یوں تو عام طور پر پاکستان میں لوگ بلوچستان کے ضلع زیارت کو برف باری کے باعث جانتے ہیں، تاہم صنوبر کے وسیع جنگلات بھی اس ضلعے کی ایک وجہ شہرت ہیں
صنوبر کا یہ جنگل اپنی انوکھی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اپنی قسم کا دوسرا سب سے بڑا جنگل ہے۔ یہاں کے درخت دنیا کے قدیم ترین پیڑوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کا سبب ان کا سست رفتاری سے بڑھنا اور زیادہ دنوں تک زندہ رہنا بتایا جاتا ہے
لیکن بدقسمتی سے وہاں لکڑی کے علاوہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور وہاں کے سینکڑوں باشندوں کو آگ کے لیے درخت کاٹنے کے علاوہ دوسرا چارہ نہیں
وہ اس بات سے بے خبر پیڑ کاٹتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب قیمتی حیاتیاتی وراثت کو تباہ کر رہے ہیں
صنوبر کی لکڑیوں کا مکان بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہرنائی، پشین اور لورالائی جیسے پڑوسی اضلاع میں بھی چھتوں اور دروازوں میں ان لکڑیوں کا استعمال ہوتا ہے
بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، قحط سالی، بارش اور برف باری میں بے قاعدگی نے بھی جنگل کو نقصان پہنچایا ہے۔ مقامی افراد کھیتی کے لیے بھی جنگل کاٹ رہے ہیں اور انہوں نے صنوبر کی جگہ پیسہ کمانے کے لیے پھلوں کے باغ لگائے ہیں
جنگل میں بعض درخت چار ہزار سال پرانے ہیں۔ یونیسکو نے اس علاقے کو ‘حیاتیاتی ذخیرہ’ قرار دیا ہے۔ ماہرین اسے زندہ باقیات کہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے مطالعے کا یہ بہترین وسیلہ ہو سکتے ہیں
لیکن جنگل کے بچنے کی امید رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہر چند کے صنوبر کے درخت کاٹنے پر پابندی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے لیکن اس کی کٹائی جاری ہے
یونیسکو کے مطابق یہ جنگل ایک لاکھ دس ہزار ایکٹر پر محیط ہے۔ موسمی حالات، انسانوں اور آگ لگنے کے خطرات سے دوچار اس جنگل کی حفاظت کے لیے کچھ مقامی لوگ بہرحال فکر مند بھی ہیں اور اپنی سی کوششیں بھی کر رہے ہیں
انہی میں اسے ایک زیارت کے مقامی شہری اور سماجی کارکن سدھیر احمد بھی ہیں، جو صنوبر کے جنگلات کی رضاکارانہ حفاظت کرتے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ صنوبر کے درختوں میں لگی آگ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ تاہم خوش قسمتی سے یہاں پر فی الحال ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا
سدھیر نے بتایا کہ ان کی مقامی شہریوں پر مشتمل ایک رضاکار تنظیم ہے، جو ان جنگلات کی حفاظت کرتی ہے
”ہم جنگل کو خطرات سے بچانے کے علاوہ لوگوں کو آگاہی دیتے ہیں کیوں کہ یہ علاقہ پورے ملک میں مشہور ہے۔ یہاں پر سیاحوں کی آمد جاری رہتی ہے“
انہوں نے بتایا ”یہ جنگلات بہت قدیم ہیں۔ ان درختوں کے بڑھنے کی رفتار کم ہے۔ ان درختوں پر عالمی ادارے آئی یو سی این نے کام کیا تھا، جس کے باعث یہ جنگل عالمی سطح پر مشہور ہوا“
ماہرین ماحولیات کے مطابق ویسے تو پاکستان کے چاروں صوبوں میں جنگلات ہیں، مگر صنوبر (جونیپر) کے جنگلات دنیا بھر میں سبزہ اور خوب صورتی کے اعتبار سے مشہور ہیں۔ صنوبر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ سست رفتاری سے بڑھنے والا درخت ہے ، جو 100 سال میں صرف ایک سے تین انچ تک بڑھتا ہے۔ اس کو کرۂ ارض کی حیاتیاتی تاریخ کے ارتقائی سفر کا ایک قدیم اور زندہ مسافر سمجھا جاتا ہے۔اسی بناء پر اسے ’’زندہ رکاز (living fossils) بھی کہتے ہیں۔ نباتات کی تاریخ میں صنوبر کے درخت قدیم ترین ماحولیاتی نظام کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں
سدھیر بتاتے ہیں ”ادارے نے چھ سات سال تک تحقیق کرنے کے بعد ایک رپورٹ شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ اس جنگل میں کچھ درختوں کی عمر پانچ ہزار سال تک ہے“
سدھیر کا کہنا ہے کہ وہ یہاں آنے والے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ پکنک کے دوران کھانا بنانے کے لیے آگ جلائیں تو درختوں سے دور جلائیں تاکہ ان کو خطرہ نہ ہو
سماجی کارکن سدھیر کے مطابق صنوبر کے جنگلات میں سیب، چیری اور دوسرے پھلوں کے درخت بھی پائے جاتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ زیارت چونکہ سطح سمندر سے بلند ہے، لہٰذا یہاں برف باری زیادہ ہوتی ہے۔ ’صنوبر کے درختوں کو برف باری سے فائدہ ہوتا ہے۔ جب یہاں پر برف باری ہوتی ہے تو یہ زیادہ ترو تازہ ہو جاتے ہیں۔‘
سدھیر کے مطابق زیارت شہر میں قدرتی گیس کی سہولت موجود ہے لیکن اندرون ضلع اور کچھ علاقوں میں یہ سہولت میسر نہیں۔ ’اگر یہ سہولت مل جائے تو ان جنگلات کو محفوظ کرنے میں مزید مدد مل سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہلے ان درختوں کو کاٹنے کا رجحان بہت زیادہ تھا لیکن رضاکاروں کی کوششوں سے اس میں بہت حد تک کمی آئی ہے
سدھیر نے بتایا کہ جنگل میں نایاب سلیمان مارخور کے علاوہ ریچھ، چیتے اور بھیڑیے بھی ملتے ہیں
یونیسکو کی ویب سائٹ کے مطابق زیارت میں صنوبر کے جنگل کو 2013 میں بائیوسفیئر ریزرو قرار دیا گیا تھا۔