ایران آوارگی (قسط۔ 9)

گل حسن کلمتی

پہرہ ( ایرانشہر) ہم چھوڑ چکے تھے۔ بس میں اکثریتی مسافر بلوچ تھے جو مشہد جارہے تھے۔ زیادہ ٹر لوگ فیملیز کے ساتھ تھے۔ جب ہم وہاں تھے تو ایران میں چھٹیاں تھیں۔ لوگ فیملی کے ساتھ شمال کی طرف جارہے تھے۔ ہم گیارہ دوست تھے جو سندھی، جدگالی، بلوچی اور اردو میں بات کر رہے تھے، کیونکہ یاسین کو سندھی اور بلوچی نہیں آتی تھی، اس کے ساتھ اردو میں بات کر رہے تھے ۔ مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی ۔

بہت ہی خوبصورت نظارے تھے، پہاڑی سلسلوں کے بیچ بہتی ندیاں اور مچ کدے اور ہریالی پھر اچانک منظر تبدیل ہوتے، خشک پہاڑ اور ویران علاقے جن کے بیچ بلوچوں کے قصبے جو بنیادی سہولتوں سے محروم تھے۔

باگو، جہاں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا ، یہ علاقہ سیب، آڑو اور انگور کی وجہ سے مشہور ہے۔
خاش شہرستان شروع ہوا منظر تبدیل ہوگئے ،ہم خاش کے بائے پاس سے زاھدان کے طرف جارہے تھے ،بائے پاس سے کچھ فاصلے پر خاش کا قلعہ ہے۔جسے اب حیدر آباد کا نام دیا گیا ہے۔ خاش کو بلوچ واش کہتے ہیں ۔خاش، میر جاوہ اور زاھدان میں بلوچی کی ساتھ براہوئی بولنے والے بھی رہتے ہیں ۔

سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے ہم سیستان اور بلوچستان صوبے کے ہیڈکوارٹر زاھدان پہنچے ۔ ہم شہر کے اندر نہیں جا سکے بائے پاس سے ہم آگے نکل گئے ۔ہر ضلع( شہرستان) کے شروع ہوتے ہی پولیس چیک پوسٹ پر بس کا ڈرائیور یا کنڈیکٹر بھاگتا چوکی میں جاتا انٹری کرا کر واپس آتا تھا ۔

زاھدان جس کا پرانا نام "دز آپ” ہے ، جس کے معنیٰ ہیں: پانی کا گم ہو جانا یا چوری ہوجانا ۔ زاھدان کے ساتھ جو ندی ہے، جس میں پورا سال بارشوں کے بعد صاف اور شفاف پانی بہتا تھا اس جگہ پانی گم ہوکر زیر زمین چلا جاتا تھا ۔اس لیے اس قصبے کو دز آپ کہا جاتا تھا۔

1930 محمد رضا شاہ کے حکم پر اس کا نام تبدیل کرکے "زاھدان ” رکھا گیا ۔ جس کے معنے ہیں: زاھدوں اور پرھیز گاروں کی جگہ

ویسے بلوچوں کو آج بھی ان کے شہروں اور قصبوں کے ناموں کی تبدیلی پر سخت اعتراض ہے، بہت سے آج بھی ان شہروں کو پرانے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ان بلوچوں کو کہنا ہے ہمارے جو قبیلے ہیں گَجروں ( فارسیوں) نے وہ تبدیل کرکے ہمیں نئی قبائلی شناخت دیتے ہیں۔ ہم اپنے شناختی کارڈ (شجل) میں بلوچوں کے جو مرکزی قبائل ہیں وہ لکھ نہیں سکتے ،اس کی اصل وجہ بلوچ کے شناخت کو ختم کرنا ہے ۔

زاھدان نے بہت ترقی کی ہے۔ یہاں پر یونیورسٹی آف سیستان و بلوچستان کے سوا اسلامک آزاد یونیورسٹی ، زاھدان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے علاوہ بہت سے تعلیمی ادارے ہیں ۔
یہاں انٹرنیشنل ایئرپورٹ بھی ہے۔زاھدان سے کرمان ،زاھدان سے مشہد تھران تک ریلوی لائین ہے۔ کوئٹہ سے زاھدان تک پاکستان کو ریل کے ذریعے ملایا گیا ہے۔

اب زاھدان سے چابہار تک ریلوی لائین پر کام تیزی جاری ہے باگو سے آگے بمپور تک اس کا کام تقریباً مکمل ہے۔
مشہد اور تھران ، زاھدان کے شمال میں ہیں۔اس کے جنوب میں چابہار ہے۔

زاھدان میں ایک بہت بڑا میوزیم بھی ہے ۔
15000 ھزار تماشائیوں کے گنجائش کا فٹبال ورزشگاہ (فٹبال اسٹیڈیم) بھی موجود ہے۔ زاھدان کی آبادی چھ لاکھ ہے۔ اس کے جنوب میں دشت لوط کا ریگستان ہے ۔ یہاں سے تہران 1600 کلومیٹر شمال میں ہے ۔
زاھدان سے زابل 200 کلومیٹر ، بیر چند 490 کلو میٹر پر ہے۔

1866 میں جب ناصر الدین شاہ قتل ہوئے تو یہاں ایران کی مرکزی حکومت کا اثر کم ہوا۔ یہاں کے مقامی بلوچوں نے آزاد ریاست کا اعلان کیا ۔ 1925 اور 1927 میں دوست محمد کی سربراہی میں بلوچوں نے ایرانی فوج کا مقابلہ کیا، سیکڑوں بلوچ مارے گئے ، دوست محمد کو گرفتار کر کے تہران لے گئے اور زاھدان کو ایرانی فوج کے حوالے کیا گیا۔ اب تک یہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں ایک بہت بڑی چھاؤنی بنائی گئی۔

زاھدان کے اردگرد بہت سارے قدیم آثار ہیں۔یہاں سکھ اور ھندو بھی ہیں۔ سکھوں کا ایک گردوارہ بھی ہے۔

افغانستان میں لڑائی کے بعد بہت سے افغان مہاجرین یہاں پناہ گزین بن کر آئے، ان کی اچھی خاصی تعداد یہاں پر ہے۔ سرکاری نوکریوں اور فوج میں ایرانیوں کی وجہ سے یہاں ان کی اچھی خاصی ابادی مستقل بنیادوں پر رہ رہی ہے، جس کی وجہ سے یہاں سے جو دو مرکزی اسمبلی کی سیٹیں ہیں، جن میں سے ایک فارسی ہے۔

تفتان بارڈر یہاں سے 100 کلو میٹر پر ہے۔
یہاں چھوٹے صنعتی یونٹ ہیں ۔جہاں لوکل بلوچی مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close