قطر کو ورلڈکپ فٹبال کی میزبانی ملنے سے لے کر ورلڈکپ شروع ہونے کے بعد اب تک مغربی دنیا اور اس کے ذرائع ابلاغ کے رویے سے ’بدہضمی‘ کی علامات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ ’بدہضمی‘ اس حد تک بڑھی کہ گزشتہ دنوں فیفا کے سربراہ کو اپنے سخت بیان سے اس کا ’علاج‘ کرنا پڑا، جنہوں نے یورپ کو منافق تک قرار دے دیا
قطر میں 2022ع کے عالمی فٹبال کپ کے انعقاد کو ممکن بنانے میں تارکینِ وطن مزدوروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان مزدوروں کو ایک اسٹیڈیم میں میچ دکھائے جا رہے ہیں
قطر کی ٹیم نے جب منگل کو نیدرلینڈز کے خلاف ورلڈکپ کا اپنا آخری میچ کھیلا تو دوحہ کے مضافات میں واقع ایشین ٹاؤن کرکٹ اسٹیڈیم ایک بار پھر سرگرمیوں کا مرکز بنا
اس اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ یہ سب ایک ہی بڑی اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ اس طرح بہت سے مہاجر مزدور انڈسٹریل فین زون میں بیٹھ کر ورلڈکپ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دوحہ کی شاندار سڑکوں اور فلک بوس عمارتوں سے پینتالیس منٹ کی ڈرائیو پر اس علاقے میں آپ کسی سیاح کو نہیں دیکھیں گے۔ یہ اسٹیڈیم تارکین وطن مزدوروں کی سلطنت ہے، جہاں وہ ورلڈکپ کا بھرپور لطف اٹھاتے نظر آتے ہیں
ہر روز ہزاروں لوگ ورلڈکپ میچ دیکھنے یہاں آتے ہیں۔ ان شائقین میں اکثریت کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بھارت، بنگلہ دیش، کینیا، نیپال یا پاکستان سے ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد وہ ہیں، جنہوں نے میزبان قطر کی طرف سے ورلڈکپ کے انعقاد کے لیے بنائے گئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں حصہ لیا
دوحہ کے مرکز سے مختلف ماحول
اس رات موسیقی کے ساتھ ان مزدوروں کا دل بہلایا گیا، کیونکہ شو کے میزبان نے ہجوم کی زوردار تالیوں میں ان میں سے کچھ کو ہندی اور اردو میں لفظی کھیل کھیلنے کے لیے بڑے اسٹیج پر بلایا
چھبیس سالہ اومنا ریان ایک نیپالی الیکٹریشن ہیں، جو چار سال قبل قطر منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے اس ایونٹ کی کچھ فوٹیج اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر اپلوڈ کیں، جہاں ان کے دو ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔ بیرون ملک زندگی کی ان تصاویر اور وڈیوز نے انہیں پیچھے اپنے ملک میں اپنے دوستوں میں مقبول بنا دیا ہے
ریان ایک ماہ میں بارہ سو ریال ($329) کماتے ہیں، جس کا بڑا حصہ وہ اپنے والدین کو واپس گھر بھجواتے ہیں۔ ریان بتاتے ہیں ”.یہاں کی تنخواہ نیپال سے بہتر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں قطر چلا آیا‘‘
یہی صورتحال بھارت سے تعلق رکھنے والے پچیس سالہ تعمیراتی ورکر ابراہیم غازی کی بھی ہے۔ وہ بہت سے لوگوں کی طرح ذاتی طور پر کسی ایک کھیل میں شرکت کی اپنی حتمی خواہش پوری نہیں کر سکے
ابراہیم کہتے ہیں ”جب میں نے ٹکٹ خریدنے کی کوشش کی، تو وہ بک گئے۔‘‘ غازی ماہانہ تین ہزار ریال ($797) کماتے ہیں
اگرچہ یہ تنخواہیں مغربی معیارات کے مطابق زیادہ نہیں ہیں لیکن جنوب مشرقی ایشیا کے یہ افراد قطر کی جانب سے ان تنخواہوں کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے، جس سے وہ اپنے آبائی ممالک سے زیادہ کماتے ہیں اور اپنے زیر کفالت افراد کی مدد کرتے ہیں
کسی بھی ملک کی طرح ملازمتوں سے جڑے خطرات سے قطر بھی مبرا نہیں ہے، اس لیے تعمیراتی کام کے دوران ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئیں۔ اس ہفتے ورلڈکپ کی آرگنائزنگ کمیٹی کی سپریم کمیٹی آف ڈیلیوری اینڈ لیگیسی کے سیکرٹری جنرل حسن التہوادی نے کہا کہ 2014ع اور 2020ع کے درمیان 414 اموات ہوئیں۔ تاہم مغربی ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹس میں اموات کی تعداد 6,500 سے زیادہ بتائی ہے
التہوادی نے کہا کہ ورلڈ کپ کی جانچ پڑتال کے ساتھ روزگار کے قوانین میں بہتری لائی گئی ہے، جس سے تارکین وطن کارکنوں کے تئیں رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اموات کو روکنے کے لیے کام کی جگہوں پر صحت اور حفاظت کے اقدامات کو بھی بہتر بنایا گیا ہے
ان تارکین وطن مزدوروں کو اب کسی قدر فٹبال ورلڈ کپ کی تفریح کا حصہ بنایا گیا ہے۔ فٹبال کا جادو روزمرہ کے چیلنجوں اور پریشانیوں سے دور لے جا سکتا ہے اور یہی بات پورے ٹورنامنٹ میں ایشین ٹاؤن کرکٹ اسٹیڈیم میں ہوتی رہی ہے
یہاں تارکینِ وطن مزدور جمع ہوتے ہیں، اور ان لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں۔ جب فٹبال میچ نہیں چل رہا ہوتا تو مختلف فنکار اسٹیج پر پرفارم کرتے ہیں۔ گزشتہ شام بھارتی اداکارہ لِنسیا روزاریو نے سامعین کو اپنی پرفارمنس سے محظوظ کیا
اس حوالے سے روزاریو نے کہا ”یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اسٹیڈیم بنائے اور یہی وجہ ہے کہ آج قطر، قطر ہے، اور ان کے لیے یہ کرنا اعزاز کی بات ہے۔ میں یہاں اس لمحے کو ان کے لیے خاص بنانے کے لیے ہوں اور انہیں اس لمحے میں زندہ رہنے کے لیے اس کام سے لطف اندوز کرنے کے لیے حاضر ہوں، جو انہوں نے کیا ہے‘‘
کئی حاضرین اسٹیج پر آئے اور لاؤڈ اسپیکرز سے بجنے والی موسیقی پر رقص کرتے رہے اور دیگر افراد زور سے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دیے
تاہم یہ تارکین وطن مزدور ورلڈ کپ میں قطر کی شکست پر رنجیدہ ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے ابراہیم غازی کا کہنا تھا ”ہمیں اپنی ٹیم سے پیار ہے۔ یہ افسوسناک ہے لیکن قطر ابھی فٹبال میں بہت اچھا نہیں ہے‘‘