے اٹی ہوئی انسانی لاشوں کی تصویروں کا تعلق ہے، جو عام طور پر جھوٹی پوسٹس کے ساتھ بھیجی جاتی ہیں، تو نمونے اکٹھے کرکے اور انہیں ریسرچ لیبارٹری بھیج کر بیماری کی درست شناخت کی جا سکتی ہے

انہوں نے کہا ”ہم علامات یا زخموں کی بنیاد پر بیماری کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں، جن کی علامات ایک دوسرے ملتی جلتی ہیں“

کیا یہ وائرس پاکستان سے انڈیا میں داخل ہوا؟

گلٹی والی جلد کی بیماری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ جھوٹا دعویٰ بھی شامل ہے کہ گلٹی کی جلد کی بیماری کا وائرس پاکستان سے بھارت میں داخل ہوا ہے، اور یہ ان کی گائیوں کے خلاف پاکستانی سازش کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی گائے کو مقدس جانور تصور کرتی ہے

درحقیقت گلٹی والی جلد کی بیماری پہلی بار 1929ع میں زیمبیا میں شروع ہوئی تھی۔ کچھ عرصے تک یہ سب صحارا افریقہ میں مقامی سطح پر پھیلی، لیکن اس کے بعد سے یہ شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ، یورپ اور ایشیا کے ممالک میں پھیل چکی ہے

خوراک کے عالمی ادارے ’ایف اے او‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا میں یہ بیماری پہلی بار جولائی 2019ع میں بنگلہ دیش، چین اور بھارت میں دیکھی گئی۔ جس وقت ادارۂ خوراک کی یہ رپورٹ 2020ع میں شائع ہوئی تھی، اس وقت تک پاکستان میں اس بیماری کا کوئی کیس نہیں مل سکا تھا- اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس بیماری کے پاکستان میں کسی واقعہ کے پتہ چلنے سے پہلے اس کے واقعات بھارت میں دیکھے گئے تھے۔ اور یہ دعویٰ کہ یہ بیماری پاکستان سے پھیلی تھی، قطعی جھوٹ پر مبنی ہے

اس کی مزید تصدیق آئی وی آر آئی کے جوائنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کے پی سنگھ نے کی۔ وہ کہتے ہیں ”سرحد پر جانوروں کی قدرتی نقل و حرکت اور سرحد پار آنے جانے کی وجہ سے یہ بیماری بنگلہ دیش سے بھارت میں داخل ہوئی، پاکستان سے نہیں۔ بنگلہ دیش میں کیسز بھارت میں کیسز کی نسبت پہلے رپورٹ ہوئے تھے۔ پاکستان میں یہ کیسز بھارت کے بعد رپورٹ ہوئے تھے“

اینٹی ویکسین کے دعوے غلط معلومات میں اضافہ کرتے ہیں

گلٹی والی جلد کی بیماری کے بارے میں غلط معلومات کو سوشل میڈیا پر ویکسین مخالف سازشوں کے ساتھ بھی ملایا جا رہا ہے

ڈمپنگ گراؤنڈ میں مویشیوں کی لاشوں کے پھینکے جانے کی ایک وڈیو بھارت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہزاروں مویشی ’بھارتی حکومت کی طرف سے ویکسین دیے جانے کے بعد اچانک مرنا شروع ہو گئے‘ ان دعوؤں کے ہزاروں ری ٹویٹس ہیں اور یہ ایک لاکھ سے زیادہ بار دیکھے جا چکے ہیں

اگرچہ یہ وڈیو اصلی ہے، لیکن اس کے ساتھ دیا گیا دعویٰ کہ مویشی ویکسین لگوانے کے بعد مر رہے ہیں، غلط ہے۔ ایف اے او (FAO) کے مطابق، بڑے پیمانے پر ویکسینیشن جلد کی گلٹی کی بیماری کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے

مویشیوں کی ویکسینیشن کا پروگرام فی الحال انڈیا بھر کی کئی ریاستوں میں جاری ہے اور بکرے کی بیماری کی ویکسین (goat pox vaccine) فی الحال استعمال کی جا رہی ہے کیونکہ یہ گلٹی والی جلد کی بیماری سے تحفظ فراہم کرتی ہے

بھارتی محققین نے جلد کی گلٹی کی بیماری کے خلاف ایک ویکسین بھی تیار کی ہے، جس پر وہ 2019ع میں بھارت میں پہلی بار اس وائرس کا پتا چلنے کے بعد سے کام کر رہے ہیں۔ یہ ویکسین ابھی تجارتی طور پر دستیاب نہیں ہو رہی ہے

بھارت بھر میں لاکھوں جانوروں کو پہلے ہی ٹیکے لگائے جا چکے ہیں

ڈاکٹر کے پی سنگھ نے بتایا ”فی الحال دستیاب واحد حل بکرے کی بیماری کی ویکسین (goat pox vaccine) ہے۔ یہ ایک بہت اچھی ویکسین ہے اور بغیر کسی ضمنی اثرات کے 70 فیصد سے 80 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ہم فیلڈ میں ان اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ہمیں مثبت رائے مل رہی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close