ست رنگے پرندے کے تعاقب میں (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

ناشتہ کرتے ہوئے اچانک ہی خیال آیا کہ پچھلے ٹیرس پر پڑی چارپائی کو بنوانا چاہیے۔ محلے والے گھر سے اس نئے گھر میں منتقل ہوتے ہوئے اپنا بہت سا پرانا سامان وہیں بانٹ بونٹ آئے تھے۔ بس یہ ایک چارپائی کسی طرح ساتھ آ گئی۔ کچھ عرصہ پچھلے ٹیرس پر دھوپ میں بیٹھنے کے کام آئی۔ پھر زندگی کی مصروفیات بڑھیں تو دھوپ میں بیٹھنا بھی کبھی کبھار ہو گیا۔

چارپائی نواڑ کی بنی ہوتی تھی، بارشوں اور دھوپوں میں نواڑ گَل گئی۔ جگہ جگہ سے گل کر نواڑ کی پٹیاں لٹکے لگیں۔ ایک دن اس کے بڑے بیٹے نے نواڑ کھول کر چارپائی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا، پھر برسوں وہ اسی طرح پڑی رہی۔ کبھی کبھی کوئی پچھلے ٹیرس کی طرف جاتا تو خیال آتا کہ اب کوئی پرانی چیزیں لینے آیا تو اسے بیچ دیں گے، پھر بات بھول جاتی۔ کسی کوخیال نہ آتا کہ اسے بنوا لیا جائے۔ اس کا کوئی استعمال ہی نہ تھا۔ ہر کمرے میں نئی طرز کے بیڈ تھے اور چارپائی رکھنے کی کہیں جگہ بھی نہ تھی لیکن اس صبح ناشتہ کرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ چارپائی بنوا لینی چاہیے۔ سردیاں آ رہی ہیں۔ دھوپ میں بیٹھنے کے کام آئے گی۔ زیادہ نہ سہی چھٹی والے دن تو بیٹھ ہی سکتے ہیں۔ دھوپ میں بیٹھ کر کھانا کھانے کا کتنا مزہ ہے۔ پرانے گھر میں وہ اکثر چھت پر ہی کھانا کھاتے۔ سردیوں میں تو یہ معمول تھا لیکن اب تو ڈائننگ روم تھا۔ میز کرسیاں تھیں مگر دھوپ میں چارپائی پر بیٹھ کر کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا لیکن بیوی سے ذکر نہیں کیا۔ وہ حسبِ معمول پیچھے پڑ جاتی کہ اس بلاوجہ خرچے کی کیا ضرورت ہے۔ گھر میں خرچے اور بلا ضرورت کا ذکر تو چلتا ہی رہتا تھا۔ بس گزارہ چل رہا تھا۔ وہ کہتا۔۔۔ یہی کیا کم ہے کہ عزت سے گزر ہو رہی ہے۔ لیکن بیوی کو ابھی کئی چیزیں بنوانی تھیں۔ کہیں پردے بدلوانا تھے۔ کہیں بیڈ شیٹیں لانا تھیں۔ پھر بچوں کے آئے دن کے تقاضے یہ وہ، یہ وہ۔۔۔ اس پرانی چارپائی کو بنوانا کسی حساب میں نہ آتا تھا۔ پورے گھر میں کوئی بھی اس کی تائید نہ کرتا اس لیے اس نے سوچا کہ جب تک سامان نہ آ جائے اور بننے والا نہ آ جائے کسی سے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ پرانے محلے میں تو چارپائی بُننے والے دوسرے تیسرے دن گلی میں آواز لگاتے گزرتے تھے لیکن ان نئی آبادیوں میں چارپائی کہاں تھی کہ بُننے والے ادھر کا رخ کرتے۔ اس کے لیے شہر جانا پڑتا تھا۔ اس نے سوچا دفتر سے فارغ ہو کر شہر کا چکر لگا آئے اور کسی بُننے والے کو ساتھ لے آئےگا۔

