جو بائیڈن اور شی جن کی ملاقات جس پر پوری دنیا کی نظریں ہوں گی

ویب ڈیسک

آئندہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ایک ایسے وقت میں ملاقات ہونے والی ہے جب دو بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان تائیوان اور ایشیا کے معاملات کی وجہ سے سرد جنگ عروج پر ہے

دونوں سپر پاورز کے درمیان تناؤ اور الزامات میں اضافے کی وجہ سے پوری دنیا، بالخصوص خطے میں امریکی اتحادی انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا، کی نظریں اس ملاقات کی طرف ہوں گی جو سوموار کو جی 20 سمٹ سے قبل بالی میں ہونے جا رہی ہے

جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد بطور صدر یہ ان کی شی جن پنگ سے پہلی ملاقات ہو گی جس سے قبل امریکہ نے اپنی چپ ٹیکنالوجی تک رسائی محدود کر کے چین کی برآمدی منڈی کو کافی نقصان پہنچایا ہے جسے فون اور الیکٹرک گاڑیوں سمیت سامان کی تیاری کے لیے اس ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے

واضح رہے کہ جمعرات کو اس ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ’مجھے یقین ہے ہم تائیوان پر بات چیت کریں گے اور میں جاننا چاہوں گا کہ ہم ریڈ لائنز کا تعین کر سکیں

’اس طرح ہم طے کر سکیں گے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تنازعے میں ہیں یا نہیں، اور اگر ہیں، تو ان کو کیسے حل کیا جائے۔‘

تاہم جو بائیڈن نے واضح کیا کہ وہ تائیوان کے معاملے پر کسی قسم کی پسپائی نہیں دکھائیں گے۔

چین کا دعوی ہے کہ تائیوان اس کی سرزمین کا حصہ ہے جبکہ جو بائیڈن نے سابق امریکی صدور کے برخلاف کھل کر تائیوان کا ساتھ دینے اور چینی حملے کی صورت میں اس کا دفاع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ادھر شی جن پنگ، جو حال ہی میں تیسری بار صدر بنے ہیں، نے سرکاری میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کو کہا ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں ’جنگ لڑنے پر مرکوز کریں اور فتح کی صلاحیت پیدا کریں۔‘

شی جن پنگ کے بیان کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’فوج کو جنگ کی تیاری کرنا ہو گی کیوں کہ چین کو ایک غیر مستحکم اور غیر واضح پوزیشن کا سامنا ہے۔‘

جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے کہا گیا کہ اس ’ملاقات کے نتائج سے تائیوان کو مطلع کیا جائے گا۔‘ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیون نے کہا کہ ان کا مقصد تائیوان کو یقین دلانا ہے کہ امریکی حمایت ان کے ساتھ رہے گی۔

ادھر چین کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چین کے ساتھ مل کر غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے اور چین امریکہ سے پرامن تعلقات رکھنے کا خواہش مند ہے لیکن تائیوان کا معاملہ چینی مفادات کا اہم جزو ہے۔

واضح رہے کہ تائیوان کے معاملے پر امریکی پالیسی مشکلات کا شکار رہی ہے۔ چین سے امریکی تعلقات کے تحت واشنگٹن صرف بیجنگ کی حکومت کو مانتا ہے اور اس کے تائیوان کے ساتھ باضابطہ تعلقات نہیں ہیں۔

تاہم تائیوان ریلیشن ایکٹ کے تحت امریکہ تائیوان کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق امریکہ تائیوان کو دفاع کے لیے اسلحہ فراہم کرتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close