نزلہ زکام سے بچنے کے لیے ناک کو گرم رکھنے کی ترکیب کیسے کام کرتی ہے؟

ویب ڈیسک

حال ہی میں ’دی جرنل آف الرجی اینڈ کلینکل امیونولوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے تفصیلات بتائی گئی ہیں کہ سردی کے مہینوں میں وائرل انفیکشن میں اتنا واضح اضافہ کیوں ہوتا ہے؟ اور اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح جسم کا مدافعتی نظام ناک کے اندر گھسنے والے وائرس پر حملہ کرتا ہے، جو ناک کے گرم ہونے کی صورت میں یہ زیادہ بہتر کام کرتا ہے

تحقیق کی قیادت میں شامل نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے فارماسیوٹیکل سائنسز کے پروفیسر منصور امیجی نے خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ یہ دریافت عام نزلہ زکام اور دیگر وائرس کے خلاف حتمی علاج کی راہ ہموار کر سکتی ہے

تحقیق کے مطابق گرم ناک نزلہ زکام سے لڑنے میں اس لئے بہتر ہے کہ لوگ سردیوں میں گھر کے اندر زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور وائرس کم نمی والی اندرونی ہوا میں بہتر طور پر زندہ رہتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں زیادہ یقین نہیں ہے کہ آیا کم درجہ حرارت دراصل انسانی قوت مدافعت کو کمزور کرتا ہے اور اگر ایسا ہے تو کیسے؟

اس تحقیق کی ابتدا 2018ع میں امیجی اور ان کے ساتھیوں کی اس ریسرچ سے ہوئی تھی، جس میں پتہ چلا تھا کہ ناک کے خلیات نے "ایکسٹرا سیلولر ویسیکلز” (EVs) کو خارج کیا، جو ننھے منے تھیلوں کا ایک ایسا سپرے ہے، جو سانس لینے پر ہلہ بول کر جراثیم کو تباہ کر دیتا ہے

امیجی کا کہنا تھا ”ہمارے پاس جو بہترین مشابہت ہے وہ بھڑوں کا چھتہ ہے“ اپنے چھتے کو حملے سے بچانے والی بھڑوں کی طرح، ای وی بھی ہلہ بول کر حملہ آوروں کو مار ڈالتے ہیں

نئی تحقیق کے لیے ٹیم نے دو اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی، پہلا یہ کہ کیا وائرل انفیکشن کی موجودگی میں ای وی بھی ناک سے نکلنے والی رطوبت میں شامل ہیں؟ اور، اگر وہ ہیں، تو کیا ان کے ردعمل کی طاقت درجہ حرارت سے منسلک ہے؟

پہلے سوال کا جواب حاصل کر نے کے لیے، ماہرین کی ٹیم نے ایک ایسا آزمائشی مادہ استعمال کیا، جو کسی وائرل انفیکشن کی نقل تھا تاکہ ناک کی رطوبت والی جھلی ’میوکوسا‘ کو متحرک کیا جا سکے۔ یہ ’پولپس‘ کو ختم کرنے کے لیے سرجری کروانے والے رضاکاروں سے لیا گیا تھا

دوسرے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے، انہوں نے ناک کے خلیوں کے نمونوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا اور انہیں لیبارٹری میں کلچر کیا

نمونوں کے ایک سیٹ کو 37 ڈگری سیلسیس اور دوسرے کو 32 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھا

درجہِ حرارت کا انتخاب ایک الگ ٹیسٹ کی بنیاد پر کیا گیا، جس میں پتہ چلا کہ جب باہر کی ہوا 23 ڈگری سینٹی گریڈ سے 4 سینٹی گریڈ تک گر جاتی ہے، تو ناک کے اندر کا درجہِ حرارت تقریباً 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے

معمول کے حالات کی جسم کی گرمی میں، ای وی کامیابی کے ساتھ وائرس سے لڑنے میں کامیاب ہوئیں، انہیں ریسیپٹرز کے بجائے ’ڈیکوئی‘ یعنی دھوکہ دینے اہداف کا جال بچھایا جو بصورت دیگر خلیات کو اپنا نشانہ بناتے

تاہم کم درجہِ حرارت میں، کم ای وی پیدا ہوئی تھیں، اور جو پیدا ہوئیں ان میں حملہ آوروں کے خلاف ٹیسٹ کیے گئے دو ایسے وائرس، رائنو وائرس اور ایک نان کووڈ کورونا وائرس ملے، جو عام طور پر سردی کے موسم میں پائے جاتے ہیں

ہارورڈ میڈیکل اسکول اور میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر کے سرجن اور تحقیق کے شریک مصنف بینجمن بلیئر کہتے ہیں ”کبھی اس کی کوئی قابلِ یقین وجہ نہیں ملی تھی کہ سردی کے مہینوں میں وائرل انفیکشن میں اتنا واضح اضافہ کیوں ہوتا ہے۔ یہ تعداد کے لحاظ سے اور حیاتیاتی طور پر پہلی قابل فہم وضاحت ہے جو تیار کی گئی ہے“

پروفیسر منصور امیجی نے کہا کہ کام کے سب سے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ جسم میں وائرس کو نشانہ بنانے والی ای وی کی قدرتی پیداوار کو دوبارہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے، تاکہ نزلہ زکام سے لڑا یا اس سے بچا بھی جا سکے، یہاں تک کہ فلو اور کوویڈ سے بھی

امیجی کہتے ہیں ”یہ ہمارے لیے بہت دلچسپی کا شعبہ ہے اور ہم یقینی طور پر اس میں کوشش جاری رکھیں گے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close