عامر خان کی فلم ”لگان“ کے بننے کی دلچسپ کہانی۔۔

ویب ڈیسک

جب آشوتوش گواریکر نے لگان بنانے کا فیصلہ کیا تو انہیں تین بڑے چیلنجز درپیش تھے

ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ خود ان کا اپنا بطور ڈائریکٹر خراب ٹریک ریکارڈ تھا۔ لگان بنانے سے پہلے انہوں نے صرف دو فلمیں ’پہلا نشہ‘ اور ’بازی‘ بنائی تھیں اور دونوں فلمیں باکس آفس پر کوئی متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا سکی تھیں

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان کا اسکرپٹ اُس وقت کی ہندی فلموں کی مارکیٹ سے میل نہیں کھاتا تھا، کیونکہ اس وقت بالی ووڈ میں ایک غیر تحریری اصول لاگو تھا ”پیریڈ فلم نہیں بنانی اور نہ ہی دیہی کہانی پر اپنا پیسہ لگانا ہے“ مزید یہ کہ کھیلوں کے کلائمکس پر بننے والی فلمیں بھی فیشن میں نہیں تھیں اور ’دھوتی پہننے والا ہیرو‘ تو بلکل ہی پاگل پن پر مبنی آئیڈیا تھا

ایک پروڈیوسر نے آشوتوش سے مطالبہ کیا کہ وہ فلم کے کلائمکس کو ایکشن سے بھرپور بنائیں اور بُھون کو کیپٹن رسل کے اسٹمپ کو مارتے ہوئے دکھائیں۔ اس وقت ممبئی فلم بازار کے اسکرپٹ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی

چمپانیر گاؤں کی کہانی ایک افسانہ تھا، جس میں سنہ 1893ع میں دیہی ہندوستان کی کہانی بیان کی گئی تھی۔ گاؤں کا نام بہار کے چمپارن سے متاثر ہو کر رکھا گیا تھا جہاں مہاتما گاندھی نے سنہ 1917ع میں مزدوروں کے حقوق کے لیے تحریک شروع کی تھی

جب آشوتوش گواریکر نے پہلی بار یہ کہانی عامر خان کو سنائی تو انہوں نے اس کہانی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ سنہ 1893 میں گاؤں والوں کا لگان سے بچنے کے لیے کرکٹ کھیلنے کا خیال انہیں ہضم نہیں ہوا

لیکن اس کے باوجود آشوتوش نے اس کہانی کو کاغذ پر لکھنے کا فیصلہ کیا

دوسری بار جب وہ یہ کہانی لے کر عامر خان کے پاس گئے تو عامر انہیں نظر انداز نہ کر سکے۔ لیکن اس فلم کے پچیس کروڑ کے بجٹ پر کوئی پیسہ لگانے کو تیار نہیں تھا

آشوک آمریتراج، شاہ رخ خان اور کئی دوسرے پروڈیوسرز لگان کے اسکرپٹ سے متاثر ضرور ہوئے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے انہوں نے فلم سے کنارہ کشی اختیار کر لی

آخر میں جب کوئی نہ ملا تو عامر خان نے خود اس فلم کو پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جب آشوتوش گواریکر اور عامر خان نے لگان کی کہانی مشہور کہانی کار اور نغمہ نگار جاوید اختر کو سنائی تو وہ بھی اس کہانی سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے

آشوتوش اور عامر دونوں ہی اس بات سے چونک گئے کہ فلم کی شوٹنگ سے صرف تین ماہ قبل بھارتی فلموں کے سب سے کامیاب کہانی نویس بتا رہے ہیں کہ یہ فلم نہیں چلنے والی۔۔

پھر بھی عامر نے یہ فلم بنانے کا خیال نہیں چھوڑا۔ مشہور فلمی نقاد شیلا راول لکھتی ہیں ”نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت تک بھارت کی سب سے مہنگی فلموں میں سے ایک لگان کی بنیاد رکھی گئی“

تقریباً تین ہزار لوگوں نے چھ ماہ تک مسلسل کام کیا اور ایک سو ایکڑ زرعی زمین پر چمپانیر گاؤں آباد کیا

