کامیڈین اسرانی کی کامیابی میں ہٹلر کیسے معاون بنے؟

ویب ڈیسک

بالی وڈ کے معروف مزاحیہ اداکار گوردھن اسرانی کے سامنے ایڈولف ہٹلر کی تصاویر تھیں، جو لکھاری جوڑی سلیم جاوید نے پیش کی تھیں۔ اسرانی بغور ان تصاویر کو دیکھ رہے تھے اور ان کے ذہن میں ان گنت سوال چکرا رہے تھے

تبھی جاوید اختر نے انہیں بتایا کہ رمیش سپی کی فلم ’شعلے‘ میں انہیں جیلر کا کردار ادا کرنا ہے۔ اسرانی کے چہرے پر فکر سے سلوٹیں پڑ گئیں۔ پھر انہوں نے ہٹلر کی تصویر پر نگاہ ڈالی۔ تبھی انہیں بتایا گیا کہ اس تخلیق میں ان کا گیٹ اپ بالکل ہٹلر جیسا ہی ہوگا

گوردھن اسرانی بالی وڈ میں ہیرو بننے کا ارمان لے کر آبائی شہر جے پور سے بمبئی آئے تھے۔ کسی نے بتایا کہ اگر اداکاری کرنی ہے تو پہلے اسے سیکھ لو۔ اسی بنا پر پونے کے فلم انسٹیٹیوٹ میں 1964 میں شمولیت اختیار کی

اداکاری کے اسرار و رموز سکھانے والا یہ وہی اسکول ہے، جہاں سے بھارت کے کئی شہرت یافتہ اداکار وابستہ رہے

اسرانی بار بار فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتے رہے، بہرحال ان کی خوش قسمتی تھی کہ ہدایت کار ہریش کیش مکھرجی نے ان کی اس محنت کا صلہ اپنی چند فلموں میں دے ہی دیا

اس کے بعد اسرانی نے ’پریچے،‘ ’انامیکا،‘ ’ابھیمان،‘ ’نمک حرام،‘ ’آپ کی قسم‘ اور ’چپکے چپکے‘ میں بھی اداکاری کی لیکن ان تمام فلموں میں کام کرنے کے باوجود اب تک اپنی منزل سے دور تھے

کیونکہ ان فلموں میں ان کے کردار مختلف نوعیت کے تھے۔ جو بھی کردار ملتا، چاہے وہ کامیڈین کا ہوتا یا پھر معاون اداکار کا یا پھر ولن کا، آنکھ بند کرکے قبول کر لیتے، لیکن اب وہ وقت آ گیا تھا کہ ان کے دل میں خواہش جاگنے لگی کہ کسی طرح خود کو کسی ایک شعبے میں تسلیم کرا لیں

اسرانی کے لیے یہ اعزاز بھی کم نہیں تھا کہ 1974ع میں انہیں ’آج کی تازہ خبر‘ میں بہترین کامیڈین کا فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ غالباً یہی ایوارڈ اور پرفارمنس تھی، جس نے ہدایت کار رمیش سپی کو مجبور کیا کہ وہ شہرہ آفاق فلم ’شعلے‘ کے لیے اسرانی کو منتخب کریں

اسرانی اس سے پہلے 1972 میں بھی رمیش سپی کی ہی فلم ’سیتا اور گیتا‘ میں بطور مہمان اداکار کام کر چکے تھے۔ اسرانی کو لگا کہ اس بار رمیش سپی کے ساتھ ان کی قسمت اور زیادہ مہربان ہوگی اور انہیں بڑا کردار مل ہی جائے گا۔ یہ سوچ کر وہ خاصے مسرور تھے

سلیم خان اور جاوید اختر اسرانی کو بتا رہے تھے کہ ان کا گیٹ اپ بالکل ہٹلر جیسا ہوگا، ویسے ہی ان کے بال کٹوائے جائیں گے، وہیں ان کی ناک کے نیچے ننھی منی سی مونچھیں ہوں گی جبکہ ان کے چلنے کا انداز بھی ہٹلر جیسا ہی ہوگا اور اس سارے کام کے لیے وگ میکر کبیر کی جبکہ ملبوسات کے لیے اکبر کی خدمات حاصل کی جائیں گی، جو اپنے اپنے شعبے میں خاصے مشہور اور مقبول ہیں

