اٹھارہ برس فرانسیسی ایئرپورٹ پر رہنے والا ایرانی شخص چل بسا

ویب ڈیسک

ایک ایرانی شخص، جو گزشتہ اٹھارہ برس سے پیرس کے ایک ایئرپورٹ پر رہ رہا تھے، چل بسے

مہران کریمی ناصری نے سنہ 1988ع سے روئسی چارلس ڈی گال ایئرپورٹ کے ایک چھوٹے سے حصے کو اپنا گھر بنا رکھا تھا

وکیپیڈیا کے مطابق مہران کریمی ناصری (1945 – 12 نومبر 2022)، جسے سر الفریڈ مہران کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ایرانی مہاجر تھا، جو 26 اگست 1988 سے جولائی 2006 تک چارلس ڈی گال ہوائی اڈے کے ٹرمینل 1 کے ڈیپارچر لاؤنج میں رہتا تھا، جب وہ ہسپتال میں داخل تھا۔ ان کی سوانح عمری 2004 میں ایک کتاب، The Terminal Man کے طور پر شائع ہوئی۔ ناصری کی کہانی نے 2004 کی فلم The Terminal کو متاثر کیا

سنہ 2004ع میں ان کی زندگی پر ’دی ٹرمینل‘ نامی فلم بھی بنائی گئی تھی، جس میں ٹام ہینکس نے مرکزی کردار ادا کیا تھا

اُنھیں بالآخر فرانس میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن وہ کچھ عرصہ قبل ایئرپورٹ واپس لوٹ آئے تھے

پیرس ایئرپورٹ اتھارٹی کے ایک اہلکار کے مطابق، 76 سالہ مہران کریمی ناصری ہفتے کے روز دوپہر کے قریب ہوائی اڈے کے ٹرمینل 2 ایف میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ پولیس اور میڈیکل ٹیم نے اس کا علاج کیا لیکن وہ اسے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے

بی بی سی کے مطابق سنہ 1945ع میں ایران کے صوبہ خوزستان میں پیدا ہونے والے ناصری پہلی مرتبہ اپنی والدہ کی تلاش میں یورپ آئے تھے

جبکہ الجزیرہ کے مطابق ناصری 1945 میں ایران کا ایک علاقے سلیمان میں پیدا ہوئے تھے، جو اس وقت برطانوی دائرہ اختیار میں تھا، ایک ایرانی والد اور ایک برطانوی ماں کے ہاں۔ اس نے 1974 میں انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایران چھوڑ دیا۔ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ انہیں شاہ کے خلاف احتجاج کرنے پر قید کر دیا گیا اور بغیر پاسپورٹ کے نکال دیا گیا

وہ کئی برس بیلجیئم میں رہے، جبکہ اُنہیں نیدرلینڈز، برطانیہ اور جرمنی نے درست امیگریشن کاغذات نہ ہونے کی بنا پر نکال دیا تھا

اس کے بعد وہ فرانس چلے گئے، جہاں اُنہوں نے ایئرپورٹ کے ٹرمینل 2 ایف کو اپنا مسکن بنا لیا

ایئرپورٹ پر وہ ایک بینچ پر رہتے، جس کے اردگرد ٹرالیوں میں ان کا سامان پڑا رہتا۔ اُنہوں نے یہاں اپنی زندگی ایک نوٹ بک میں اپنے تجربات کے بارے میں لکھتے ہوئے اور کتابیں اور اخبارات پڑھتے ہوئے گزاری

وہ اخبارات اور رسائل کے ڈبوں سے گھرے ہوئے پلاسٹک کے سرخ بینچ پر سوتے تھے اور عملے کے لیے بنائے گئے واش روم میں نہاتے تھے۔ اس نے اپنا وقت اپنی ڈائری میں لکھنے، رسالے پڑھنے، معاشیات کا مطالعہ کرنے اور گزرنے والے مسافروں کا سروے کرنے میں صرف کیا

عملے نے اسے لارڈ الفریڈ کا نام دیا، اور وہ مسافروں میں ایک طرح سے مشہور شخصیت بن گئے

"آخر کار، میں ہوائی اڈے سے نکل جاؤں گا،” انہوں نے 1999 میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، اپنے بینچ پر ایک پائپ سگریٹ پیتے ہوئے، لمبے پتلے بالوں، دھنسی ہوئی آنکھوں اور پچکے گالوں کے ساتھ کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ "لیکن میں ابھی تک پاسپورٹ یا ٹرانزٹ ویزا کا انتظار کر رہا ہوں“

ان کی کہانی نے بین الاقوامی میڈیا میں جگہ پائی، جس کے بعد مشہور فلم ڈائریکٹر اسٹیون سپیل برگ کی نظر ان پر پڑی۔ اُنہوں نے ان پر ’دی ٹرمینل‘ کے نام سے ایک فلم بنائی، جس میں ٹام ہینکس اور کیتھرین زیٹا جونز نے مرکزی کردار ادا کیے