گواریکر اور آرٹ ڈائریکٹر نتن دیسائی نے گجرات میں بھوج کے قریب فلم کی شوٹنگ کے لیے کناریا کا انتخاب کیا

عامر چاہتے تھے کہ وہ بھون کے کردار کے لیے مونچھیں رکھیں کیونکہ عام طور پر ہندوستانی دیہات کے لوگ مونچھیں رکھتے ہیں لیکن آشوتوش اس خیال سے بالکل متفق نہیں تھے

انہوں نے عامر کے سامنے دلیل دی ”تصور کیجیے چمپانیر کو صدی کی بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پانی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور بھون ہر صبح شیو بنانے میں پانی ضائع کر رہا ہے“

آشوتوش نے فلم کی شوٹنگ میں حصہ لینے والے گاؤں کے لوگوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کچھ دنوں تک نہ تو بال کٹوائیں اور نہ ہی داڑھی منڈوائیں

دوسری جانب چالیس سے زائد اداکاروں کو برطانیہ سے بھارت لایا گیا، کیونکہ آشوتوش اور عامر دونوں کا خیال تھا کہ اگر فلم میں حقیقی رنگ بھرنا ہے، تو پھر برطانوی اداکاروں کو لانا پڑے گا

اس کہانی کے لیے گیارہ برطانوی کھلاڑیوں، تین سینیئر اداکاروں اور لگ بھگ تیس جونیئر اداکاروں کو برطانیہ سے بھارت لانا تھا۔ ان سب کا لندن سے ممبئی کا ہوائی کرایہ اور ان کی فیس نے اس فلم کے بجٹ کو بہت بڑھا دیا

عامر اس کے لیے خصوصی طور پر لندن گئے تھے۔ ستیہ جیت بھٹکل اپنی کتاب ’دی اسپرٹ آف لگان‘ میں لکھتے ہیں ”سب سے بڑا مسئلہ برطانوی اداکاروں کو بھارتی فلم میں کام کرنے کے لیے تیار کرنا تھا“

لگان کا بجٹ برطانوی معیار سے بہت کم تھا اور اس کی شوٹنگ تیسری دنیا کے ایک ملک میں ہو رہی تھی

وہاں موجود کاسٹنگ ڈائریکٹر سوال پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ کی پروڈکشن نے پہلے کوئی فلم بنائی ہے؟ عامر جواب دیتے تھے، ”نہیں، یہ بطور پروڈیوسر میری پہلی فلم ہے۔“ پھر پوچھتے تھے کہ فلم کس زبان میں بنا رہے ہو؟ عامر کا جواب ”ہندی میں“ تھا۔ ان کا اگلا سوال یہ تھا کہ برطانوی اداکار کس زبان میں بات کریں گے؟ عامر جب ہندی کا بتاتے تو وہ زیادہ گھبرا جاتے تھے

پرانا سامان اور ہندی کی کلاسز

عامر لندن میں سینٹر فار اورینٹل اسٹڈیز (ایس او اے ایس) گئے، جہاں ان کی دوست ریچل ڈیوائر بھارتی سنیما پر کلاس لے رہی تھیں

ان کی ایک پاکستانی طالب علم سمین نے ایک ماہ کے اندر منتخب ہونے والے دو ممتاز برطانوی فنکاروں کو ہندی سکھانے کا بیڑا اٹھایا۔ جب تک ریچل اور پال بھارت جانے کے لیے تیار تھے، وہ ان لائنوں پر مہارت حاصل کر چکے تھے، جو ان کو فلم میں ادا کرنا تھیں

برطانیہ میں، عامر نے لائبریریوں، عجائب گھروں اور قدیم اشیا فروخت کرنے والی دکانوں کو کنگھالنا شروع کیا اور فلم کو برطانوی راج کا ٹچ دینے کے لیے سب کچھ ترتیب دیا

یہاں تک کہ کرکٹ کے بلے بھی سنہ 1893ع کے ہیں اور انہیں لندن میں قدیم اشیاء اور نوادرات کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ عامر دکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک ٹوکری میں پرانے زمانے کی گیندیں پڑی ہیں۔ ان گیندوں پر بنانے والی کمپنیوں کا کوئی نشان نہیں تھا، جیسا کہ آج کی گیندوں پر نظر آتا ہے

