آپ کرونا وائرس کی نئی قسم ‘اومیکرون’ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

ویب ڈیسک

کراچی – کورونا وائرس کی لپیٹ میں آئی ہوئی دنیا نے کیسز میں کمی کے بعد بمشکل سکھ کا سانس لیا تھا اور زندگی کچھ حد تک معمول کی طرف لوٹنا شروع ہوئی تھی کہ جنوبی افریقہ میں کورونا کی نئی قسم ‘اومیکرون’ کے انکشاف کے بعد ایک بار پھر مختلف ممالک وائرس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھاتے ہوئے مختلف پابندیاں عائد کر رہے ہیں

اطلاعات کے مطابق جاپان اور اسرائیل نے اپنے ممالک کی سرحدیں غیر ملکیوں کے لیے بند کر دی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی دیگر ممالک نے جنوبی افریقہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی ہے

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں پائی گئی، جس کے بعد آسٹریلیا، بیلجئم، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، ہانگ کانگ، اسرائیل، اٹلی، بوٹسوانا اور نیدرلینڈ میں بھی یہ ویرینٹ پایا گیا ہے

جنوبی افریقہ کے سائنس دانوں نے اس قسم سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کو آگاہ کیا تھا، جس کے بعد جمعے کو عالمی ادارۂ صحت نے اسے ‘تشویش ناک قسم’ قرار دیا

کورونا کی اس نئی قسم کا نام یونانی حروف سے اخذ کیا گیا ہے، جب کہ عالمی ادارۂ صحت نے اس کی شدت کے بارے میں کہا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے ‘کچھ دنوں سے ہفتے’ لگ سکتے ہیں

اس سے قبل کورونا وائرس کے سامنے آنے والے ویرینٹ کو ڈبلیو ایچ او نے الفا، بیٹا اور ڈیلٹا کا نام دیا تھا جن میں سے سب سے زیادہ ڈیلٹا قسم مہلک ثابت ہوئی تھی

کورونا کی اومیکرون قسم سامنے آنے کے بعد مختلف ملکوں نے ایک مرتبہ پھر احتیاطی تدابیر کے تحت پابندیوں کا اعلان شروع کر دیا ہے

جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کشیدا نے منگل سے غیر ملکیوں کے لیے سرحدیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا اس وقت تک رہے گا جب تک اومیکرون سے متعلق تفصیلات واضح نہیں ہو جاتیں

جبکہ برطانیہ نے موجود صورتِ حال کے تناظر میں پیر کو جی سیون ممالک کے وزرائے صحت کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اگرچہ اب تک یہ واضح نہیں کہ کورونا وائرس کی اومیکرون قسم سب سے پہلے کہاں پائی گئی تھی۔ لیکن جنوبی افریقہ کے سائنس دان ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے گاؤٹینگ میں کورونا وبا کے حالیہ کیسز میں اضافے کا سبب اومیکرون کو قرار دے رہے ہیں، لیکن اس حوالے سے کوئی شواہد سامنے نہیں آ سکے

جنوبی افریقہ میں حالیہ ہفتوں میں یومیہ کیسز کی تعداد دو سو سے بڑھ کر تین ہزار دو سو سے زیادہ ہو گئی تھی، جس میں زیادہ تر کیسز گاؤٹینگ میں پائے گئے تھے

جنوبی افریقہ کے وزیرِ صحت جوپالا نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں کرونا کیسز میں ‘تیزی سے اضافے’ کا سبب اومیکرون قسم سے ہے

ان کے بقول کیسز میں حالیہ اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے سائنس دانوں نے مختلف نمونوں کا جائزہ لیا، جس کے دوران کورونا کا ایک نیا ویریئنٹ یعنی نئی قسم دریافت کی

‘کوازولو ناتال ریسرچ انوویشن اینڈ سیکویئنسنگ’ پلیٹ فارم کے ڈائریکٹر تولیو دولیویرا کے مطابق گاؤٹینگ میں پائے جانے والے کورونا کے نئے کیسز میں سے نوے فی صد نئی قسم کی وجہ سے ہیں

