گزشتہ روز کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مچھر کالونی میں اغوا کے خوف پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے دو ٹیلی کام ملازمین کے قتل میں گرفتار چار ملزمان کو تحقیقات کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا
ڈاکس پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہجوم نے انجینئر ایمن جاوید اور ڈرائیور محمد اسحٰق کو مار مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ان کی گاڑی کو جلا دیا تھا
پولیس نے محمد فاروق، رب الاسلام، فیصل اور عبدالغفور کے علاوہ دیگر گیارہ افراد کو اقدام قتل، جان بوجھ کر آگ لگانا، تشدد اور دہشت گردی پھیلانے کے مقدمے میں گرفتار کر رکھا ہے
گزشتہ روز تفتیشی افسر نے انہیں انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا اور پوچھ گچھ اور تحقیقات کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی
تفتیشی افسر انسپکٹر نثار سومرو نے عدالت کو بتایا کہ افسوسناک واقعے کی شام کو دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، ان کی شناخت وڈیو فوٹیجز اور عینی شاہدین کی مدد سے کی گئی تھی
انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں مزید دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا
تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ تمام مشتبہ افراد نے ابتدائی تفتیش کے دوران واقعے میں ملوث ہونے، لوگوں کو اکسانے اور متاثرین کو تشدد کرنے میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے، متاثرین ٹی سی ایف اسکول کے قریب ویران علاقے میں موبائل فون ٹاور کے اینٹینا کا معائنہ اور اس کو درست کرنے جارہے تھے
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ تقریباً پانچ سو سے چھ سو لوگ جمع ہو گئے کیونکہ گرفتار ملزمان نے لوگوں کو اکسایا تھا اور یہ افواہ پھیلائی تھی کہ متاثرین بچوں کے اغوا کے ارادے سے علاقے میں آئے ہیں
انسپکٹر نثار سومرو نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے ایمن جاوید اور محمد اسحق پر شدید جسمانی تشدد کیا، جس کے بعد وہ جاں بحق ہو گئے تھے
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش مکمل کرنے کے لیے اور مقدمے میں نامزد دیگر مشتبہ افراد کو پکڑنے کے لیے ملزمان کو زیر حراست رکھنے کی ضرورت ہے، جو مبینہ طور پر گرفتاری سے بچنے کے لیے چھپ گئے ہیں، ان میں محمد حسنین، عثمان، مالک، رحمت، مصطفیٰ، رشید بنگالی، نور افسر، عرفان، شہزاد، رزاق عرف کالو اور محمد رفیق عرف فاروق شامل ہیں
لہٰذا تفتیشی افسر نے جج سے درخواست کی کہ ملزمان کو چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا جائے تاکہ تفتیش اور دیگر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے
تاہم جج نے ایک ہفتے کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمان کو پولیس کے حوالے کر دیا، عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت دیں کہ انہیں اگلی تاریخ پر تفتیشی رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جائے
مقتول محمد اسحٰق کے انکل محمد یعقوب کی شکایت پر ڈاکس پولیس اسٹیشن میں دو سو سے ڈھائی سو افراد کے خلاف مقدمہ درجہ کیا گیا ہے، اس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (اقدام قتل)، دفعہ 147 (فساد کی سزا)، دفعہ 148 (فساد، مہلک ہتھیاروں سے لیس)، دفعہ 149 (ایک ہی جرم کے لیے غیر قانونی طور پر جمع ہر شخص قصوروار)، دفعہ 427 (شرارت جس سے 50 روپے کا نقصان ہونا)، دفعہ 435 (شرارت کرکے 100 روپے کے نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ لگانا)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کرنے کی سزا) شامل کی گئی ہیں
دوسری جانب مقتولین کے لواحقین کے لیے حکومتِ سندھ نے پچاس لاکھ روپے امداد کا اعلان کرتے ہوئے اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دے دی ہے
وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا، اجلاس میں انہیں گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعے پر بریفنگ دی گئی