عامر نے دکان کے مالک شان آرنلڈ کو بلے سے لے کر وکٹوں، پیڈز، دستانے تک تمام پرانی چیزیں فروخت کرنے پر آمادہ کیا

اس کے بعد عامر کے لیے سب سے بڑا چیلنج چمپانیر گاؤں کو آباد کرنا تھا

لگان کے آرٹ ڈائریکٹر نتن دیسائی، جنہوں نے ’دیوداس‘ اور ’1942-اے لو سٹوری‘ کے سیٹ بنائے، کہتے ہیں ”بنجر زمین پر گاؤں بنانا اسٹوڈیو میں سیٹ بنانے سے کہیں زیادہ مشکل کام تھا“

آخر میں، چمپانیر گاؤں نے حقیقی ہونے کا تاثر دیا

دو ہزار دھوتی کرتوں کا اہتمام

فلم کی شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے تمام اداکار چمپانیر گاؤں میں بنائے گئے فرضی گھروں میں ٹھہرے تاکہ وہاں کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال سکیں

لیکن اس دوران ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اگرچہ عامر اور آشوتوش نے فلم کی شوٹنگ میں حصہ لینے والے لوگوں کے لیے دو ہزار دھوتی کرتوں کا انتظام کیا تھا، لیکن وہ کم پڑ گئے اور سیٹ پر روزانہ بہت سے لوگ پینٹ شرٹ پہن کر آنے لگے

جب پروڈکشن ٹیم نے عامر کو یہ مسئلہ بتایا تو فیصلہ ہوا کہ پتلون پہنے ہوئے لوگوں کو دھوتی کُرتا پہنے لوگوں کی قطار کے پیچھے چھپایا جائے گا

جب کلائمکس سین فلمایا گیا تو بھون کی ٹیم جیتتے ہی ہزاروں تماشائی میدان میں دوڑ پڑے۔ لیکن پھر کالی پینٹ اور جامنی رنگ کی شرٹ پہنے ایک شخص کیمرے کے سامنے آیا۔ اس ایک شخص کی وجہ سے اتنی اچھی طرح سے شاٹ کو دوبارہ لینا پڑا

ہیروئن کے لیے بڑی اداکاراؤں پر ترجیح دے کر گریسی سنگھ کا انتخاب

عامر خان نے فلم کی ہیروئن کے لیے نمرتا شروڈکر، امیشا پٹیل اور نندیتا داس جیسی منجھی ہوئی اداکاراؤں کا آڈیشن لیا

ہر اداکارہ کی اپنی خوبیاں ہوتی ہیں لیکن آشوتوش کے ذہن میں گوری کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک خاص لڑکی کی تصویر تھی

ان دونوں کا خیال تھا کہ اس کردار کے لیے ہیروئین کی اسٹار ویلیو اتنی اہم نہیں ہے، جتنا اس کردار کے لیے اس کا موزوں ہونا

ستیہ جیت بھٹکل لکھتے ہیں ”ان دنوں ایک نئی اداکارہ گریسی سنگھ آشوتوش سے ملنے آئی، اس دن ان کی سالگرہ تھی۔ گریسی بہت پرکشش یا گلیمرس شخصیت کی شاید مالک نہیں تھیں لیکن ان کی اندرونی خوبصورتی آشوتوش سے چھپی نہ رہ سکی“

انہوں نے اسے آڈیشن کے لیے بلایا۔ عامر نے نوٹ کیا کہ گریسی آڈیشن کے دن ضرورت سے زیادہ خاموش ہیں۔ ان کے چہرے پر نہ گھبراہٹ تھی نہ جوش۔۔ گریسی نے کیمرے کے سامنے بہت اچھی اداکاری کی اور اس کردار کے لیے انہیں منتخب کیا گیا