دفتر سے نکل کر وہ پرانے شہر کی طرف آ گیا۔ اب نواڑ کا تو زمانہ نہیں رہا۔ پلاسٹک کی رنگ برنگی رسیوں سے بنی چارپائی بہت اچھی لگتی ہے۔ اس طرح کی کئی دکانیں سیڑھیوں والے پل کے پاس تھیں۔ وہاں پہنچا تو دکانوں کے باہر رنگ برنگی رسیوں سے بنی چارپائیاں اسے بڑی ہی بھلی لگیں۔ پہلی ہی دکان سے کورا جواب مل گیا۔ دکاندار نے کہا ’’رسی تو مل جائے گی لیکن بُننے والا نہیں‘‘۔

اس نے کہا ’’میں بُننے والے کو ساتھ لے جاؤں گا اور گاڑی میں واپس چھوڑ جاؤں گا‘‘

دکاندار نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’اب یہ کام کرنے والے کم ہیں۔ یہ چند لوگ بمشکل دکانوں کی ڈیمانڈ پوری کر پاتے ہیں۔ آپ کو بُننے والا مشکل ہی سے ملےگا۔‘‘

دوسری تیسری اور چوتھی دکان سے بھی یہی جواب ملا۔ وہ کچھ مایوس سا ہو گیا۔ اس کے ذہن میں ٹیرس پر پڑی رنگ برنگی چارپائی کا تصور دھندلا سا گیا۔ ’’تو کوئی صورت نہیں؟‘‘ اس نے آخری دکاندار سے پوچھا۔

’’شاید بنی والے چوک میں کوئی مل جائے۔۔۔ میرا خیال ہے مل جائے گا۔ وہاں بڑی مارکیٹ ہے۔‘‘ دکاندار نے کہا۔

اس رش والے وقت میں شہر کے اس حصے میں جانا آسان کام نہیں تھا لیکن وہ چل پڑا۔ تنگ بازاروں سے چیونٹی کی طرح رینگتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اسے عجب طرح کا سرور آیا۔ زندگی تو یہیں ہے۔ اس نے سوچا۔ لبالب بھری ہوئی۔

اسے خیال آیا کہ چند برس پہلے جب وہ بھی اندرون شہر رہتا تھا تو اس کی زندگی بھی اسی طرح لبالب بھری ہوئی تھی۔ ہر وقت ایک ہنگامہ، ایک شور، ڈھیر سارے لوگوں کے درمیان، اپنائیت کے گرم لمس کے ساتھ اور اب اس نئی آبادی میں سکون ہی سکون تھا۔ خاموشی، اپنے کام سے کام۔ معیار بڑھ گیا تھا لیکن جیسے زمین سے نکل کر گملے میں آ گئے تھے لیکن یہ تو صرف اس کا احساس تھا، بیوی بچے تو خوش تھے۔ کبھی اندرونِ شہر کا ذکر آتا تو ان کی بھنوئیں سکڑ جاتیں، مگر وہ کبھی کبھار کسی نے کسی بہانے ادھر نکل ہی آتا۔ اس وقت بھی بھوک کی شدت کے باوجود اسے رینگ رینگ کر چلنے میں مزہ آ رہا تھا۔

ادھر والی مارکیٹ بڑی تھی، اس نے گاڑی مشکل سے ایک جگہ کھڑی کی۔

پہلی دو تین دکانوں سے وہی مایوسی جواب ملا، ’’چارپائی یہاں لے آئیں۔‘‘

یہ تو ممکن نہیں۔ اس نے سوچا۔۔۔ ایک طرف سے ہی سوزوکی والا دو سو سے کم نہیں لے گا۔ چار سو تو کرایہ ہی ہو گیا۔

اس کا دل بیٹھ سا گیا۔۔۔ تو چارپائی نہیں بُنی جا سکتی۔

پچھلے ٹیرس پر چہچہاتا پرندہ چشم زدن میں اڑ گیا۔ وہی اداس ٹیرس اور کونے میں دیوار سے لگا چارپائی کا فریم۔

’’تو واپس چلو‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔۔ ’’خوامخواہ بھوک بھی کاٹی۔‘‘

’’جناب اندر آئیں نا، میرے پاس بڑی ورائٹی ہے۔‘‘ وہ جس دکان کے باہر کھڑا تھا، اس کے اندر سے آواز آئی۔

