ریپبلکنز نے امریکی ایوان نمائندگان میں معمولی اکثریت سے بالادستی حاصل کرلی ہے، جس سے صدر بائیڈن کے لیے قانون سازی مشکل ہوجائے گی۔ البتہ سینیٹ میں ان کی ڈیموکریٹ پارٹی کو ایک اضافی نشست کے ساتھ برتری حاصل ہو گئی ہے
واضح رہے کہ امریکہ میں ہر دو سال پر ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں اپوزیشن ریپبلکنز کو حسب توقع کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ 8 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ریپبلکنز امریکی سینیٹ پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی
متعدد خبر رساں ایجنسیوں اور نیوز چینلوں کی رپورٹوں کے مطابق وسط مدتی انتخابات میں نو اضافی نشستوں کے ساتھ ریپبلکنز نے 435 رکنی ایوان نمائندگان میں 218 نشستیں حاصل کر کے اس پر کنٹرول حاصل کر لیا، گوکہ یہ معمولی برتری ہے تاہم اس کی وجہ سے اگلے دو برس تک کے لیے ریپبلکنز صدر جو بائیڈن کی جانب سے کسی بھی قانون سازی کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں
انتخابات کے نتائج آنے کے بعد صدر بائیڈن نے اپنے پہلے ردعمل میں کہا کہ ایوان نمائندگان پر خواہ کسی بھی پارٹی کا کنٹرول ہو، وہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گے
ڈیموکریٹس کے لیے یہ بری خبر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے ایک روز بعد آئی، جس میں سابق امریکی صدر نے سن 2024ع میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے
امریکی ریاست فلوریڈا میں اپنی رہائشگاہ مارا لاگو میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ”امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے میں آج امریکی صدارت کے لیے دوبارہ امیدوار بننے کا اعلان کر رہا ہوں“
ان کا کہنا تھا کہ وہ منشیات فروشوں کے لیے سزائے موت پر زور دیں گے اور ان فوجی اہلکاروں کو دوبارہ ملازمت دیں گے جنہیں کورونا ویکسین لینے سے انکار پر برطرف کر دیا گیا تھا
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذکورہ اعلان سامنے آنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹوئٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک تنقیدی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے یاد دہانی کروائی کہ امریکا کو ناکام ٹرمپ نے بنایا
وسط مدتی انتخابات کے نتائج کے بعد ستاون سالہ کیوین میک کارتھی کو خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ ایوان میں ریپبلکنز کا رہنما منتخب کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ڈیموکریٹ نینسی پیلوسی کی جگہ کانگریس کے اگلے اسپیکر کی پوزیشن میں آ گئے ہیں
میک کارتھی نے اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کے بعد کہا ”ایک پارٹی ڈیموکریٹ کی حکومت کا دور اب ختم ہو گیا“
واضح رہے کہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکنز کے 435 اراکین 3 جنوری کو کانگریس کا نیا اسپیکر منتخب کریں گے، جو کہ امریکہ میں صدر اور نائب صدر کے بعد سب سے اہم ترین سیاسی عہدہ ہوتا ہے
ملک میں افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح اور بائیڈن کی مقبولیت کے گرتے ہوئے گراف کی وجہ سے ریپبلکنز کو وسط مدتی انتخابات میں بڑی کامیابی کی امید تھی تاکہ انہیں امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں پر کنٹرول حاصل ہوجائے اور وہ بائیڈن کی جانب سے کسی بھی قانون سازی کو موثر انداز میں روک سکیں
تاہم رو بنام ویڈ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور بعض ایسے امیدوار، جنہوں نے سن 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کی کھل کر مخالفت کی تھی، کی ٹرمپ کی جانب سے کھل کر تائید کرنے کے سبب ریپبلکنز کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی
انتخابات میں نتائج کے بعد جو بائڈن کے اختیارات میں کمی آئی تاہم انہوں نے اپنے پہلے ردعمل میں کہا کہ ایوان نمائندگان پر کسی بھی پارٹی کا کنٹرول ہو، وہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گے
مہنگائی اور اسقاط حمل کے موضوع
انتخابی مہم کا مرکز
وسط مدتی انتخابی مہم کا مرکز مہنگائی، ایندھن کی قیمتیں اسقاط حمل جیسے مسائل رہے ہیں
ایڈیسن ریسیرچ کے حتمی نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک تہائی ووٹرز کا کہنا ہے کہ مہنگائی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ ایک چوتھائی ووٹرز نے اسقاط حمل کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا
ووٹرز نے اپنے ماہانہ راشن، پیٹرول اور کرائے کے بل میں اضافے سے پریشان تھے جس کے بعد انہوں نے وائٹ ہاؤس اور کانگریس میں ڈیموکریٹس نمائندگان کو سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا
لاس انجیلس میں مئیر کے انتخابات کے دوران ایڈیسن ریسرچ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹ کیرن باس نے سابق ریپبلکن ارب پتی ریک کاروسو کو شکست دی، کیرن باس نے 53 فیصد زائد ووٹ حاصل کیے
سال 2024 کے صدارتی انتخابات پر ایک نظر
وسط مدتی انتخابات امریکی کانگریس، گورنرز اور مقامی افسران کے لیے ہوتے ہیں تاہم اب امریکا میں اگلے سال 2024ع کے صدارتی انتخابات کی گونج ہے
دوسری جانب ریپبلکز کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب 2024ع میں تیسری بار صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے
8 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ریپبلکنز امریکی سینیٹ پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی جس کے بعد متعدد اعتدال پسند ریپبلکنز نے ٹرمپ سے لاتعلقی کا بھی اظہار کیا تھا
اسی دوران ریپبلکن کے ران دی سانتس دوسری بار فلوریڈا کے گورنر منتخب ہوگئے ہیں انہوں نے اپنے حریف ڈیموکریٹ کے چارلی کرسٹ کو 20 فیصد پوائنٹ سے شکست دی تھی۔