اداکاروں کے سامنے کرکٹ کھیلنے میں دشواری

عامر نے بھون کی ٹیم کے گیارہ ارکان کے لیے کاسٹ کا آڈیشن دیا

ان گیارہ کرداروں کے لیے تقریباً دو سو اداکاروں کا آڈیشن لیا گیا۔ جب آشوتوش نے پہلی بار لگان کا اسکرپٹ لکھا تو انہوں نے دو اننگز کے میچ کا خیال پیش کیا

لیکن بعد میں لوگوں کے مشورے پر انہوں نے اسے محض ایک اننگز کا میچ بنا دیا۔ میچ کے اہم پہلو کو اسکرپٹ میں جگہ دی گئی

ستیہ جیت بھٹکل لکھتے ہیں ”یہ پہلے سے طے تھا کہ ہر کھلاڑی کتنے رنز بنائے گا اور اسے کیسے آؤٹ کیا جائے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ کھلاڑی کا اسٹروک آف سائیڈ پر جائے گا یا لیگ سائیڈ پر، فیلڈنگ کی جائے گی یا گیند باؤنڈری کی طرف جائے گی۔ یہ تمام تفصیلات کاغذ پر لکھی ہوئی تھیں“

اس میچ میں کل بارہ سو شاٹس لینے تھے۔ کرکٹ کے اس میچ کی شوٹنگ کے لیے بیس دن مختص کیے گئے تھے۔ اس کا مطلب تھا ہر روز ساٹھ شاٹس کا ہدف۔ اس مقصد کو پورا کرنا کسی کے لیے بھی ناممکن تھا

دیوا کا کردار ادا کرنے والے پردیپ سنگھ راوت بھی ایک اداکار تھے، کرکٹر نہیں

پلان کے مطابق بولنگ کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ یا تو وہ گیند کو اسٹمپ کے باہر پھینک رہے تھے یا ان کی گیند آف اسٹمپ کی طرف جا رہی تھی

یہ شاٹ اتنی بار لیا گیا کہ آشوتوش پریشان ہونے لگے کہ آیا وہ وقت پر شوٹنگ مکمل کر بھی پائیں گے یا نہیں؟

لنچ کے بعد ارجن سنگھ کو اسکرپٹ کے مطابق اپنی مختصر اننگز میں دو چوکے لگا کر آؤٹ ہونا تھا، لیکن انہوں نے اپنی حقیقی زندگی میں کبھی کرکٹ نہیں کھیلی تھی

اسمتھ نے جیسے ہی گیند پھینکی، کیمرہ چلنے لگا۔۔ گیند ان کے درمیانی اسٹمپ پر آئی لیکن ارجن شاٹ نہیں لگا سکے۔ جب تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو آشوتوش نے فیصلہ کیا کہ اس شاٹ میں کوئی باؤلر نہیں ہوگا

کیمرے کے قریب سے گیند کو آہستہ آہستہ ان کی طرف پھینکا جائے گا اور انہیں گیند کو چُھونا پڑے گا۔ لیکن گیند ارجن کے ہاتھ سے نکل گئی۔ وہ اس بار اسے اپنے بلے سے چھو بھی نہیں سکے

آخرکار آشوتوش کو گیند کو فریم سے ہٹانا پڑا۔ ارجن کو صرف زور سے بلے کو سوئنگ کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ ان کے چہرے کے تاثرات کا شاٹ لیا جا سکے

ایک شاٹ تھا، جس میں یارڈلے کا ایک باؤنسر عامر کے کان پر لگنا تھا۔ ضروری تھا کہ گیند عامر کے کان پر لگتی کیونکہ کان سے بہتے ہوئے خون کا شاٹ پہلے ہی لیا جا چکا تھا

ٹیسٹ لیول کے باؤلر کے لیے بھی دائیں کان پر باؤنسر لگا کر بلے باز کو زخمی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے

یہاں یارڈلے کا کردار ادا کرنے والے کرس انگلینڈ نے اپنی زندگی میں کبھی گیند نہیں پکڑی تھی۔ اس کا واحد علاج یہ تھا کہ کسی نے پاس سے عامر کے کان پر گیند پھینکی جسے کیمرہ پکڑ نہ سکا

