اب یونان کی سب سے بڑی بندرگاہ کا باس چین ہے!

ویب ڈیسک

یہ سن دو ہزار سولہ کی بات ہے، جب چین کی شِپنگ کمپنی کوسکو یونان کی سب سے بڑی بندرگاہ پیرایوس میں سب سے بڑی حصے دار بن گئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک غیر ملکی طاقت یورپی ملک یونان کی مرکزی بندرگاہ کو کنٹرول کرتی ہے

چین کی سرکاری شپنگ کمپنی کوسکو کی جانب سے جرمنی کی ہیمبرگ بندرگاہ پر ایک کنٹینر ٹرمینل میں اقلیتی حصص خریدنے کے بعد اس ملک میں بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔ لیکن دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ یونان کو ایسی کوئی تشویش نہیں ہے

یاد رہے کہ یونانی حکومت نے 2011ع میں قرضوں کے بحران کے دوران یورپی کمیشن، یورپی مرکزی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے شدید دباؤ کے بعد ملک کی تقریباً تمام اہم بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کو غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایتھنز حکومت نے سن 2016ع میں چین کی سرکاری شپنگ کمپنی کوسکو کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت اس کمپنی کو پیرایوس بندرگاہ میں دو تہائی اکثریتی حصص حاصل کرنے کی اجازت مل گئی

یونانی حکومت ابھی تک اپنی مرکزی بندرگاہ پر کوسکو کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ چینی حکومت بھی اس بندرگاہ کو یورپ اور ایشیا کے مابین تجارت کے لیے انتہائی اہم خیال کرتی ہے۔ دوسری جانب چینیوں نے حقیقتاً پیرایوس کو جدید بندرگاہ بنا دیا ہے۔ اب یہ مشرقی بحیرہ روم کی سب سے بڑی جبکہ یورپ کی ساتویں بڑی بندرگاہ ہے۔ ملازمتیں محفوظ ہیں اور کام کے حالات بھی بہتر ہیں۔ کوسکو یونانی ‘لیبر لا‘ کے فریم ورک کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہے اور کم از کم بظاہر تو متعلقہ حکام کسی بھی وقت اس بندرگاہ کا معائنہ کر سکتے ہیں، لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے

دوسری جانب ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ اس بندرگاہ کی لیبر یونینز کام کے بہتر حالات کے لیے متعدد مرتبہ شکایت کر چکی ہیں۔ گزشتہ برس ایک مزدور ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا اور اس واقعے کے بعد سے ایسے مطالبات سامنے آ رہے ہیں

جب سے کوسکو نے یونان کی اس بندرگاہ پر قدم جمائے ہیں، چینی سرکاری کمپنی کے بحری جہاز یہاں زیادہ سے زیادہ سامان لا رہے ہیں۔ اب یہ بندرگارہ بحیرہ روم میں نقل و حمل کے اہم ترین مراکز میں سے ایک بن چکی ہے۔ دوسری یونانی بندرگاہوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان کا اس بندرگاہ کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ تاہم اس کا جنوب مشرقی بحیرہ روم کی دیگر بندرگاہوں یا تجارتی مراکز پر منفی اثر پڑا ہے کیونکہ وہ کم اہم ہو چکے ہیں اور ان کی آمدنی بھی قلیل ہو چکی ہے

یورپ میں چین کی اس بڑی پیش رفت کے متعلق کئی سوالات بھی ہیں، جن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یونانی بندرگاہ میں چینی سرمایہ کاری ایک رول ماڈل ہے؟

اس ضمن میں پیرایوس یونیورسٹی میں میری ٹائم اسٹڈیز کے پروفیسر کوسٹاس کلوموڈیس کہتے ہیں ”یہ ماڈل صرف اسی صورت کامیاب ہے اگر آپ کے پاس اپنی قومی بندرگاہ کی پالیسی کے لیے کوئی وژن یا پیسہ نہیں ہے۔ بندرگاہوں کے حصص کی فروخت کے حوالے سے، جو ماڈل یونان کا ہے، وہ کسی دوسرے یورپی ملک میں نہیں ملتا“

واضح رہے کہ پیرایوس کے زیادہ تر حصص کوسکو کو فروخت کر دیے گئے تھے۔ ابتدائی طور پر یہ 51 فیصد تھے لیکن اب یہ 67 فیصد ہو چکے ہیں۔ اس لیے اب یہ چینی شپنگ کمپنی بندرگاہ کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے

اس تناظر میں پروفیسر کوسٹاس کلوموڈیس کہتے ہیں ”پیرایوس بندرگاہ کو اس طرح فروخت کر دینا ایک المناک غلطی تھی۔ کیوں کہ ہیمبرگ کے برعکس پیرایوس اب براہ راست ایک تیسرے ملک یعنی چین پر انحصار کر رہی ہے۔“

امریکہ اور دیگر ممالک کا حصہ

شمالی یونان میں الیکساندرو پولی کی اہم بندرگاہ کی بھی نجکاری ہونے والی ہے۔ یہ بندرگاہ امریکہ خریدنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ یہ بندرگاہ پہلے سے ہی امریکی اسلحے کی ترسیل کے لیے ایک اہم مقام کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ پروفیسر کوسٹاس کلوموڈیس اس بندرگاہ کی نجکاری کے بھی خلاف ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح یورپی یونین کے لیے جغرافیائی اہمیت کا حامل بنیادی ڈھانچہ کسی تیسرے ملک کے ہاتھ میں جا رہا ہے

پروفیسر کلوموڈیس کا کہنا ہے ”یورپی یونین کو اس حوالے سے واضح اور نئے قوانین مرتب کرنا ہوں گے، ‘جیواسٹریٹیجک اہمیت کے حامل بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے تمام یورپی یونین میں ایک جیسے رہنما اصول ہونے چاہئیں‘‘

یونان کو یہ سب کیوں کرنا پڑا؟

واضح رہے کہ یونان پر قرضوں کا دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ یہ ملک اب تک اپنے چودہ ایئر پورٹس بھی جرمن ٹرانسپورٹ کمپنی فراپورٹ کے حوالے کر چکا ہے اور ان میں تھیسالونیکی ایئرپورٹ بھی شامل ہے۔ حتیٰ کہ فراپورٹ کمپنی اب یہ فیصلہ بھی کر سکتی ہے کہ کس یونانی ہوائی اڈے کو سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور کس کو نہیں! اس حوالے سے اب یونانی حکومت کے پاس کوئی ایک اختیار بھی باقی نہیں بچا

تاہم چینی یا امریکی سرمایہ کاروں کے برعکس فراپورٹ ایک یورپی کمپنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کمپنی یورپ کے لیے کم از کم جغرافیائی سیاسی خطرہ نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close