پلاسٹک سلنڈر اور دیگر طریقے۔۔ پاکستانی، گیس کی قلت کے باعث کیا کیا جگاڑ کر رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

خیبرپختونخوا کے مختلف بازاروں میں آج کل غیر قانونی طور پر پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس فروخت کی جا رہی ہے، جنہیں خریدنے والے گویا ہر وقت خطرے سے دو چار ہیں

جن تھیلوں میں یہ گیس فروخت ہو رہی ہے انہیں ’پلاسٹک سلنڈر‘ کہا جاتا ہے

یہ ’سلنڈر‘ دراصل دو گز پلاسٹک کے تھیلے کا ایک مستطیل غبارہ ہوتا ہے، جس کے منہ پر ایک نوزل اور ہینڈل لگا ہوا ہوتا ہے۔ صارفین گیس سے بھرے اس غبارے کو چولہے کے ساتھ منسلک کر کے اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرتے ہیں

کمپنی کی جانب سے دستیاب اسٹینڈرڈ دھاتی سلنڈر ہائی کاربن اسٹیل، مینگنیز اسٹیل یا ایلمونیئم کے مرکب سے بنے ہوتے ہیں اور گیس کے دباؤ کو برداشت کرنے کے اہل ہوتے ہیں

تاہم ’سائنس ڈائریکٹ‘ نامی ایک غیرملکی ویب سائٹ کے مطابق ان تمام خصوصیات کے باوجود کسی بھی کوتاہی کے سبب ایک دھاتی سلنڈر کے پھٹنے کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں

اس کے برعکس تین سو روپے میں ملنے والا ایک پلاسٹک کے تھیلے سے بنا سلنڈر صرف تیل کا ایک گرم قطرہ گرنے سے بھی پگھل سکتا ہے اور خطرناک حادثے کا سبب بن سکتا ہے

لیکن اس غیر قانونی فروخت میں ملوث دکاندار نتائج سے لاپروا نظر آتے ہیں

پشاور کے ایک بازار کے ایک دکان دار نے بتایا کہ ’پلاسٹک سلنڈر بالکل خطرناک نہیں ہے۔‘

ایک دوسرے دکاندار نے کہا کہ وہ چند پیسے کمانے کی خاطر اسے فروخت کر رہے ہیں

ایک دکاندار نے بتایا کہ صرف خیبر بازار میں بیس سے زائد دکانیں ایسی ہیں، جو پلاسٹک سلنڈر بنا کر فروخت کر رہی ہیں

جبکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اِن دنوں بہت سے شہری ایک انگیٹھی کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ پشاور کے ریتی بازار میں یہ انگیٹھی فروخت کرنے والے دکاندار مدثر کے مطابق مٹھی بھر میٹریل انگیٹھی میں ڈال کر اس پر تھوڑا سا مٹی کا تیل ڈال دیتے ہیں اور آگ لگاتے ہیں، جب میٹریل آگ پکڑ لیتا ہے تو پھر اس میں لگا دو، تین انچ کا چھوٹا سا پنکھا چلا دیا جاتا ہے، جو آگ کو بھڑکا دیتا ہے اور چولہا دیر تک دہکتا رہتا ہے

انہوں نے بتایا ’اس انگیٹھی میں چھوٹا سا پنکھا لگا ہوا ہے جو کم بجلی یا موبائل چارج کرنے والے پاور بینک سے بھی چلتا ہے۔ اس میں جلانے والا میٹریل جانوروں کے گوبر اور لکڑی کے برادے سے تیار کیا جاتا ہے جو ناصرف وزن میں ہلکا ہے بلکہ پشاور شہر میں اسی سے نوے روپے فی کلو دستیاب ہے۔ یہ میٹریل ایک دفعہ آگ پکڑ لے تو دو گھنٹے تک جلتا رہتا ہے۔‘

پشاور میں یہ انگیٹھی فروخت کرنے والے مقامی دکانداروں کے مطابق بنیادی طور پر یہ انگیٹھیاں (جنھیں مقامی سطح پر بلور کہا جاتا ہے) سب سے پہلے صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں متعارف کروائی گئیں مگر اب یہ متعدد شہروں میں تیار ہو رہی ہیں اور مارکیٹ میں ان کی بہت مانگ ہے

پشاور کے مقامی صراف حاجی ظاہر شاہ بتاتے ہیں ’میرے گھر میں پہلے بھی دو اس طرح کی انگیٹھیاں استعمال ہو رہی ہیں اور گھر میں خواتین ان کی کارکردگی سے خوش ہیں۔ یہ کم خرچ ہے اور اس سے کھانا پکانے کے علاوہ کمرہ گرم بھی ہو جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ پشاور میں ورسک روڈ پر رہتے ہیں جہاں گیس کی بہت قلت ہے۔ ’اکثر بچے ناشتہ کیے بغیر سکول جاتے تھے، کبھی رات کو گیس نہیں ہوتی تھی تو کھانا پکانے میں مشکلات ہوتی تھیں۔‘

آپ سوچ رہے ہوں کہ 21 ویں صدی میں جانوروں کے گوبر اور لکڑی کے برادے پر مشتمل ایندھن جلانے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟

اس کا جواب نوشہرہ کے شہری سرفراز کچھ ان الفاظ میں دیتے ہیں ’ہمارے لیے تو پرانا دور واپس آ گیا ہے، وہی دور جب گھروں میں لکڑیاں یا اُوپلے (جانوروں کے گوبر سے بنایا جانے والا ایندھن) جلا کر کھانا بھی بنایا جاتا تھا اور انگیٹھی میں یہی ایندھن ڈال کر کمرہ گرم کیا جاتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں گیس پائپ لائن اور میٹر تو موجود ہیں لیکن گیس نہیں ہے۔‘