عام طور پر یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن اس شاٹ میں عامر کو گیند سے بچنے کے لیے ڈک کرنا پڑا۔ کبھی گیند عامر کے گال پر لگ جاتی تھی۔ کبھی ان کے سر پر اور کبھی ان کے سینے پر لیکن ان کے کان ہمیشہ گیند سے بچ جاتے

اگرچہ وہاں استعمال ہونے والی گیند اصل گیند نہیں تھی، پھر بھی پاس سے گیند بہت تیزی سے پھینکی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے عامر کو بھی کافی چوٹیں آئیں

شوٹنگ کے دوران ہدایت کار آشوتوش گواریکر کی کمر میں تکلیف ہوئی، جس کی وجہ سے وہ کھڑے نہیں رہ سکتے تھے۔ لیکن آشوتوش نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور لیٹ کر ہی فلم کی ہدایت کاری کی

انگریزوں کو ہندی سکھانا

گواریکر نے برطانوی فنکاروں کے لیے بھی کوئی رعایت برتی۔ لگان کے ولن کیپٹن رسل کا کردار ادا کرنے والے پال بلیک تھورن کہتے ہیں ”تین ماہ تک مجھے ابتدائی تیاری کے طور پر ہندی اور گھڑ سواری سیکھنے کو کہا گیا۔ میں نے بار بار اپنی ہندی لائنوں کی مشق کی۔۔ یہ میرے لیے اتنا مشکل تھا کہ ایک بار میں نے سوچا کہ یہ سب چھوڑ کر واپس چلا جاؤں۔ کہیں چار مہینوں میں جا کر میں اسکرپٹ کے ہر لفظ کے بارے میں اپنی سمجھ پیدا کرنے میں کامیاب رہا“

عامر اور آشوتوش کے درمیان کئی دنوں تک یہ بحث جاری تھی کہ فلم میں کون سی زبان استعمال کی جائے۔۔ کھری یا اودھ والی؟ ملبوسات کو ڈیزائن کرنے کی ذمہ داری فلم گاندھی کے لیے آسکر ایوارڈ جیتنے والے بھانو اتھیا کو دی گئی

بھانو نے برطانوی اداکارہ ریچل شیلی کے لیے سینکڑوں ٹوپیاں ڈیزائن کیں

بھانو نے لگان کے لباس کے لیے اتنی ہی تحقیق کی، جتنی انہوں نے فلم گاندھی کے لیے کی تھی

کئی بار آشوتوش کو فنکاروں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ شیلے کے مکالموں میں جب بھی ہندی کی ایک اضافی لائن شامل کی جاتی تو وہ ناراض ہو جاتی تھیں۔ لیکن آخر میں انہیں بھی ڈائریکٹر سے کوئی شکایت نہیں تھی

عامر خان نے کنڑیا کے گاؤں والوں سے اپنا وعدہ پورا کیا تھا کہ وہ فلم کی رلیز سے پہلے اس گاؤں میں ایک شو کریں گے

’لگان‘ کا سنیما پر وہی اثر پڑا، جو ’اسٹار وار‘ نے ہالی وڈ پر کیا۔ مشہور ہالی ووڈ ہدایت کار جیمز گن ’لگان‘ کو اپنی پسندیدہ بھارتی فلم مانتے ہیں

کچھ ناقدین کے مطابق فلم لگان کا اصل خیال پچاس کی دہائی میں بننے والی فلم نیا دور سے لیا گیا تھا

لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فلم کا ماخذ زیادہ تر ہالی ووڈ کی فلم ’اسکیپ ٹو وکٹری‘ سے لیا گیا ہے، جس میں مشہور فٹ بال کھلاڑی پیلے نے اداکاری کی تھی۔ اس فلم میں اتحادی جنگی قیدی نازی فوجیوں کو فٹبال میچ میں شکست دیتے ہیں

حقیقی زندگی میں لگان کا موازنہ موہن بگان ٹیم کے ننگے پاؤں کھلاڑیوں سے کیا جا سکتا ہے، جس نے سنہ 1911ع میں آئی ایف اے شیلڈ کے فائنل میں ایسٹ یارکشائر رجمنٹ کی ٹیم کو شکست دی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close