وہ اندر چلا گیا۔ دکاندار بڑا خوش اخلاق تھا۔ کہنے لگا، ’’پسند کریں نا۔۔ میرے ریٹ بڑے مناسب ہیں۔‘‘

’’مجھے خریدنا نہیں۔‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولا، ’’چارپائی بُنوانی ہے۔‘‘

’’بُنوانی ہے۔۔۔ کہاں؟‘‘

ہے تو ذرا دور پر میں بندے کو ساتھ لے جاؤں گا اور واپس چھوڑ دوں گا۔۔‘‘ پھر جلدی سے بولا، ’’سارا سامان تو آپ سے لینا ہے، بس بندہ۔۔‘‘

دکاندار نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر بولا ’’بندہ تو آج مشکل ہی ملتا ہے لیکن آپ ذرا بیٹھیں میں پتہ کرتا ہوں۔‘‘

رنگ برنگا پرندہ آسمان کی وسعتوں سے چکرا کر پھر پچھلے ٹیرس پر آ بیٹھا۔ دکاندار اسے بٹھا کر باہر نکل گیا۔ اس کے آنے تک وہ امید و ناامیدی کے بھنور میں ابھرتا ڈوبتا رہا۔

’’بندہ تو اس وقت موجود نہیں۔ ہاں صبح مل جائے گا لیکن آپ کو صبح چھ بجے آ کر اسے لے جانا ہوگا۔ ورنہ اس نے کسی کا کام شروع کر دیا تو۔۔۔‘‘ دکاندار نے ایک ہی سانس میں کہا۔

’’میں آ جاؤں گا۔۔۔ آجاؤں گا۔‘‘ وہ جلدی سے بولا، ’’صبح اتوار ہے چھٹی ہے۔ میں چھ بجے آجاؤں گا۔‘‘

دکاندار نے کہا، ’’تو سامان آپ ابھی لے جائیں، دکان تو صبح دیر سے کھلے گی لیکن بندہ یہاں موجود ہوگا۔‘‘

رسیوں کے گچھے گاڑی میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا اگر صبح بندہ نہ ملا تو یہ ساڑھے چار سو روپے تو ضائع ہو جائیں گے، اس نے دکاندار سے کہا، ’’دیکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح۔۔۔‘‘

دکاندار نے اس کی بات کاٹ دی، ’’بندہ موجود ہوگا جی۔۔ لیکن چھ بجے کے بعد کی ذمہ داری نہیں۔‘‘

پورچ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوئے بیوی کی نظر پچھلی سیٹ پر پڑی گچھیوں کی طرف گئی۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

وہ گڑبڑا گیا۔۔۔ کم از کم کھانا تو کھا لیتا، پھر آرام سے موقع دیکھ کر بات کرتا لیکن گیٹ کھولنے بیوی خود نکل آئی تھی۔

’’یہ۔۔۔‘‘ اس نے تھوک سے حلق تَر کیا۔۔’’یہ۔۔۔ میں نے سوچا وہ اوپر۔۔۔ وہ اوپر ٹیرس پر، پچھلے ٹیرس پر چارپائی پڑی ہے نا، اسے بُنوا لیا جائے۔‘‘

’’کیا۔۔۔!!؟‘‘ وہ چیختی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔’’وہ پرانی چارپائی! کس لیے۔۔۔؟ اور یہ سامان کتنے کا آیا ہے؟‘‘

’’بس زیادہ نہیں‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا، ’’زیادہ نہیں۔۔۔ تین چار سو کا۔۔‘‘

’’تین چار سو۔۔۔!!‘‘ وہ پھر چیخی۔

’’ساڑھے چار سو کا۔۔‘‘ اس کے منہ سے گھبراہٹ میں نکل گیا۔

’’ساڑھے چار سو۔۔۔!!!‘‘ اس کی چیخ اور بلند ہو گئی۔۔۔’’اور بُنوائی؟‘‘

’’دو سو۔۔۔ دو سو۔‘‘

اس کی بیوی نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔۔۔ ’’تمہاری عقل تو کام کرتی ہے نا۔۔ ساڑھے چار سو ایک بیکار چارپائی کے لیے۔۔‘‘

