ایران کی سکیورٹی فورسز نے کرد آبادی والے اپنے مغربی علاقوں میں پیر کو سخت کریک ڈاؤن کیا، جس میں چوبیس گھنٹوں کے دوران ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند روز کے دوران کئی قصبوں میں حکومت مخالف شدید مظاہرے ہوئے ہیں، جن کی بڑی وجہ ان لوگوں کے جنازے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے تھے
کرد علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرنے والی ناروے میں قائم تنظیم ہینگا نے کہا ہے کہ ایرانی فورسز نے اتوار سے پیر تک پیران شہر، ماریوان اور جوانرود شہروں میں گولہ باری کی
اس تنظیم نے براہ راست فائرنگ کی آواز کے ساتھ وڈیوز پوسٹ کیں۔ ایک خوفناک وڈیو، جس کا تعلق ہینگا کے مطابق جوانرود سے ہے، میں مقامی لوگوں کو دکھایا گیا ہے، جو گولیوں کی بوچھاڑ میں سڑک سے ایک لاش کو اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں
ایک اور وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار مارے جانے والے نوجوان کاروان قدر شکری لاش کو دفنانے کے لیے لے جانے پر ان کی والدہ سجدہ کر رہی ہیں
حقوق تنظیم کے مطابق سوگواران نے کرد زبان میں نعرے لگائے کہ ’ماں، رونا مت۔ ہم بدلہ لیں گے۔‘
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے ایک وڈیو پوسٹ کی ہے جس میں دکھایا گیا کہ زخمی مظاہرین جوانرود کی سڑک پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے ارد گرد فائرنگ کی مسلسل آوازیں آ رہی ہیں
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’وہ نہتے شہریوں کے خلاف تشدد میں شدت لا رہے ہیں۔‘
آئی ایچ آر کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک اور وڈیو میں کرد آبادی والے صوبائی دارالحکومت کرمانشاہ میں سڑکوں پر لوگ ’(سپریم لیڈر آیت اللہ علی) خامنہ ای مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے
ہینگا نے فوٹیج پوسٹ کی ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بھاری ہتھیاروں سے لیس سکیورٹی فورسز کی ان گاڑیوں کی ہے، جو سنندج شہر سے مہاباد اور قریبی قصبے بوکان کی طرف بڑھ رہی ہیں
ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) گروپ نے بھی وڈیوز پوسٹ کی ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز پیران شہر میں مظاہرین کے خلاف براہ راست فائرنگ کر رہی ہیں
ہینگا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اس علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تیرہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے سات جوانرود، چار پیران شہر اور دو دیگر مقامات پر ہلاک ہوئے ہیں
ہینگا نے بتایا کہ اتوار کو سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سولہ سالہ کاروان قدر شکری بھی شامل ہیں
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جب اس نوجوان کی لاش مسجد لائی جا رہی تھی تو اس وقت بھی سکیورٹی فورسز نے لوگوں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتئجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا
ہینگا نے کہا کہ جوانرود میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ’شدید جھڑپوں‘ کی وجہ سے زخمیوں کے لیے خون کی بھی کمی تھی
سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران (سی ایچ آر آئی) نے کہا ہے کہ جوانرود میں ’قتل عام‘ ہو رہا ہے، تصاویر ہیں جن میں ’گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران خون میں لت پت لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جا رہا ہے۔‘
مظاہروں کے اثرات قطر میں بھی محسوس کیے گئے جہاں ایران کی قومی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف اپنا پہلا ورلڈ کپ گروپ میچ کھیلا۔ ایرانی کھلاڑیوں نے اپنا قومی ترانہ نہیں گایا، بلکہ خاموش کھڑے رہے
ایران کی فٹ بال ٹیم نے فیفا ورلڈکپ میں انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کر دیا کیونکہ ملک میں لوگوں نے ٹیم پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ملک میں جاری احتجاج کے خلاف پُرتشدد ریاستی کریک ڈاؤن کی حمایت کر رہی ہے
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق قطر میں خلیفہ انٹرینشل اسٹیڈیم انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل قومی ترانہ چلایا گیا تو کھلاڑی خاموش رہے، جہاں پر ہزاروں ایرانی مداح اسٹینڈز میں چیختے رہے
کچھ ایرانی تماشائیوں نے طنز کیا جبکہ دیگر نے انگوٹھا نیچا کر کے دکھایا
ایرانی فٹبال اسکواڈ طویل عرصے سے ایران میں قومی فخر کا ایک بہت بڑا ذریعہ رہا ہے، لیکن ایرانی حکومت کے حالیہ سفاکانہ اقدامات نے انہیں بھی احتجاج کی حمایت پر مجبور کر دیا ہے
ورلڈکپ دیکھنے کے لیے آنے والے ایک ایرانی مداح نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم سب اس لیے افسردہ ہیں کہ ایران میں ہمارے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے لیکن ہمیں اپنی ٹیم پر فخر ہے کیونکہ انہوں نے قومی ترانہ نہیں پڑھا
ایران کی درجنوں اہم شخصیات، ایتھلیٹس اور فنکاروں نے مظاہرین سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، اب فٹبال ٹیم نے پیر کو میچ سے قبل قومی ترانہ نہ پڑھ کر مظاہرین پر ایرانی حکومت کے کریک ڈاؤن کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے
ایران کے سرکاری ٹی وی نے قطر میں ہونے والے میچ میں قومی ترانے کے لیے قطار بنانے کے مناظر نہیں دکھائے
اس طرح ایرانی اسکواڈ بھی حکومت مخالف احتجاج سے متاثر ہونے سے بچ نہیں سکا، جس نے ایران کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا
مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران کی مذہبی حکومت کے لیے سب سے سنگین چیلنج بن گئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 378 افراد ہلاک ہوچکے ہیں
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی فورسز کی طرف سے تشدد سے مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے
واضح رہے کہ کرد ایران کے سب سے اہم غیر فارسی نسلی اقلیتوں میں سے ایک ہیں اور ملک کی غالب اکثریت اہل تشیع کی بجائے اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