واضح رہے کہ 28 اکتوبر کو کچھ شرپسندوں نے یہ افواہ پھیلائی تھی کہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے کے ارادے سے علاقے میں گھوم رہے ہیں، جس کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے دو افراد کو مار مار کر ہلاک کر دیا اور ان کی گاڑی کو بھی نذر آتش کر دیا
سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) غلام نبی میمن نے اجلاس کو بتایا کہ جاں بحق ہونے والے افراد کی شناخت ٹھٹہ کے رہائشی ایمن جاوید اور نوشہرہ فیروز کے اسحٰق مہر کے نام سے ہوئی ہے
آئی جی کی بریفنگ کے بعد وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس قسم کے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، قاتلوں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، مچھر کالونی کا واقعہ اور ہجوم کے ہاتھوں دیگر انفرادی لوگوں کا قتل عوام پر پولیس کے اعتماد کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے
وزیراعلیٰ نے زور دیا کہ ہمیں قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پولیس پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور ہجوم کی جانب سے اس قسم کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جا سکے
اس حوالے سے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں سندھ کے وزیر برائے توانائی امتیاز شیخ، کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب، وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی صادق علی میمن، آئی جی سندھ اور سیکریٹری برائے داخلہ شامل ہیں، ان سے اس معاملے پر تجاویز جمع کروانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
دوسری جانب تشکیل کردہ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کیا اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ‘موب منیجمنٹ پولیس فورس’ (ہجوم کو سنبھالنے کے لیے پولیس فورس) کا قیام عمل میں لانا چاہیے یا نہیں۔
واقعے کا پسِ منظر
خیال رہے کہ 28 اکتوبر کو کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں عوام نے تشدد کرکے موبائل نیٹ ورک کمپنی کے 2 ملازمین کو ہلاک کردیا تھا جن کے بارے میں افواہ پھیلی تھی کہ وہ اغوا کار ہیں
کیماڑی کے سینئر سپرنٹڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) فدا حسین جانوری نے بتایا تھا کہ مقتولین بظاہر اینٹینا اور سگنل چیک کرنے کے لیے مچھر کالونی گئے تھے
ایس ایس پی نے بتایا تھا کہ وہ علاقے میں اپنی گاڑیوں پر جارہے تھے، ان کے پاس مختلف ڈیوائسز تھیں، کچھ شرپسند عناصر نے افواہ پھیلائی کہ یہ اغوا کار ہیں اور بچوں کو اغوا کرنے کے لیے علاقے میں ڈیوائسز کے ساتھ گھوم رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں علاقے میں تقریباً 500 سے 600 لوگ جمع ہوگئے اور انہیں پتھروں اور دیگر سخت چیزوں سے مارنا شروع کردیا
ایس ایس پی فدا حسین جانوری نے بتایا کہ پولیس ٹیم پہلے ہی علاقے میں موجود تھی اور پولیو ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کر رہی تھی، وہ واقعے کی اطلاع ملنے کے 10 سے 15 منٹ میں موقع پر پہنچ گئی
انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی، تاہم دو افراد شدید زخمی ہونے کے بعد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے
ایس ایس پی نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی جائے گی اور عینی شاہدین کی مدد سے ان کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی
دوسری طرف پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) جنوبی عرفان علی بلوچ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کیماڑی کے ایس ایس پی کو ہدایات جاری کیں کہ وہ خود اس معاملے کی انکوائری کریں
بیان میں بتایا گیا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد موبائل فون کمپنی کے ملازمین تھے
بعد ازاں پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے پوسٹ مارٹم کے بعد بتایا کہ پولیس کی جانب سے دو افراد کی لاشیں سول ہسپتال منتقل کی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب لاشیں ہسپتال لائی گئیں تو ان کے جسم پر شدید زخم تھے اور وہ ہلاک ہو چکے تھے، ان کے سر پر متعدد فریکچر تھے
ڈاکٹر سمعیہ سید نے کہا کہ ان کے پورے جسم پر شدید اور مختلف سائز کے متعدد زخموں کے نشانات تھے۔ ان کے چہروں پر زخموں کے نشانات تھے اور وہ سوجے ہوئے تھے۔