وہ اندر بھاگ گیا۔

’’ہم یہاں بھوکے مر رہے ہیں اور یہ صاحب بہادر یہ رسیاں خریدے پھر رہے ہیں۔ میں پریشان ہو رہی تھی کہ اب تک کیوں نہیں آئے اور یہ۔۔‘‘

اس نے کچھ کہنا چاہا۔

’’بس بس۔۔‘‘ وہ غصے سے بولی، ’’مجھ سے اب بات بھی نہ کرنا۔‘‘

کھانا کھاتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا ’’دیکھو میری بات تو سنو۔۔‘‘

’’کیا سنوں۔۔۔‘‘ اس کا غصہ اترنے ہی میں نہ آتا تھا۔ ’’تمہاری کوئی ترجیح ہی نہیں۔ میں کہتی ہوں ہم نے اس چارپائی کا کرنا کیا ہے؟‘‘

’’سردیاں آ رہی ہیں ، دھوپ میں بیٹھنے۔۔۔‘‘

’’کون بیٹھتا ہے دھوپ میں، وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟‘‘ اس نے اس کی بات کاٹ دی۔۔۔ ’’میں پوچھتی ہوں ہم نے کرنا کیا ہے۔۔ اس چارپائی کو رکھنے کی جگہ نہیں‘‘

’’میرا کیلکولیٹر گم ہو گیا ہے، اسے لینے کے لیے تو پیسے نہیں اور ساڑھے چار سو چارپائی پر خرچ کر دئیے ہیں۔‘‘ بڑے بیٹے نے ناگواری سے کہا

’’تم لوگ چپ رہو۔‘‘ اس نے ڈانٹا۔

’’چپ کیوں رہیں؟‘‘ بیوی کا غصہ اور بڑھ گیا۔ ’’گھر کے لیے تو تمہارے پاس پیسے نہیں ہوتے اور فضول کاموں کے لیے۔۔۔ میں کہتی ہوں سامان واپس کر دو۔‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔

’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ دکاندار سے کہو کم پیسے دے دے۔ تم نہیں کر سکتے تو میں ساتھ چلتی ہوں۔ میں بات کر لوں گی۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے اب مجھ سے بات نہ کرنا‘‘ وہ اٹھ کر چلی گئی۔ دونوں بیٹے بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔ وہ وہیں اکیلا بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔

کچھ غلط ہی ہو گیا ہے۔ اس نے سوچا۔۔۔ واقعی کیا ضرورت تھی۔

ابھی تو پورا مہینہ پڑا ہے، خوامخواہ چھ سات سو روپے۔۔۔ پانچ سو کا کیلکولیٹر ہی لے دیتا بیٹے کو۔۔۔ روز کہتا ہے، پر اب کیا ہو سکتا ہے؟ رسی کی گچھیاں بھی واپس نہیں ہو سکتیں اور صبح، اس نے ناگواری سے سر ہلایا، چھ بجے۔۔ چھٹی والے دن ایک ہی تو لطف ہوتا ہے کہ دیر سے اٹھنا اور چھ بجے وہاں پہنچنا ہے۔ اس کا مطلب ہے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا۔۔۔ واقعی غلط ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو کوسا۔۔۔ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں تھی۔ اس کے اکثر کام اسی طرح کے ہوتے تھے۔۔۔ پہلے کر لینا پھر پچھتانا۔۔۔ ’یہ پچھتاوا تو میرا مقدر ہے۔‘

شام تک ماحول کشیدہ رہا۔ شام کو چائے دیتے ہوئے بیوی نے کہا، ’’میں نے تم سے بات تو نہیں کرنا تھی لیکن پھر کہتی ہوں، یہ سامان واپس کر دو۔۔ تم ہمیشہ بعد میں پچھتاتے ہو۔ میری بات مان لو۔‘‘

اس نے کہا ’’اب یہ ممکن نہیں۔ وہ واپس نہیں کرے گا۔‘‘

’’میں بات کروں گی۔ تم خود سوچو ہم نے اس چارپائی کا کرنا کیا ہے؟‘‘

اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔ ’’مجھے پتا ہے نا۔۔ وہ واپسی نہیں کرے گا۔‘‘

