نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان بھارت اور نیپال سے چند قدم پیچھے رہتے ہوئے ایڈز کی وبا کے معاملے میں جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے
ادارے کے مطابق تمام تر کوششوں کے باوجود گذشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں ایڈز انفیکشن کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور درحقیقت ملک ’کم سے کم پھیلاؤ‘ کے لیول سے ’مرتکز وبا‘ کی سطح پر پہنچ گیا ہے
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت دو لاکھ دس ہزار افراد ایڈز کی وجہ بننے والے وائرس (ایچ آئی وی) کا شکار ہیں، جن میں سے تقریبا 54 ہزار ملک میں قائم 51 ایڈز مراکز میں رجسٹرڈ ہیں
اقوام متحدہ کے ایڈز پروگرام (UNAIDS) کے اعداد و شمار کے مطابق ایڈز کے وائرس کا شکار ہونے والوں میں ایک لاکھ ستر ہزار پندرہ سال یا زیادہ عمر کے مرد، اور اسی عمر کی اکتالیس ہزار خواتین ہیں، جبکہ چودہ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد چھیالیس ہزار ہے
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2021ع تک دنیا بھر میں تین کروڑ اسی لاکھ چالیس ہزار افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، جن میں سترہ لاکھ بچے شامل ہیں
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) ایچ آئی وی اور ایڈز کے عالمی ردعمل میں پیچھے رہ جانے والی آبادیوں پر نئی توجہ مرکوز کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے
ادارے کے مطابق ایڈز کی وجہ بننے والے وائرس (ایچ آئی وی) کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے صرف باون فی صد بچوں کو زندگی بچانے والا علاج میسر ہے
ادارے کا کہنا ہے ”اگر ہم بچوں میں نئی ایڈز انفیکشن کے خاتمے میں پیش رفت دکھا سکتے ہیں اور یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ ایسے سب بچوں کو ایچ آئی وی کا معیاری علاج (اینٹی ریٹرو وائرلز یا اے آر ویز) میسر ہے، تو ہم پُر امید ہیں کہ 2030ع تک تمام آبادیوں میں ایڈز ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایڈز کے خاتمے کے لیے زیادہ سیاسی عزم کو یقینی بنا سکتے ہیں“
عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ستر فیصد ایچ آئی وی کے نئے شکار پسماندہ آبادیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اور اکثر مجرم ہوتے ہیں
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ صرف ایچ آئی وی خدمات کو بڑھا کر ایڈز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے
پاکستان میں ایڈز
بلوچستان: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 31 اکتوبر 2022ع تک بلوچستان کے صوبائی صدر مقام کوئٹہ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ کے رجسٹرڈ افراد کی تعداد 1665 ہے، جن میں 1222 مرد، 355 عورتیں، 70 بچے اور 18 ٹرانسجینڈرز شامل ہیں
اسی طرح تربت میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 351ہے، جن میں سے 295 مرد، 42 عورتیں اور 12 بچے ہیں
گذشتہ سال کوئٹہ میں رجسٹرد مریضوں کی تعداد پندرہ سو سے کم اور تربت میں لگ بھگ چار سو تھی
بلوچستان ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈپٹی مینیجر ڈاکٹر داؤد خان بتاتے ہیں ”پاکستان میں ان سکرینڈ بلڈ، ان سٹریلائزڈ سرنج یا دانت نکلوانے میں یا سرجری میں استعمال ہونے والے اوزار، عطائی ڈاکٹر جو اپنے اوزار استعمال کرنے میں احتیاط نہیں برتتے، کی وجہ سے یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔“
ان کا کہنا تھا ”بلوچستان میں سات ہزار سے زیادہ ایڈز سے متاثرہ افراد ہیں، جن میں سے تقریباً دو ہزار رجسٹرڈ ہیں. غیر رجسٹرڈ افراد لاعلمی میں ہمارے پاس نہیں آ رہے، اور وائرس کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں“
ڈاکٹر داؤد کا کہنا تھا ”کوئٹہ کے علاوہ تربت، ژوب، شیرانی، نصیر آباد، چمن اور قلعہ عبداللہ بھی ہائی رسک اضلاع ہیں۔ کان کنوں کے علاقوں میں بھی ایڈز کا موجب بننے والا وائرس بہت زیادہ ہے“
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایڈز کے مفت علاج اور مفت دوائیوں کی دستیابی کے لیے پانچ مراکز ہیں، جبکہ تمام ضلعی صحت کے مراکز میں ایڈز سکریننگ سینٹر موجود تھے۔
صوبہ سندھ : وزارتِ صحت سندھ کی جانب سے عالمی دن برائے ایچ آئی وی ایڈز کے موقع پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موجود ایچ آئی وی متاثرہ افراد میں سے 43 فیصد یا (90 ہزار) صوبہ سندھ میں موجود ہیں
صوبہ سندھ کے سولہ ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سنٹرز میں اس وائرس سے متاثرہ تقریباً بیس ہزار افراد رجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے 46 فیصد کا تعلق کراچی سے ہے
محکمہ صحت سندھ نے چند روز قبل ایچ آئی وی ایڈز کا علاج نہ کروانے کو قابل سزا جرم قرار دیا ہے، جس کے لیے پچاس ہزار سے بیس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا بھی مقرر کی ہے
صوبہ پنجاب : آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر اختر ملک نے ایک سیمینار کو بتایا کہ صوبے میں اب تک اکیس لاکھ افراد کی ایچ آئی وی اسکریننگ ہو چکی ہے، جبکہ مجموعی طور پر سینتیس ہزار افراد میں ایچ آئی وی ایڈز کی تصدیق ہوئی ہے
ان کا کہنا تھا ”اس وقت پنجاب بھر میں سترہ ہزار سے زیادہ افراد کو تشخیص، علاج، مشاورت اور ادویات کی مفت سہولت دستیاب ہے۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام صوبے میں پینتالیس مراکز پر ایچ آئی وی ایڈز کے علاج کی مفت سہولیات فراہم کر رہا ہے، اور ایڈوانس بائیو سیفٹی لیول کی تین لیبارٹریوں میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو مفت ٹیسٹ کی سہولت مہیا کر رہا ہے“
ڈاکٹر اختر ملک کے مطابق ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلنے کی شرح مخصوص گروہوں میں زیادہ ہے، جبکہ ساتھ کھانا کھانے اور ہاتھ ملانے سے یہ وائرس منتقل نہیں ہوتا
انہوں نے کہا ”پنجاب میں ٹرک اور بس ڈرائیور اور جیل کے قیدیوں کی مفت ایچ آئی وی اسکریننگ کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔“
صوبہ خیبرپختونخوا : خیبر پختوانخوا سے ایڈز کے مریضوں کے تازہ ترین اعداد و شمار میسر نہیں، البتہ 2020ع میں صوبائی حکومت کی جانب سے ’ایڈز کنٹرول اسٹریٹیجی 2021ع تا 2025ع‘ نامی ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں ایڈز کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کی کل تعداد بارہ ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ صوبے میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صوبے کے دو بڑے شہروں یعنی بنوں اور پشاور میں ایچ آئی وی کی منتقلی کے زیادہ کیسز مرد کے مرد سے جنسی تعلقات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں، جبکہ انجیکشن استعمال کرنے والوں اور ٹرانس جینڈر/سیکس ورکرز میں بھی ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی کافی تعداد موجود ہے
دارالحکومت اسلام آباد: ایک ہفتہ قبل جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد میں اس سال اکتوبر تک اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر کے پانچ سو سے زیادہ افراد میں اس موزی وائرس کی تصدیق ہوئی۔