یوں تو فطری حسن سے مالا مال آزاد کشمیر سیاحت کے حوالے سے ایک منفرد پہچان رکھتا ہی ہے، لیکن یہاں کی وادیِ نیلم کا ایک حصہ ایسا بھی ہے، جو تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے
وادیِ نیلم میں دریائے نیلم کے نیلگوں پانی کے ساتھ واقع تحصیل شاردہ میں ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والی شاردہ یونیورسٹی اس علاقے کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے
اس متعلق شاردہ اینڈ کیل ٹورسٹ لاجز کے نگران جان شیر خان بتاتے ہیں ”اس یونیورسٹی کے بارے میں پنڈت کلہن اپنی راج ترنگنی میں تفصیلاً ذکر کرتے ہیں کہ یہ تین ہزار سال قبل مسیح میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور عبادت گاہ تھی“
انہوں نے بتایا ”یہاں پر پوری دنیا بشمول جاپان، سنگاپور اور چین سے لوگ زیارت کے لیے آتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مدہومتی نالہ ہے، جس میں آ کر وہ سب سے پہلے غسل کرتے تھے اور پھر پاک صاف ہو کر یہاں آتے تھے“
شاردہ یونیورسٹی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”زائرین یہاں آ کر قیمتی زیورات اور پیسے اس کی نذر کرتے تھے اور منتیں بھی مانگتے تھے“
جان شیر خان نے یونیورسٹی کے تعلیمی پہلوؤں کے متعلق بتایا ”اس یونیورسٹی میں ہیئت، منطق اور فلسفے کی تاریخ یہ بھی ہے کہ دنیا کی زبانیں شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہیں۔ شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے“
اس یونیورسٹی کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے بتایا ”چودہ سو سال تک تو اس کی تاریخ ملتی ہے کہ کشمیر کے سب سے بڑے بادشاہ زین العابدین بھٹ شاہ جب اپنے والد کی وفات کے بعد یہاں آئے اور انہوں نے اس یونیورسٹی کی شہرت سنی تو زیارت کے لیے اس یونیورسٹی آئے“
جان شیر خان کے بقول ”تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت انہوں نے یہاں کے طلبہ میں چھ لاکھ کی مٹھائی تقسیم کی“
انہوں نے بتایا ”شاردہ یونیورسٹی کی لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ اس میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔ اس جامعہ کے کیمپس تو انڈر گراؤنڈ ہو گئے لیکن عبادت والا شعبہ ابھی تک دیکھا جا سکتا ہے“
ان کا مزید کہنا تھا ”اس عبادت گاہ کے اندر ایک بہت بڑا تالاب تھا جس میں جلد کے مسائل کے شکار افراد آ کر غسل کرتے تھے اور شفا پاتے تھے“