بیوی پیر پٹختے ہوئے کچن میں چلی گئی۔

رات کو کھانے پر بھی یہی صورت رہی۔ بیٹے منہ پھلائے الگ بیٹھے رہے، بیوی نے بھی کوئی بات نہ کی۔ اس سے نہ رہا گیا، بولا۔۔۔’’چلو غلطی ہو گئی، اب کیا ہو سکتا ہے۔‘‘

’’یہ آپ کا پرانا جواب ہے۔‘‘ بڑے بیٹے نے کہا۔

’’ہر بار غلطی‘‘ بیوی کی آواز میں تلخی آ گئی۔۔۔ ’’کب تمہیں عقل آئے گی۔۔ میں پوچھتی ہوں تمہیں چارپائی کیسے گُھس گئی دماغ میں؟ میں کئی دن سے کہہ رہی ہوں کہ کچن کا ایگزاسٹ فین بدلوا دیں، صحیح کام نہیں کر رہا۔ اس کے لیے پیسے نہیں اور یہ چارپائی۔۔‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔ بولتا بھی کیا؟ اپنے طور پر احساس ہو رہا تھا کہ بلا وجہ پیسے ضائع کر دئیے۔ چارپائی نہ بھی بنتی تو کیا فرق پڑتا۔ گھر کی اور کئی ضرورتیں توجہ چاہتی تھیں، لیکن بات وہی تھی کہ اب کیا ہو سکتا تھا۔ ایک بار خیال آیا کہ سامان واپس کرنے کی کوشش کی جائے لیکن دکاندار کا رویہ۔۔ وہ سارا منظر، اسے یقین تھا کہ سامان واپس نہیں ہوگا۔۔ اب تو ایک ہی صورت تھی کہ صبح چھ بجے۔۔۔ اور اس کے لیے اتوار والے دن چھٹی والے دن صبح پانچ بجے اٹھنا۔۔۔ اس نے بیٹھے بٹھائے کیا مصیبت مول لے لی تھی۔

ہفتہ کی رات تھی۔ دیر تک گپ شپ لگانے اور رات گئے تک جاگنے کا معمول تھا لیکن بیوی کا موڈ اتنا خراب تھا کہ اس سے بات کرنے کی ہمت بھی نہ ہوئی۔ کھانا کھا کر بیٹے اپنے کمرے میں چلے گئے اور وہ دونوں میاں بیوی اپنی اپنی دیوارکی طرف منہ کیے لیٹ گئے۔ صبح پانچ بجے اٹھتے ہوئے بڑی کوفت ہوئی لیکن چھ بجے وہاں پہنچنا تھا۔ بندہ منتظر تھا۔ راستے میں اس نے کہا، ’’یار بُننا اچھی طرح، اس چارپائی نے تو بڑا کام خراب کر دیا ہے۔‘‘

’’فکر ہی نہ کریں جی، ایسی بُنوں گا جو دیکھے گا، واہ واہ کرے گا۔‘‘

گھر پہنچا تو ابھی سب سو رہے تھے۔ وہ کام کرنے والے کو پچھلے ٹیرس پر لے گیا۔ سامان کا تھیلا اس کے سپرد کر کے کچن میں آیا۔ اپنے لیے چائے بنائی اور لائونج میں اخبار پڑھنے بیٹھ گیا۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد بیوی اٹھی۔ لائونج میں خالی پیالی دیکھ کر بولی۔

’’چائے پینی تھی تو مجھے جگا دیتے۔۔‘‘ اب اس کے لہجے میں رات والی تلخی نہ تھی۔

’’وہ دراصل ۔۔۔جلدی جانا تھا نا۔۔۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔

’’تو لے آئے ہو اسے؟‘‘

’’بس یار۔۔ ہو گیا۔۔۔ اب جانے دو۔‘‘

’’یہ تو تمہارا پرانا وطیرہ ہے، پہلے کر لینا پھر پچھتانا۔۔۔۔ تو جان اسی لیے تو کہتی ہوں کوئی کام کرنے سے پہلے مشورہ کر لیا کرو۔‘‘

اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اوپر چلا گیا۔ کاریگر ماہر تھا، آدھی سے زیادہ چارپائی بُنی گئی تھی اور رنگ برنگا پرندہ ٹیرس پر چہک رہا تھا۔