ماہرین کے ایک گروپ کی جانب سے نئی قسم کے اعداد و شمار کے جائزے کے بعد عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ابتدائی شواہد پہلے پائی جانے والی اقسام کے مقابلے میں نئی قسم دوبارہ متاثر ہونے (ری انفیکشن) کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں

یعنی جو لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور پھر صحت یاب ہوگئے وہ اس سے دوبارہ متاثر ہو سکتے ہیں

یونیورسٹی آف کیمبرج میں برطانیہ میں کووڈ-19 کے جینیاتی تسلسل کی سربراہی کرنے والے شیرون پیکاک کا کہنا ہے کہ اب تک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کورونا کی نئی قسم تیزی سے تبدیل ہونے اور پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ بہت سی تبدیلیوں کی اہمیت ابھی معلوم نہیں

یونیورسٹی آف واروک کے وائرولوجسٹ لارینس ینگ کے مطابق اومکرون سب سے زیادہ تبدیل شدہ ورژن ہے اور ممکنہ طور پر یہ تشویش ناک بھی ہے کیوں کہ اس میں پائی جانے والا تغیر پہلے کبھی ایک وائرس میں نہیں دیکھا گیا

اگرچہ سائنس دان جانتے ہیں کہ اومیکرون گزشتہ ویریئنٹس بشمول بیٹا اور ڈیلٹا سے جینیاتی طور پر مختلف ہے، لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ جینیاتی تبدیلیاں اسے زیادہ تیزی سے منتقل ہونے والا یا خطرناک بناتی ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ویریئنٹ شدید قسم کی بیماری کا سبب بنتا ہے

ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کا پتا لگانے میں ایک ہفتہ درکار ہوگا کہ آیا اومیکرون زیادہ متعدی ہے اور کیا اس کے خلاف موجودہ ویکسینز اب بھی کار آمد ہیں

امپیریل کالج لندن میں تجرباتی دوا کے پروفیسر پیٹر اوپن شا کا کہنا ہے کہ یہ ‘امکان انتہائی کم’ تھا کہ موجودہ ویکسین اس کے خلاف کام نہیں کریں گی۔ ان کے بقول یہ ویکسین مختلف دیگر اقسام کے خلاف مؤثر ہیں

اگرچہ اومیکرون میں ہونے والی کچھ جینیاتی تبدیلیاں بظاہر تشویش کا باعث ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا یہ عوامی صحت کے لیے خطرے کا باعث بنیں گی

پیکاک کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ آیا یہ نئی قسم ان خطوں میں جہاں ڈیلٹا موجود ہے وہاں جاسکتی ہے یا نہیں

‘اے پی’ کے مطابق کورونا وائرس اپنے پھیلاؤ کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور کئی نئی اقسام جس میں کچھ تشویش ناک جینیاتی تبدیلیاں پائی جاتی ہیں اکثر مر جاتی ہیں

سائنس دان کورونا وائرس کے ایسی تبدیلیوں کی نگراتی کرتے ہیں، جو زیادہ تیزی سے منتقل ہونے والی یا جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ البتہ وہ صرف وائرس کو دیکھ کر اس کا تعین نہیں کرسکتے

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے عالمی سطح پر کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون کے ممکنہ مزید پھیلاؤ کا امکان ظاہر کیا ہے

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اومی کرون ویرئینٹ کے سبب مستقبل میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، اومی کرون ویرئینٹ کے قوت مدافعت پر اثر سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہے

عالمی ادارہ کا کہنا ہے کہ اومی کرون ویرئینٹ کے قوت مدافعت پر اثرات سے متعلق اعداد و شمار آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہیں

ڈبلیو ایچ او نے کورونا کے اومی کرون ویرئینٹ سے متعلق بریفنگ میں رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ کورونا کے نئے ویرئینٹ کے کیسز، کلسٹرز کو رپورٹ کریں، کورونا کے خلاف ویکسینیشن کا عمل تیز کریں اور بروقت بین الاقوامی سفر کیلئے خطرے پر مبنی اپروچ استعمال کریں

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اومی کرون ویرئینٹ میں اسپائک میوٹیشنز کی بڑی تعداد موجود ہے، مجموعی طور پر اومی کرون ویرئینٹ کے انسانی مدافعتی نظام پر اثر سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close