اگر پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر کا ارادہ ہے تو یہ ضرور پڑھیں

ویب ڈیسک

دیکھا گیا ہے کہ معلومات کی کمی کی وجہ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور دیگر شہروں سے آنے والے سیاح بالائی علاقوں کی سیاحت پر دس گنا زیادہ اخراجات کرتے ہیں، جس کی بڑی وجہ ان کا ناجائز منافع خوروں کے ہتھے چڑھنا ہوتا ہے

قیصر عباس صابر کے مطابق جب وہ لوگ ٹرین کے ذریعے راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچتے ہیں یا وہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو وہ ٹیکسی ایسوسی ایشن کے کارندوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ رینٹ اے کار والے ہفتہ بھر کا پیکج دیتے ہوئے پہاڑوں کا صحیح نرخ موصول کرتے ہیں

مری، نتھیا گلی، ایوبیہ، ناران، شوگران اور گلگت بلتستان تک کے ہوٹل ریلوے اسٹیشن پر ہی طے کر لیے جاتے ہیں۔ اگر سیاح گھوم پھر کر خود معاملات طے کریں تو آدھی سے زیادہ بچت ممکن ہے۔ ٹیکسی والے کا کردار صرف سفر تک ہی محدود ہو تو کسی بھی ہل اسٹیشن پر سستے کمرے اور مناسب کھانا مل سکتا ہے

اس کے علاوہ بہترین تفریح اور حیران کن برفیلی بلندیوں کے نظاروں کے لیے درست علاقے کا انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس بجٹ میں سیاح مری اور ناران میں صرف دو دن گزارتے ہیں اور بدلے میں آلودگی وصول کرتے ہیں، اسی قیمت پر وہ ہفتہ دس دن گزار سکتے ہیں مگر انہیں کچھ فیصلے ہجوم سے ہٹ کر کرنا ہوں گے

مری ایک ایسی جگہ بن چکی ہے جو تعطیلات کو آلودگی کی نذر کرنے کا باعث ہے، جہاں موسم بھی کمال ہوتا ہے اور شہر کی تمام سہولیات بھی میسر ہیں۔ اسی طرح ناران اور کالام کی وادیاں بھی مری کا عکس ہیں، جہاں مہنگائی اور شور شرابہ آپ کا استقبال کرتا ہے

اگر ناران کا رخ کرنے والے لوگ ناران کے بازار سے دو کلومیٹر آگے قیام کریں، تو دریائے کنہار کنارے بنے سستے ہوٹل ان کی سیر کو یادگار بنا سکتے ہیں، جہاں حیران کن حد تک سستے کمرے دستیاب ہوتے ہیں۔ ناران سے دس کلومیٹر بابو سر کی طرف بٹّہ کنڈی منی ہل اسٹیشن بن چکا ہے، جہاں فطرت سرگوشیاں کرتی ہے۔ لالہ زار کی بلندی بھی سیاحوں کی جیب کترنے سے گریز کرتی ہے

وادی سوات جانے والے کالام کی بجائے مالم جبہ میں قیام کریں تو انہیں تفریح زیادہ مہنگی نہیں پڑے گی

بابو سر ٹاپ کی اترائی آپ کو مزید سستے اور پرامن علاقے میں خوش آمدید کہے گی۔ زیرو پوائنٹ چوک پر دریائے سندھ جب اپنی طغیانی کی سلامی پیش کرتا ہے تو قراقرم ہائی وے بھی بھلی لگتی ہے۔ رائے کوٹ پل پر اپنی گاڑی چھوڑ دیں اور جیپ کے ذریعے ذرا اوپر پریوں کی چراگاہوں تک چلیے جسے ’فیری میڈوز‘ کہتے ہیں

یہاں نانگا پربت کا برفانی وجود بلکل واضح ہو کر سامنے کھڑا ہوتا ہے اور مئی جون میں بھی آپ جو آگ کے الاؤ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت کم بجٹ میں ایک یادگار سفر آپ کے گوشوارے میں لکھا جاتا ہے۔ فیری میڈوز سے تین گھنٹے کی پیدل مسافت بیال کیمپ تک لے جاتی ہے، بیال کیمپ نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے

پاکستان کا خوبصورت ترین گاؤں ترشنگ بھی مہنگا نہیں پڑتا۔ یہ گاؤں بھی قاتل پہاڑ کا دوسرا بیس کیمپ ہے، جسے روپل چہرہ کہتے ہیں

راما کی وادی ضلع استور کا خوبصورت مقام ہے، جہاں کم قیمت پر کھانا اور رہائش دستیاب ہوتی ہے۔ گلگت کی وادی غذر، پھنڈر اور یاسین میں ہوٹل سستے اور سیب مفت میں دستیاب ہوتے ہیں۔ دریائے غذر جیسی خوبصورتی پورے شمال میں کہیں نہیں۔ اسکردو میں دیوسائی میدان سطح مرتفع پر واقع ہے، جہاں جون میں بھی برف باری ہوتی ہے، وہاں ایک ہزار روپے میں خیمہ مل سکتا ہے

اگر آپ ہنزہ جائیں اور عطا آباد جھیل آپ کو اپنی طرف بلائے تو یاد رکھنا کبھی بھی ہنزہ میں رہائش نہ رکھنا وہ بہت مہنگی ہوگی۔ چند فرلانگ دور نگر اور منا پن میں اپنائیت ملے گی، لوگ بھی محبت کرنے والے اور مہمان نواز ہیں

اگر سیاح ان مشوروں پر عمل کریں تو ان کی سیاحت قدرے کم خرچ ہو سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close