فلم کی ریلیز کے بعد مہران ناصری مشہور ہو گئے اور صحافی، ہالی وڈ فلم کی وجہ بننے والی کہانی جاننے کے لیے ان تک آنے لگے۔ حتیٰ کہ ایک موقع ایسا آیا کہ خود کو سر ایلفرڈ کہلانے والے ناصری، اخبار دی پیریسیئن کے مطابق، دن میں چھ انٹرویوز تک دے رہے تھے

سنہ 1999ع میں پناہ گزین کی حیثیت ملنے اور فرانس میں رہائش کا حق ملنے کے باوجود وہ سنہ 2006ع تک ایئرپورٹ پر رہے۔ پھر اُنہیں بیماری کے باعث ہسپتال لے جایا گیا، جس کے بعد اخبار لبریشن کے مطابق وہ فلم سے ملنے والے پیسوں سے ایک ہاسٹل میں رہنے لگے

ایک ایئرپورٹ اہلکار کے مطابق کچھ ہفتے قبل وہ ایئرپورٹ واپس لوٹ آئے اور پھر اپنی موت تک یہیں رہے

اہلکار نے بتایا کہ موت کے وقت ان کے پاس کئی ہزار یورو تھے

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ بالآخر، بیلجیئم میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے انہیں پناہ گزینوں کی اسناد فراہم کیں، لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا بریف کیس، جس میں پناہ گزینوں کا سرٹیفکیٹ تھا، پیرس کے ٹرین اسٹیشن سے چوری ہو گیا تھا

بعد میں فرانسیسی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا، لیکن وہ انہیں کہیں ڈی پورٹ نہیں کر سکی، کیونکہ ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویزات نہیں تھے

مزید بیوروکریٹک ہنگامہ آرائی اور بڑھتے ہوئے سخت یورپی امیگریشن قوانین نے انظیں سالوں تک قانونی نو-مین لینڈ میں رکھا

اتھارٹی کے اہلکار نے بتایا کہ جب بالآخر ناصری کو پناہ گزینوں کے کاغذات موصول ہوئے، تو انہوں نے ہوائی اڈے سے نکلنے کے بارے میں اپنی حیرت – اور اپنے عدم تحفظ کو بیان کیا۔ مبینہ طور پر انہوں نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور 2006 میں ہسپتال میں داخل ہونے تک کئی سال مزید وہاں رہے اور بعد میں پیرس کے ایک پناہ گاہ میں رہے

ہوائی اڈے پر ان سے دوستی کرنے والوں نے بتایا کہ کھڑکی کے بغیر جگہ میں رہنے کے برسوں نے اس کی ذہنی حالت کو متاثر کیا۔ 1990 کی دہائی میں ہوائی اڈے کا ڈاکٹر ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے بارے میں فکر مند تھا۔ ٹکٹ ایجنٹ کے ایک دوست نے ان کا موازنہ ایک ایسے قیدی سے کیا، جو باہر رہنے کے قابل نہیں تھا

اپنی موت سے چند ہفتوں پہلے، ناصری واپس چارلس ڈی گال میں رہنے کے لیے چلا گیا تھا

ناصری کی ذہن کو ہلا دینے والی کہانی نے اسٹیون اسپیلبرگ کی 2004 کی فلم ’دی ٹرمینل‘ ، نیز ایک فرانسیسی فلم لوسٹ ان ٹرانزٹ، اور فلائٹ نامی ایک اوپیرا کو متاثر کیا

دی ٹرمینل میں، ہینکس نے وکٹر نوورسکی کا کردار ادا کیا ہے، جو ایک ایسا شخص ہے، جو نیو یارک کے JFK ہوائی اڈے پر فرضی مشرقی یورپی ملک کراکوزیا سے آتا ہے اور اسے راتوں رات ایک سیاسی انقلاب کا پتہ چلتا ہے، اس نے اپنے تمام سفری کاغذات کو باطل کر دیا ہے۔ ناوورسکی کو ہوائی اڈے کے بین الاقوامی لاؤنج میں پھینک دیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک اس کی حیثیت کو ٹھیک نہیں کیا جاتا اسے وہاں رہنا چاہیے، جو کہ کراکوزیا میں بدامنی جاری رہنے کے بعد چلتی ہے

نیو یارک ٹائمز کے مطابق، سپیلبرگ نے اپنی پروڈکشن کمپنی ڈریم ورکس کے ذریعے ناصری کی زندگی کی کہانی کے حقوق تقریباً 250,000 ڈالر ادا کر کے خریدے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close