معروف ناول نگار ارون دھتی رائے نے اپنی کتاب ’The Ministry of Utmost Happiness‘ میں وزیراعظم نریندر مودی کو ’گجرات کا لَلہ‘ شاید اس لیے کہا ہے کہ وہ گجرات کی عوامی سوچ پر اب اس قدر چھائے ہوئے ہیں کہ ستائیس برس بعد بھی یہاں انتخابات میں بی جے پی کسی دوسرے کو جیتنے تو کیا، ٹکنے بھی نہیں دے رہی ہے
(لَلہ، لاڈلے کو کہا جاتا ہے)
اکثر ہندو بھگوان کرشن یا رام چندر کو ان کے بچپن میں للہ سے پکارتے ہیں۔ تیس برس قبل جب ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری کے بعد اسے رام مندر قرار دیا گیا تھا تو اس سے پہلے ہی یہاں پر رام للہ کی مورتی رکھی گئی تھی۔ یہ انڈیا میں بی جے پی کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ موجودہ بھارت میں بی جے پی اور اس کے حامیوں کے لیے نریندر مودی للہ سے کم نہیں ہیں
میں دراصل گجرات اور ہماچل پردیش کے ریاستی انتخابات کی بات کرنا چاہتی ہوں، جن کے نتائج آنے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ گجرات کے اس للے نے صرف انڈیا کو ہی نہیں بدل دیا بلکہ اگلی دو دہائیوں تک دوسری قومی جماعتوں کو اپنا بوریا بستر باندھنے کا اشارہ بھی دیا۔ مبصرین کے مطابق 2024 کے پارلیمانی انتخابی نتائج کا پیش لفظ گجرات کے قلم سے آج رقم کر دیا گیا ہے
بی جے پی کی گجرات میں شاندار کامیابی سے روادار اور سیکولر ہندوؤں کی ایک چھوٹی تعداد پریشان ہے لیکن انڈیا کی اقلیتیں خود کو مزید غیر محفوظ تصور کرنے لگی ہیں جو انتخابات سے پہلے ہی ہجومی حملوں، بل ڈوزر سے گھر منہدم کرنے، لو جہاد میں گھیرنے اور گھر واپسی پر مجبور کرنے کی وارداتوں سے خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہیں
ماننا پڑے گا کہ ہندوتوا کے پھیلاؤ سے انڈیا کی جمہوریت سمٹ کر رہ گئی ہے۔ منحرف اور مخالفین کے لیے زمین تنگ پڑ رہی ہے۔ انسانی حقوق اور سماجی کارکنوں کی آوازیں خاموش ہوگئیں ہیں اور دانش گاہوں میں ملک کی تاریخ کو ازسرنو لکھنے کاعمل جاری ہو گیا ہے
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بی جے پی کی مخالف پارٹیاں اپنی ساخت اور کارکن بچانے کے لیے خفیہ اڈوں کی تلاش میں رہتی ہیں
ابھی گجرات اور ہماچل پردیش انتخابات کے ایگزیٹ پول ہی آئے تھے جس میں ہماچل پردیش میں کانگریس کی معمولی اکثریت کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ فوراً پارٹی کے اندرونی حلقوں سے خبر آئی کہ اس نے ہماچل میں کانگریس کے کامیاب امیدواروں کو بس میں بٹھا کر دوسری ریاست میں لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ بی جے پی کو انہیں ورغلانے کا موقع نہ ملے جو بقول کانگریس، گوا اور مہاراشٹر میں انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کے ایسے تجربوں سے گزر چکی ہے
ہماچل میں جہاں کانگریس کو معمولی سبقت حاصل ہے کچھ ایسا ہی منظر ابھرنے والا ہے
بی جے پی کی کامیابی کی پہلی وجہ سیکولر انڈیا میں اس کی ہندوتوا سوچ کی بھرپور حمایت ظاہر کرتا ہے۔ دوسرا، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پارٹی جس رفتار، تندہی اور سنجیدگی سے اپنی انتخابی مہم چلاتی آ رہی ہے، اس کی نظیر کسی دوسری جماعت میں نہیں ملتی ہے
خود وزیراعظم مودی نے گجرات میں 30 جلسے اور 15 گھنٹے کا سب سے لمبا روڈ شو کیا جبکہ کانگریس کا للہ راہل گاندھی دو ماہ سے زائد عرصے سے بھارت جوڑو یاترا میں سڑکوں کی خاک چھان رہا ہے
بعض سیکولر عوامی حلقوں نے کانگریس سے چیخ چیخ کر کہا کہ بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے لیے انتخابی حکمت عملی ترتیب دے کر بھارت جوڑو یاترا کو انتخابی مہم کا حصہ بنائیں۔ راہل نے محض ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرنے کے بعد راہ فرار اختیار کی
پھر کانگریس کے سینیئر رہنما جے رام رمیش کہتے ہیں کہ پارٹی کا واحد مقصد انتخابات جیتنا ہی نہیں ہوتا بلکہ ملک کے حالات سے عوام کو باخبر بھی کرنا ہوتا ہے۔ یقین کریں عوامی حلقوں بالخصوص کانگریس کے کروڑوں ورکروں کے لیے یہ ایک بہت بڑا مذاق تھا، بیشتر اپنا بوریا بستر گول کرنے پر پھر غور کرنے لگے
گجرات کے بعد اگلے سال چار پانچ اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی نے گجرات انتخابی نتائج آنے سے پہلی ہی اس کے لیے اپنی حکمت عملی ترتیب دی رکھی ہے
گجرات سے آنے کے فوراً بعد مودی نے دہلی میں پارٹی اجلاس طلب کر کے انتخابی مشینری کو متحرک کر دیا
اس کے جواب میں کانگریس نے اب ’ہاتھ جوڑو‘ کی پیدل یاترا شروع کرنے کا دوسرا منصوبہ بنایا ہے۔ بقول کانگریس کے ایک کارکن روی ملہوترا ’کانگریس اب ایک چھوٹی سی این جی او (غیر سرکاری انجمن) رہ گئی ہے جس میں زیادہ تر صوفی سنت ہی رہ گئے ہیں، سب سے بڑا سنت راہل گاندھی ہے جو عین ممکن عنقریب ہی کسی غار میں نظر آئیں گے۔‘
جرمنی کے فلسفی فریڈرک نتشے نے کہا تھا کہ ’خدا مرگیا ہے۔‘ لیکن انڈیا میں فلسفے کے پروفیسر اروند گپتا کہتے ہیں کہ ’لگتا ہے کہ انڈیا میں نتشے کا خدا دوبارہ زندہ ہوگیا ہے اور اس نے ہندوتوا کا روپ اختیار کیا ہے۔ نتشے نے خدا کو مار کر انسان کو اپنے اندر جھانکنے کا درس دیا تھا تاکہ مذہب کی آڑ میں استحصالی عناصر ختم کیے جا سکیں
’جو حالات انڈیا میں پیدا کیے جارہے ہیں ان کے مدنظر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہندوتوا بھگوان کو پیدا کرکے اس کی چھتر چھایا میں صرف گجرات کا للہ اور اس کی جنتا کو ہی زندہ رہنے کا حق ہوگا۔ راہل بابا، ان کے پیروکاروں، سیکولر ہندوؤں اور اقلیتوں کو شاید ایک بڑی غار کو تلاش کرنا ہوگا یا پھر نتشے کو زندہ کر کے ہندوتوا کے خدا کو دوبارہ مارنا ہوگا۔‘
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)