سرفراز گیس کی عدم موجودگی کے باعث اِن دنوں لکڑیاں اور جھاڑیاں بازار سے خرید کر لاتے ہیں

سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں قدرتی گیس کی شدید قلت دیکھنے میں آ رہی ہے جو شہریوں کو مارکیٹ میں موجود توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب راغب کر رہی ہے۔ کہیں لکڑیاں اور جھاڑیاں تو کہیں ایل پی جی اور کہیں خاص ایندھن سے چلنے والی انگیٹھیاں وغیرہ خریدی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ موجودہ حکومت موسم سرما کی آمد سے قبل ہی ملک میں قدرتی گیس کی شدید قلت اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے کئی علاقوں میں دن میں 16 گھنٹے تک گیس کی لوڈشیڈنگ کا اعلان کر چکی ہے

ادہر نوشہرہ کے بہت سے علاقوں میں گیس کی قلت ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بسنے والے شہری ایل پی جی گیس کے سلینڈر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے مجبوراً وہ لکڑیوں کو جلانے پر مجبور ہیں مگر یہ کام بھی کوئی سستا نہیں جبکہ خشک ایندھن کا ملنا بھی بڑی غنیمت ہے

نوشہرہ کے رہائشی سرفراز نے بتایا کہ ابھی تو سخت سردی آئی نہیں ہے اور حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں

سرفراز درانی نوشہرہ کے حکیم آباد کے علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گیس کی کمی کی وجہ سے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے تھے، سیلنڈر والی ایل پی جی گیس مہنگی بہت ہے اور وہ یہ نہیں خرید سکتے اس لیے مجبوراً وہ لکڑیاں لاتے ہیں

سرفراز نے بتایا کہ سردیاں آتے ہی ان کے علاقے میں لکڑیوں کے ٹال آباد ہو گئے ہیں مگر اب خشک لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ’جو جھاڑیاں 200 سے 300 روپے میں ایک من جاتی تھی اب اس کی قیمت 500 سے 600 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ایک من لکڑی کسی گھر میں 15 دن تو کہیں 20 سے 25 دن تک بھی چل جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا وہ غریب افراد جو لکڑیاں خریدنا بھی افورڈ نہیں کر سکتے اب ان کے دن کا بیشتر حصہ آبادی کے قریب واقع جنگل میں لکڑیاں ڈھونڈتے گزرتا ہے۔

انھوں نے اپنے علاقے میں لگے قدرتی گیس کے میٹر دکھائے اورکہا کہ ’یہ سب دکھاوے کے ہیں، کبھی کبھار گیس آ جاتی ہے لیکن اس کا پریشر بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔‘

داؤد پیشے کے لحاظ سے لوہار ہیں۔ انھوں نے گذشتہ دنوں ایک سیکنڈ ہینڈ ایل پی جی سلینڈر خریدا، اسے مرمت کیا اور اس میں 15 کلو گیس ڈالی جس پر ان کا لگ بھگ 3800 روپے خرچہ آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ گیس ان کے گھر میں 15 دنوں سے زیادہ نہیں چل سکتی مگر مجبوری ہے کیونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔

گیس سلینڈر دکان کے مالک محمد ارسلان نے بتایا کہ جس علاقے میں ان کی دکان ہے یہ یکہ توت کا علاقہ ہے اور یہاں قریبی علاقوں زرگر آباد اور ولی آباد میں گیس کی شدید کمی ہے اور یہاں سلینڈر کی مانگ بڑھ گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گیس کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے ویسے ہی اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ صرف یہی نہیں یہ ایک سلینڈر عام گھرانے کے لیے اگر دو سے تین وقت کا کھانا پکایا جائے اور کمرہ گرم کرنے کے لیے تھوڑی دیر لگایا جائے تو صرف آٹھ سے 10 دن تک چل سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گیس کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے ویسے ہی اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ صرف یہی نہیں یہ ایک سلینڈر عام گھرانے کے لیے اگر دو سے تین وقت کا کھانا پکایا جائے اور کمرہ گرم کرنے کے لیے تھوڑی دیر لگایا جائے تو صرف آٹھ سے 10 دن تک چل سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سردیاں شروع ہونے کے بعد سے اُن کی سیل میں 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور سلینڈر کی مانگ سردیاں بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

بلوچستان میں خون جما دینے والی سردی اور گیس غائب
صوبہ بلوچستان سے قدرتی گیس سنہ 1951 سے نکالی جا رہی ہے لیکن اس صوبے کے بھی بیشتر حصے اس صورتحال سے دوچار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تو درجہ حرارت منفی ایک اور منفی تین تک ہے لیکن آگے چل کر یہ درجہ حرارت منفی 15 تک گِر جاتا ہے اور اس خون جما دینے والی سردی میں گیس نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گیس کمپنی کی جانب سے بل آتے ہیں لیکن گیس نہیں آتی۔

صورتحال کو دیکھتے ہوئے رحیم بخن نے پرانے زمانے کی انگیٹھی نکال لی ہے اور اب وہ لکڑیاں لا کر انگیٹھی جلاتے ہیں۔ اس سے کمرہ گرم رہتا ہے اور دھویں کی نکاسی کے لیے چمنیاں یا لوہے کی چادر کے پائپ نصب کیے جاتے ہیں

رحیم بخش نے کہا کہ ان کی بدقسمتی ہے کہ اس طرف حکومت توجہ نہیں دے رہی، قدرتی گیس کم ہوئی تو ایل پی جی سلینڈرز اور لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، ہر کوئی اپنے منافع کو دیکھتا ہے یہاں کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close