اسرانی کو بتاتے ہوئے یہی ذہن بنا ہوا تھا کہ وہ تھوڑا بہت گھبرائیں گے لیکن اسرانی بڑی دلچسپی اور انہماک سے سن رہے تھے۔ انہوں نے اسکرپٹ کو اب سنبھال لیا تھا، جسے پڑھنے کے بعد ان کا چہرہ لٹک گیا کہ کیونکہ یہ بھی مختصر نوعیت کا کردار تھا۔ اسرانی کو یہ معلوم تھا کہ ’شعلے‘ میں میگا اسٹار کاسٹ ہے اور ان کی چھٹی حس اس جانب اشارہ کر رہی تھی کہ رمیش سپی کی یہ فلم بہت بڑی ہٹ ثابت ہوگی۔ اسی لیے انہوں نے اس مختصر کردار کو ادا کرنے کی ہامی بھر ہی لی

جاوید اختر نے بتایا کہ اس کردار کی آواز میں اتار چڑھاؤ ہے۔ اسرانی نے مسکراتے ہوئے ایک مخصوص انداز میں لکھے ہوئے ڈائیلاگ پڑھے اور آخر میں ایک زوردار قہقہہ بھی لگایا۔ جاوید اختر، سلیم خان اور ہدایت کار رمیش سپی تو جیسے نشست سے اچھل گئے۔ کیونکہ اسرانی نے ان مکالموں کو اسی طرح ادا کیا، جیسے وہ چاہتے تھے

ادھر اسرانی دل ہی دل میں پونے کے فلم انسٹیٹیوٹ کے ٹیچر روشن تنوجا کو دعائیں دے رہے تھے، جنہوں نے انسٹیٹیوٹ میں خاص طور پر ہٹلر کی آواز کا ایک ریکارڈ رکھا ہوا تھا، جو امیدواروں کو صوتی تاثرات کی بہتر معاونت اور ادائیگی کے لیے محفوظ تھا

جب انہیں بتایا جا رہا تھا کہ کم و بیش ہٹلر کا ہی روپ دھارنا ہے تو انہوں نے اس کردار میں اور حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ہٹلر کی آواز کی ہی نقالی کر کے وہاں موجود سب لوگوں کے سامنے پیش کر دی

بالخصوص اسرانی نے جب ”ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ آہا۔۔۔“ والا مکالمہ ادا کیا
تو ہر ایک کے چہرے پر خوشگوار حیرت کے آثار تھے

اب 15 اگست 1975 کو جب ’شعلے‘ سینیما گھروں کی زینت بنی تو اس شاہکار کا ہر کردار سپر ہٹ ہوا۔ چاہے وہ گبر سنگھ ہو، ٹھاکرصاحب، سورما بھوپالی، بسنتی، جے ویرو، ماسی اور سامبا سبھی نے اپنی جگہ دلوں میں بنائی لیکن انگریزوں کے زمانے کے جیلر اسرانی تو جیسے چند منٹوں کے کردار میں ہی چھا گئے

ان کے مخصوص لب و لہجے میں بھرے ڈائیلاگ، ان کا چلنا پھرنا اور پھر آنکھوں کے ساتھ ساتھ آواز کے اتار چڑھاؤ نے تو جیسے اسرانی کو پلک جھپکتے میں شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچا دیا، جس کا وہ تصور کر کے فلم نگری میں آئے تھے

اسرانی کی اداکاری کے ہر جانب ڈھول بجنے لگے۔ ان کے لیے یہ اعزاز کیا کم ہوگا کہ اگلے سال وہ بہترین کامیڈین کے لیے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے۔ اسرانی کے لیے یہ بات بڑی امید افزا تھی کہ انہیں باقاعدہ کامیڈین تسلیم کر لیا گیا تھا

اس ایک چھوٹے سے مختصر کردار میں ایسی کشش تھی کہ اسرانی کے لیے فلمی دنیا کی راہ اور آسان ہوتی چلی گئی۔ یہ کردار تو جیسے ان کی پہچان بن گیا۔ آنے والے دنوں میں اسرانی نے بطور کامیڈین کئی فلموں میں کام کر کے شہرت کمائی لیکن ’انگریزوں کے زمانے کے جیلر‘ نے انہیں مستند کامیڈین بنا دیا

اسرانی نے اداکاری ہی نہیں گلوکاری بھی کی جبکہ چھ فلموں کی ڈائریکشن بھی دی

فلم نگری کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ دینے والے اسرانی نے ’آج کی تازہ خبر‘ کی ہیروئن منجو سے 1975ع میں ہی بیاہ رچایا تھا

بیاسی برس کے اسرانی کہتے ہیں ”اگر پونے انسٹیٹیوٹ میں ہٹلر کی آواز کی ریکارڈنگ نہ ہوتی تو ممکن ہے وہ ’شعلے‘ کے جیلر والے کردار کے ساتھ بہتر طور پر انصاف بھی نہ کر پاتے۔ اس اعتبار سے اپنی کامیابی کا کریڈٹ وہ ہٹلر کو ہی دیتے ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close