دو تین گھنٹے بعد اسے واپس پہنچایا۔ بیوی اور بیٹوں نے چارپائی دیکھی تو سب نے تعریف کی۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے کوئی ست رنگا پرندہ پر پھیلائے ٹیرس پر رقص کر رہا ہے۔

’’چلو پیسے تو خرچ ہو گئے، لیکن لگ اچھی رہی ہے۔۔‘‘ بیوی نے کہا۔

’’بہت خوبصورت بنی ہے‘‘ بڑے بیٹے نے کہا

’’اور رنگوں کا کمبینیشن تو کمال کا ہے!‘‘ چھوٹا بیٹا بولا، ’’ابو یہ ضرور آپ کی پسند ہے۔ دکاندار اتنی اچھی کمینیشن نہیں کر سکتا۔‘‘

وہ خوش ہو گیا۔ ’’اب اسے رکھنا کہاں ہے؟‘‘ اس نے بیوی سے کہا، ’’بارشوں میں تو خراب ہو جائے گی۔‘‘

’’ابھی تو ورانڈے میں رکھ دیں، پھر کوئی جگہ بناتی ہوں۔۔۔ بھئی لگ خوبصورت رہی ہے۔‘‘

دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے گپّیں لگیں۔ کہیں کہیں چارپائی کا ذکر بھی آیا اور رنگوں اور بُنائی کی خوب داد دی گئی۔ کھانا کھا کر تھوڑی دیر سو کر وہ ایک دوست کے ہاں نکل گیا۔ وہاں تاش کی بازی لگ گئی۔ واپس آیا تو شام ہو چلی تھی۔ بیوی سامان کی ایک لسٹ لیے بیٹھی تھی۔ بازار میں کافی دیر ہو گئی۔ واپسی پر کھانے کا وقت ہو گیا۔ کھانا کھا کر ابھی لیٹا ہی تھا کہ سینے میں شدید جلن اور درد کا احساس ہوا۔ سانس بھی کچھ اکھڑ رہا تھا۔ بیوی نے بیٹے کو آواز دی، ’’جلدی سے گاڑی نکالو‘‘ تمہارے ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘

چھوٹا بیٹا بھی آ گیا۔ دونوں بیٹوں نے اسے پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ بیوی نے اس کا سر زانو پر رکھ لیا اور جلدی جلدی کچھ پڑھنے لگی۔ گاڑی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس کی حالت اور خراب ہو گئی۔ شاید اسٹریچر پر ڈالتے ڈالتے یا ایمرجنسی کے بیڈ پر لٹاتے لٹاتے درمیان میں کہیں سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔واپسی ایمبو لینس میں ہوئی۔ بیوی ایمبولینس میں اور بیٹے پیچھے پیچھے گاڑی میں۔۔ ایک کہرام مچ گیا۔ اڑوسی پڑوسی باہر نکل آئے۔ ایمبولینس سے اسٹریچر اتار کر لائونج میں لائے تو کوئی بولا ’’لاش کہاں رکھنی ہے؟‘‘

کسی نے بیڈروم کی طرف اشارہ کیا تو پڑوس والی بڑی اماں بولی، ’’گھر میں کوئی چارپائی نہیں؟‘‘

’’چارپائی۔۔۔‘‘ دونوں بیٹوں نے ہچکیوں کے درمیان ماں کی طرف دیکھا۔

’’اوپر پڑی ہے۔۔۔‘‘ بیوی کی ہچکیاں بَین میں بدل گئیں۔

لائونج کا صوفہ ایک طرف کر کے چارپائی درمیان میں بچھادی گئی اور اسٹریچر سے اس کا وجود چارپائی پر منتقل کر دیا گیا۔

’’گھر میں چارپائی کتنی ضروری ہے۔‘‘ کسی عورت نے دوسری عورت کے کان میں کہا۔ ’’اور ہمارے گھروں میں اب اس کا رواج ہی نہیں۔۔‘‘

لائونج میں ست رنگا پرندہ پر پھیلائے چہک رہا تھا اور ناچ رہا تھا لیکن اس کی چہک کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھی، نہ اس کے رنگ کسی کو نظر آرہے تھے۔۔!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close