سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں مبینہ طور پر ملوث پانچوں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرلی ہیں اور سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عدم ثبوت کی بنا پر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے
جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل سندھ کے ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی
تفصیلات کے مطابق عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان عبدالرحیم سواتی، احمد خان، امجد حسین خان، عمران سواتی اور ایاز سواتی کو سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے دی
عدالت نے کہا کہ ملزمان میں سے کسی پر بھی دراصل قتل کرنے کا الزام عائد نہیں کیا گیا جبکہ ان پر قتل کی منصوبہ بندی، قتل کے لیے اکسانے اور عملاً قتل کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے
ججوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پروین رحمٰن کا جو انٹرویو 2011ع میں کیا گیا تھا، اسے ان کے قتل کے بعد نشر کیا گیا، لہٰذا وہ عدالت میں قابلِ قبول ثبوت نہیں، اس لیے اسے خارج کیا جائے
عدالت نے حکم دیا کہ اگر ملزمان دوسرے کیسز میں مطلوب نہیں، تو انہیں رہا کردیا جائے
یاد رہے کے پروین رحمٰن کے قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت نے دسمبر 2021 میں ملزمان کو دو، دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی
پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا گیا تھا، جب وہ دفتر سے اپنے گھر کی جانب جا رہی تھیں
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا، تاہم وہ اس حملے میں وہ جانبر نہ ہو سکی تھیں
بعدِ ازاں مارچ 2015ع میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا
یاد رہے کہ 7 مئی 2017ع کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود میں واقع سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا
گزشتہ سال مارچ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر ضمنی چارج شیٹ میں ملزمان نے انکشاف کیا گیا تھا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن نے قتل سے پندرہ ماہ قبل انٹرویو کے دوران اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر کی ’زمین پر قبضہ کرنے والوں اور بھتہ خوروں‘ کی نشاندہی کی تھی
دوران سماعت ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی زیرِ نگرانی جے آئی ٹی کے ڈائریکٹر ڈی آئی جی پولیس بابر بخت قریشی نے ضمنی چارج شیٹ دائر کی تھی۔ جے آئی ٹی کے مطابق فری لانس صحافی فہد دیش مکھ نے پروین رحمٰن سے انٹرویو کیا تھا، جس میں انہوں نے ملزم رحیم سواتی کے ساتھ تنازع کا ذکر کیا تھا، جو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر کی اراضی پر ’کراٹے کا مرکز‘ قائم کرنا چاہتا تھا
یہ خبر بھی پڑھیں:
آٹھ برس بعد پروین رحمان قتل کیس کا فیصلہ، قتل کا پس منظر کیا ہے؟
کراچی – اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان قتل کیس کا آٹھ برس بعد فیصلہ ہوگیا ہے، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر چار مجرموں کو دو دو بار عمر قید کی سزا سنائی ہے
چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ انٹرویو میں پروین رحمٰن نے رحیم سواتی کو ’زمینوں پر قبضہ کرنے والا اور بھتہ خور‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے دفتر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتا ہے
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے صحافی فہد دیش مکھ کا بیان فوجداری طریقہ کار کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت درج کیا
چارج شیٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ گواہوں کے شواہد اور بیانات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پروین رحمٰن کو رحیم سواتی اور اس کے ساتھیوں نے قتل کیا
واضح رہے کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او کا قیام 1980ع میں عمل میں آیا تھا، یہ این جی او اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملات پر نظر رکھتی ہے
انسدادِ دہشت گردی عدالت نے گواہوں کے بیانات اور دلائل مکمل ہونے کے بعد 15 اکتوبر 2021 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور گزشتہ سال 17دسمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قتل میں ملوث چار ملزمان کو دو دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی تھی، جسے اب سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں:
ﭘﺮﻭﯾﻦ رحمٰن ﻗﺘﻞ ﮐﯿﺲ، ﺍﯾﻒ ﺍٓﺋﯽ ﺍﮮ ﻧﮯ ﺟﮯ ﺍٓﺋﯽ ﭨﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺍ ﺩﯼ